امریکی فلبرائٹ۔نہرو فیلو اور فنکارہ ریچل برین نے ہندوستان میں اپنے پروجیکٹ کی تکمیل کے لیے یہاں قیام کے دوران دست کاری کی روایت، ملبوسات اور پائیداری کے باہمی تعلق پر تحقیق کی۔
January 2024
ریچل برین سریندر شیخاوت کے ساتھ راجستھان کے باگرو میں دھیرج چھیپا کے اسٹوڈیو میں کام کرتے ہوئے۔ باگرو گاؤں اپنے بلاک پرنٹس کے لیے مشہور ہے جو عام طور پر قدرتی رنگوں کی مدد سے کیے جاتے ہیں۔ (تصویر بشکریہ ریچل برین)
ریچل برین نے گیارہ برس کی چھوٹی سی عمر میں کپڑوں کی سلائی کرنا سیکھ لیا تھا۔ وہ بتاتی ہیں ’’ میں بہت زیادہ کپڑے سیتی تھی کیوں کہ میرے والدین میری پسند کے کپڑے خریدنے سے قاصر تھے۔‘‘ یہی وجہ تھی کہ گریجویٹ اسکول میں ہی برین نے سلائی مشین کو مصوّری کے آلے کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔
دریں اثنا ۲۰۱۳ء میں جب بنگلہ دیش میں کپڑوں کی ایک فیکٹری کی عمارت کے گرنے کے نتیجے میں ایک ہزار سے زیادہ مزدور دب کر ہلاک ہوگئے تو برین کو کپڑہ مزدوروں اور ان کے مسائل کے درمیان ایک گہرے رشتے کا ادراک ہوا۔ برین ، انوکا رامسے کمیونٹی کالج میں آرٹ کی ٹینیور ڈپروفیسر (کسی کالج یا یونیورسٹی کا ایسا استاد جو کُل وقتی طور پر ادارے سے وابستہ ہواور جسےاپنی نوکری جانے کا خوف نہیں ہو تاکہ وہ علمی آزادی والے ماحول میں کام کرسکے)ہونے کے ساتھ ساتھ اپنا ذاتی اسٹوڈیو بھی چلاتی ہیں۔۲۰۲۲ء میں برین کو فلبرائٹ ۔ نہرو علمی اور پیشہ ورانہ فضیلت اعزاز برائے تحقیق سے نوازا گیا۔ ان کے پروجیکٹ کا عنوان تھا ’’ کپڑے اور منصفانہ تجارت: آرٹ کے ذریعہ پائیدار اور احترام پر مبنی عالمی معیشت کا تصور۔‘‘ برین نے اپنے پروجیکٹ کے تحت پانچ ماہ تک ہندوستان کے شہر جے پور میں واقع انڈین انسٹی ٹیوٹ فار کرافٹ اینڈ ڈیزائن میں قیام کیا۔ پیش ہیں ان سے اسپَین کے انٹرویو کے اہم اقتباسات۔
آپ استعمال شدہ کپڑوں کا ہی کیوں انتخاب کرتی ہیں۔ نیز ،آپ ان سے کیا بناتی ہیں؟
استعمال شدہ کپڑوں کو کاٹ کر ان سے نئی نئی پوشاکیں تیار کرنے کے عمل سے منصفانہ اور پائیدار ملبوسات کے نظام کو تقویت ملتی ہے۔ استعمال شدہ کپڑوں کو کاٹ کر نئے ملبوسات تیار کرنے کا اہم مقصد مزدوروں اور پہننے والوں کی تاریخ کو اپنے کام میں ضم کرنا ہےجس سے ضرورت سے زیادہ پیداوار کے نتیجے میں ہمارے ماحول پر منفی اثرات پر بحث و مباحثہ شروع ہو گیا ہے۔
میں استعمال شدہ کپڑوں کو کاٹ کر ان سے دوبارہ نئی نئی چیزیں تیار کرتی ہوں۔ میں نے ’’اجتماعی ملبوسات‘‘ تیار کیے ہیں جو بیک وقت کئی لوگوں کے استعمال کے لائق ہوتے ہیں۔ مثلاً ایک ایسی قمیض جس میں گیارہ آستینیں تھیں یا ایک ایسا لباس جس میں تین گلے تھے۔ دراصل یہ اجتماعی اقدام کا استعارہ ہے جو کہ معاشی تبدیلی کےلیے درکار ہے۔ میں نے استعمال شدہ کپڑوں کو کاٹ کر بینراور جھنڈیاں تیار کیں جنہیں نمائشوں میں اور عمارتوں پر لٹکایا جاسکتا ہے۔
ریچل برین نیو ہیمپشائر کے میک ڈویل آرٹسٹ ریذیڈنسی میں قائم اپنے اسٹوڈیو میں۔ (تصویر بشکریہ ریچل برین)
براہ کرم ہندوستان میں اپنے فلبرائٹ۔نہرو پروجیکٹ کے بارے میں بتائیں۔
میں نے دست کاری کی روایت، لباس، پائیداری، منصفانہ تجارت، نیز سماجی کاروبار کے باہمی رشتوں پر تحقیق کی جس میں مزدوروں کو فوقیت دی گئی اور انہیں کام کرنے کے لیے ایک محفوظ ماحول فراہم کیا گیا۔ ہندوستان میں ملبوسات تیار کرنے کی متعدد کارخانے ہیں ، نیزہندوستان پائیدارترقی، منصفانہ تجارت، ہزاروں کاری گروں کی امداد ، خواتین کو دفتروں اور روزمرہ کی زندگیوں میں بااختیار بنانے کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہے۔میں عالمی ملبوسات صنعت کے متبادل، خاص طور پر ہندوستان میں اس میدان میں جو کام ہو رہا ہے، سیکھنا چاہتی تھی۔
میری ملاقات بعض ایسے کاریگروں سے ہوئی جن کے پاس ملبوسات کے متعلق بہت غیر معمولی علم تھا اور وہ اس میدان کے باصلاحیت افراد ہیں۔ ان کوکپڑوں کو رنگنے، کپڑا بُننے اور بلاک پرنٹنگ کی زبردست معلومات تھی۔ میری ملاقات ان لوگوں سے بھی ہوئی جودائرہ دار ڈیزائن بنارہے ہیں اور کپڑا بالکل بھی برباد نہیں کرنے کا لائحہ عمل اختیار کررہے ہیں۔ میری ملاقات ان لوگوں سے بھی ہوئی جوملبوسات کے کارخانوں میں کپڑوں کی باقیات سے نئے ملبوسات تیار کررہے ہیں۔ میں نے دست کاری کے پائیدارعمل کے متعلق بھی جانااورایسی چیزیں تخلیق کیں جو اس فلسفہ اور تحقیق کا انعکاس کرتی ہیں۔ میں نے ڈابو، بنفشہ ڈائی، اور ہاتھ سے بنا ہوا اور بُنے ہوئے نامیاتی کالے سوتی کپڑے کی مدد سے بڑے بڑے بینر تیار کیے جن کی نمائش انڈین انسٹی ٹیوٹ برائے کرافٹ اور ڈیزائن میں کی گئی۔
’’بینرس فار دی کامنس‘‘ کو، جسے ریچل برین نے اپنے فلبرائٹ نہرو پروجیکٹ کے دوران بنایا تھا، جے پور میں ان کے میزبان ادارے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف کرافٹ اینڈ ڈیزائن میں آویزاں کیا گیا تھا۔ (تصویر بشکریہ ریچل برین)
کیا آپ نے کبھی فلبرائٹ۔نہرو پروجیکٹ کے دوران بنائی گئی چیزوں کی نمائش عوام الناس کے لیے کی ہے؟
جی بالکل۔ میں نےہندوستان میں جو بینر بنائے تھے ان کی نمائش’’بینرس فار کامنس‘‘(عام آدمیوں کے لیے بینرس) کے نام سے ریاست منیسوٹا کے شہر منیاپولس میں واقع ’وائزمین آرٹ میوزیم ‘اورریاست منیسوٹاکے ہی شہر کالج وِل میں واقع ’ایلیس روجرس گیلری‘ میں کی۔بہت جلد ان کی نمائش ریاست وِسکونسِن کے شہر رائن لینڈر میں واقع ’آرٹ اسٹارٹ گیلری‘ میں کی جائے گی۔ میں نے اپنی فلبرائٹ۔نہرو تحقیق کے متعلق منیسوٹا کے کئی کالجوں میں درس بھی دیےہیں۔
کیاہندوستان کے کپڑا کاریگروں کے ساتھ ہوئے تجربے آپ کے دیگر پروجیکٹوں پر اثرانداز ہوئے ہیں؟
گوکہ مجھے ابھی بھی محسوس ہوتا ہے کہ جو کچھ میں نے ہندوستان میں سیکھا ہے اور تجربہ کیا ہے اسے میں’’ہضم‘‘ کررہی ہوں۔ تاہم ہندوستان میں کپڑا بنانے کے طریقے نے مجھے بہت متاثرکیا ہے۔ فلبرائٹ۔نہرو پرو جیکٹ کی پوری مدت کے دوران میں مستقل یہی سوچتی رہی کہ کپڑا بنانے اور پیدا کرنے کا روزانہ کا عمل کیسا ہوگا۔
براہ کرم اپنے آئندہ پروجیکٹوں کے بارے میں کچھ بتائیں۔
میں بہت جلد ایک نمائش منعقد کررہی ہوں جس میں ہندوستان میں قیام کے دوران تیار کیے گئے بینر لگائے جائیں گے۔ میں پرانے کپڑوں کو کاٹ کر بنائے گئے نئے بینرس کی ایک سیریز بھی تیار کررہی ہوں۔
میں نے ہندوستان میں قیام کے دوران ہاتھ سے بلاکس بنوائے تھے۔ میں ان بلاکس کی مدد سے استعمال شدہ کپڑوں کے ٹکڑوں پر بلاک پرنٹنگ کررہی ہوں۔ یہ وہی بلاکس ہیں جن کی مدد سے میں نے وہاں بینرس بنائے تھے۔ میں سلائی ٹانکہ کے نشان کو انسانوں کے ایک دوسرے پر انحصار کے استعارہ کے طور پر استعمال کرتی ہوں۔ میں نے ایک دائرے کے دو حصوں کا استعمال کرکے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہمیں ایک ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے تاکہ ہم میں اتحاد پیدا ہوسکے۔ ان تمام علامات کے علاوہ کچھ نئی علامات بھی ہیں جنہیں میں اپنے بینر میں شامل کروں گی۔ میری فلبرائٹ۔نہرو تحقیق کا ’’نشان‘‘بہر کیف اس نئے کام میں شان سے ظاہر ہوگا۔
اسپَین نیوز لیٹر کو مفت میں میل پر منگوانے کے لیے لنک میں دیے گئے فارم کو بھریں: https://bit.ly/SubscribeSPAN
تبصرہ