سبز مستقبل کی تعمیر

آئی وی ایل پی کے سابق طالب علم پرکاشل مہتا کے پائیداری اور فضلہ کے دوبارہ استعمال کی پہل کے اقدامات ماحولیاتی طور پر باشعور طبقات کی تشکیل کررہے ہیں۔

برٹن بولاگ

April 2024

سبز مستقبل کی تعمیر

طلبہ ’پین پالز‘ تحریک کے ایک حصے کے طور پر استعمال شدہ قلم یکجا کرتے ہیں۔ ایسا کرنا قلم کو دوبارہ استعمال کرنے کے طریقے تلاش کرنا ہے تاکہ ان قلموں کو ڈلاؤ میں نہ بھیجنا نہ پڑے۔(تصویر بشکریہ پرکاشل مہتا)

پرکاشل مہتا کو جب ۲۰۲۳ء میں موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے طریقوں پر غور کرنے والے ایک کثیر ملکی گروپ کے حصے کے طور پر امریکہ کا دورہ کرنے کے لیے مدعو کیا گیا تو اس وقت وہ پہلے ہی سے ہندوستان میں ماحولیاتی تحفظ اور پائیداری کے تعلق سے بیداری پیدا کرنے میں ڈیڑھ دہائی گزار چکے تھے۔

تین ہفتوں پر محیط انٹرنیشنل وزیٹر لیڈرشپ پروگرام (آئی وی ایل پی)، امریکی محکمہ خارجہ کا اہم پیشہ ورانہ تبادلہ پروگرام ہے جس میں ایشیا اور بحرالکاہل کے خطوں سے تعلق رکھنے والے تقریباً۶۰ شرکا ء نے موسمیاتی تبدیلی سے متعلق سرکاری اور نجی اقدامات کے بارے میں معلومات حاصل کرنے اور خیالات کے اشتراک کے لیے چار امریکی شہروں کا دورہ کیا۔ مہتا کہتے ہیں کہ یہ دورہ بہت اہمیت کا حامل تھا کیونکہ اس سے انہیں ساتھی شرکا ءکے ساتھ تبادلہ خیال کرنے اور امریکہ میں کیے جارہے اقدامات سے سیکھنے کا موقع ملا۔

وہ بتاتے ہیں ’’میں نے محسوس کیا کہ امریکہ میں سرکاری ایجنسیوں سے لے کر نجی کمپنیوں تک ہر کوئی حل کی تلاش کے لیے کام کرنے کے لیے تیار ہے اور ان کے پاس ایسا کرنے کے لیے وسائل موجود ہیں۔‘‘وہ مزید کہتے ہیں ’’جب مجھے وہائٹ ہاؤس میں ’نیٹ زیرو‘ حکمت عملی کی قیادت کرنے والی صدارتی ٹیم سے ملاقات کے لیے مدعو کیا گیا تو میں نے اس پہل کی ستائش کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم دوسروں کے لیے مثال بن کر قیادت کرتے ہیں۔‘‘ اس حکمت عملی کا مقصد ۲۰۵۰ء تک ’نیٹ زیرو‘ امریکی معیشت کا ہدف حاصل کرنا ہے یعنی ایسی معیشت جو کسی بھی اصلاحی طریقہ کار کے ذریعے ماحول سے خارج گیسوں سے زیادہ ماحولیات مضر گیس پیدا نہیں کرے گی۔

مہتا کہتے ہیں ’’اگر وہ ایسا کرپاتے ہیں تو یہ دنیا بھر کی کمپنیوں اور حکومتوں کے لیے ایک مثالی چیز بن سکتی ہے۔‘‘

ماحولیاتی پروگرام

مہتا پہلے ہی سے ملک میں اس مقصد کے لیے کام کرتے رہے ہیں۔ ۲۰۰۹ء میں انہوں نے اپنے ایک ساتھی کے ساتھ مل کر احمد آباد میں ’ورلڈ اراؤنڈ یو ‘(ڈبلیو اے وائی) کے نام سے ایک سماجی ادارہ )سوشل انٹرپرائز( قائم کیا۔ ’ڈبلیو اے وائی‘ گجرات بھر کے اسکولوں میں پانچویں سے ساتویں جماعت کے طلبہ کے لیے ماحولیاتی استحکام پرمبنی تعلیمی پروگرام فراہم کرتا ہے۔ یہ سرکاری ایجنسیوں، کاروباری اداروں اور دیگر تنظیموں کے لیے ماحولیاتی امور پر مواصلاتی خدمات بھی فراہم کرتا ہے۔

اسکول کے طلبہ کے ساتھ یہ پروگرام ایک دستی نقطہ نظر کا استعمال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر کچھ شرکاء کو اپنے اسکولوں اور گھروں میں پانی رِسنے (لیک) کا سروے کرنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد ان پر زور دیا جاتا ہے کہ وہ صاف پانی کو بچانے کے لیے لیک کی مرمت کے لیے اسکول اور مقامی عہدیداروں پر دباؤ ڈالیں۔ یہ مشق انہیں اپنے قدرتی ماحول کے تحفظ کا مطالبہ کرنے کا اختیارفراہم کرتی ہے۔

۲۰۱۷ء میں مہتا نے صارفین کے لیے پائیدار مصنوعات کی بازارکاری کے لیے ایک اور کمپنی، ہرا پٹارا یعنی ’گرین ٹریزر باکس‘بنائی۔ بنیادی طور پر بانس یا کاغذ سے تیار کردہ مصنوعات میں قلم، اسٹیشنری، موسیقی کے آلات، وائرلیس چارجر ،کی بورڈ اور کمپیوٹرماؤس شامل ہیں۔ مہتا کہتے ہیں کہ کمپنی کا مقصد ’’پائیدار مصنوعات کو عام لوگوں کے لیے زیادہ سستی اور قابل قبول بنانا ہے۔‘‘

وہ کہتے ہیں کہ شروع میں لوگوں نے ان کی مصنوعات کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ لیکن اب ’’ہم لوگوں کے رویوں میں ایک بہت بڑا فرق دیکھ رہے ہیں۔لوگ ان مصنوعات کو بڑے پیمانے پر اپنا رہے ہیں۔‘‘

پین پالز

بے مقصد اور فضول خرچی طویل عرصے سے مہتا کے لیے پریشانی کا باعث رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ایک تحریک شروع کی جسے انہوں نے ’پین پالز ‘کا نام دیا۔ قلموں کی فروخت اور دیگر معلومات کے اعداد و شمار کی بنیاد پر مہتا کا اندازہ ہے کہ دنیا بھر میں ہر سال اربوں سستے پلاسٹک پین پھینک دیے جاتے ہیں۔ یہ کوڑے کے ڈھیر میں پہنچ جاتے ہیں اور اس میں سے کچھ پلاسٹک کا فضلہ آبی گزرگاہوں تک پہنچ جاتا ہے جہاں یہ بہت چھوٹے پلاسٹک ذرّات کی شکل میں پانی کو آلودہ کرتا ہے اور سمندری زندگی کو نقصان پہنچاتا ہے۔

پین پالز تحریک کے ذریعے طلبہ کو استعمال شدہ پلاسٹک قلم جمع کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ ان قلموں کو جمع کرنے کی پہلی کوشش ۲۰۱۳ء میں لڑکیوں کے ایک سرکاری اسکول میں کی گئی تھی۔ مہتا بتاتے ہیں ’’انھوں نے یہ چیلنج قبول کر لیا اور تین سے چار مہینے کے بعد انھوں نے جو کچھ جمع کیا تھا، اسے لینے کے لیے ہمیں بلا یا۔ میں موٹر سائیکل سے وہاں یہ سوچ کر گیا کہ وہ استعمال شدہ قلموں کا ایک پیکٹ میرے حوالے کر یں گے۔ لیکن جب میں وہاں پہنچا تو میں نے فرش پر پرانے قلموں کا ایک بہت بڑا ڈھیردیکھا جس کا وزن ۵۰۰ کلو گرام تھا۔‘‘

لیکن قلموں کو صرف جمع کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا کیوں کہ پلاسٹک کو دوبارہ قابل استعمال بنانے والے ایسے قلم لینے سے منع کر دیتے ہیں۔ مہتا کہتے ہیں چونکہ وہ عام طور پر پانچ سے چھ قسم کے پلاسٹک سے بنے ہوتے ہیں، انہیں دوبارہ قابل استعمال بنانا مشکل ہوتا ہے۔ لہذا ہماری ٹیم خالی اشیا ءکے استعمال کو فروغ دینے پر کام کر رہی ہے اور پہلے ہی ان سے فرنیچر سجانے کے طریقے تلاش کر چکی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اس کا اصل حل یہ ہے کہ ایک بار استعمال کیے جاسکنے والے قلم کی پیداوار اور فروخت میں کمی لائی جائے جو اصل میں ضرورت سے کہیں زیادہ تعداد میں تیار کیے جاتے ہیں۔ مہتا کہتے ہیں ’’ہم اسکولوں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں تاکہ طلبہ کی حوصلہ افزائی کی جاسکے کہ وہ نئے قلم کی جگہ ریفل خریدیں۔

انہوں نے ایک نعرہ دیا ہے’میں ری فل کا انتخاب کرتا ہوں، لینڈ فل کا نہیں۔‘‘مہتا مزید کہتے ہیں کہ ان کا خواب ’کوڑے سے پاک، ایک خواندہ دنیا‘ہے۔

وہ کہتے ہیں ’’قلم حکمت کی نمائندگی کرتا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ہاتھ میں قلم پکڑنے والا ہر انسان ذمہ داری کے ساتھ اسے ٹھکانے لگانے میں بھی مدد کرے گا۔ ‘‘

برٹن بولاگ واشنگٹن ڈی سی میں مقیم ایک آزاد پیشہ قلمکار ہیں۔


اسپَین نیوزلیٹر میل پر مفت منگوانے کے لیے لنک میں دیے گئے فارم کو بھریں: https://bit.ly/SubscribeSPAN



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے