’ایکوویا‘ اور ’دھرکشا ایکو سالوشنز‘ای کامرس صنعت کے لیے پلاسٹک کی پیکیجنگ کے پائیدار متبادل پیش کرتے ہیں۔
July 2022
دھرکشا اکو سولوشنس نے فصل کی باقیات سے پیکیجنگ کے پائیدار متبادل بنائے ہیں۔ تصویر بشکریہ دھرکشا اکو سولوشنس۔
ہماری روزمرہ کی زندگی میں پیکیجنگ ہر جگہ موجود ہے اور پوری دنیا میں سامان کی ترسیل سمیت بے شمار سہولیات فراہم کرتی ہے۔ تاہم سامان کی نقل و حمل اور ترسیل میں پیکیجنگ کے لیے ایک بار استعمال ہونے والی پلاسٹک نے ماحولیات پر بھاری بوجھ ڈالا ہے۔ امریکہ اور بھارت سمیت متعدد ممالک اب ایسے ضوابط متعارف کرانے کے اقدامات کر رہے ہیں جو پائیداری کو فروغ دیتے ہیں اور نقصان دہ پیکیجنگ فضلہ کے بارے میں بڑھتے عوامی خدشات کا جواب دیتے ہیں۔’ دھرکشا ایکو سالوشنز ‘اور ’ایکوویا ‘ (جو نیکسَس سے تربیت یافتہ اسٹارٹ اپ کمپنیاں ہیں) جیسی اختراع کاروں نے ایسے حل متعارف کرانے کے لیے قدم بڑھایا ہے جو پیکیجنگ کے عمل کو زیادہ پائیدار بناتے ہیں۔
’ایکوویا ‘ کا قیام ۲۰۲۱ء میں کووِڈ۔۱۹ لاک ڈاؤن کے دوران عمل میں آیا تھا جب لاکھوں لوگ اپنے گھروں میں محصور تھے اور بنیادی اشیاء کے لیے بھی ’ ای ۔ کامرس پلیٹ فارمس‘ پر منحصر تھے۔ دَھونی مہتا، پرنجول جین اور پرکشت جون نے فضلہ کو کم کرنے اور پائیداری کو فروغ دینے کے ارادے سے ہی یہ اسٹارٹ اپ قائم کیا تھا۔
مہتا کہتی ہیں ’’ایک چیز جس نے ہم سبھی کو پریشان کیا وہ پیکیجنگ مواد پر مبنی فضلہ تھا جو ہماری خریداریوں کے ساتھ تھا ۔کیا ای۔ کامرس پیکیجنگ کی اس مضحکہ خیز مقدار کو دوبارہ استعمال کیا جا سکتا ہے ؟ کیا فضلہ کو کم کرنا اور گھر کو کم درہم برہم کرنا ممکن ہے؟
انہوں نے مذکورہ سوالات کا جواب تلاش کرنے کے لیے ایک پائلٹ پروجیکٹ شروع کیا جس کا حوصلہ افزا جواب ملا اور یوں ’ ایکو ویا ‘ کا قیام عمل میں آیا۔
’دھرکشا ایکو سالوشنز‘کے شریک بانیان ارپت دھوپر اور آنند بودھ فصل کے باقیات کو جلانے کے عمل پر قابو پانے کے لیے کوئی حل تلاش کرنے کے خواہاں تھے۔ بھارت میں کسان دوفصلوں کے درمیان اپنے کھیتوں کو جلد اور سستے میں صاف کرنے کے طریقے کے طور پر ہر سال ایک تخمینہ کے مطابق ۲۳ ملین ٹن فصل کے باقیات کو جلاتے ہیں ۔ اخراج کے نتیجے میں صحت کو سنگین خطرات لاحق ہو سکتے ہیں اور دمہ اور پھیپھڑوں میں سوجن کے معاملے بڑھ سکتے ہیں ۔
ہر سال ستمبر سے نومبر تک شمالی بھارت کو اپنی زد میں لینے والی فضائی آلودگی کے بارے میں گہری تشویش میں مبتلا دھوپر اور بودھ نے اس معاملے کو بہتر طور پر سمجھنے کےلیے ہریانہ اور پنجاب کے گاؤں کا دورہ کیا کہ آخر کسان فصل کی باقیات کو جلاتے کیوں ہیں ۔ حالاں کہ ان کے اپنے کنبے سب سے پہلے آلودگی سے متاثر ہوتے ہیں ۔ ساتھ ساتھ دونوں نے فصل کی باقیات کو استعمال کرنے کا طریقہ تلاش کرنا چاہا تاکہ کسان اس زرعی فضلہ کو نہ جلائیں۔
یومیہ مسائل سے نمٹنا
دھوپر اور بودھ نے ورمی کمپوسٹ، بایوگیس اور کاغذ کے گودہ سمیت فصل کے باقیات سے مختلف مصنوعات بنانے کے امکانات کی تلاش کی۔ پھر انہوں نے پیکیجنگ مواد پر اپنی توجہ مرکوز کی کیوں کہ اس سے دو مسائل یعنی فضائی آلودگی اور غیر پائیدار پلاسٹک یا پیٹرولیم پر مبنی پیکیجنگ سے نمٹنے میں مدد مل سکتی تھی۔ آخر کار انہوں نے ۲۰۲۰ء میں ’ دھر کشا‘ شروع کی جو نئی دہلی میں واقع ہے۔
دھوپر کہتے ہیں’’تحقیق اور ترقی کے عمل کو شروع کرنے اور ایک پیکیجنگ مواد بنانے میں ہمیں قریب قریب دو برس لگے جو تھرموکول اور پلاسٹک کی جگہ لے سکے۔ ‘‘ ان کی کمپنی کا پیکیجنگ مواد پوری طرح فصل کی باقیات سے بنایا گیا ہے اور یہ دیکھنے اور محسوس کرنے میں بالکل تھرموکول جیسا ہے جس کا بڑے پیمانے پر پیکیجنگ کے لیے استعمال کیا جا تا ہے۔
دھوپر کا کہنا ہے کہ ان کی کمپنی کی پیکیجنگ میں تھرموکول کے مقابلے محفوظ کرنے کی بہتر صلاحیت ، ساخت اور سطح کی تکمیل ہے۔ یہ پانی مزاحم ، انسداد آگ اور شکل میں حسب ضرورت بھی ہے۔وہ کہتے ہیں ’’ ہمارا پیکیجنگ مواد پوری طرح تحلیل ہو جا سکنے والا ہے ۔ آپ اسے اپنے باورچی خانے کے فضلہ کے حصے کے طور پر آسانی کے ساتھ ٹھکانے لگا سکتے ہیں ۔ یہ ۶۰ دنوں کے اندر گلنا اور سڑنا شروع ہو جائے گا۔
دوسری طرف ’ایکوویا‘ اس مسئلے کو ایک مختلف نقطہ نظر سے دیکھتا ہے۔ یہ براہ راست صارفین کے برینڈز پر توجہ مرکوز کرتا ہےاور انہیں دوبارہ قابل استعمال پیکیجنگ میں تبدیل کرنے میں مدد کرتا ہے۔ مہتا کہتی ہیں ’’ مان لیجئے کہ آپ ’ باتھ ٹب‘ میں بیٹھے ہوئے ہیں اور پانی کناروں سے بہہ رہا ہے ۔ کیا آپ فرش صاف کرنا شروع کردیں گے یا صرف نل بند کردیں گے؟ ’ ایکو ویا‘ میں ہم ’ ری سائیکلنگ‘ کی بجائے دوبارہ استعمال پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔
متعدد’برینڈس‘ نے اپنی ’سپلائی چین‘ سے پلاسٹک کو ختم کرنے جیسے اقدامات کیے ہیں۔ لیکن مہتا کو لگتا ہے کہ یہ کافی نہیں ہے۔ وہ کہتی ہیں ’’اضافی پلاسٹک پیکیجنگ کے استعمال کے مکمل حل کے قریب ترین تجارتی اور توسیع پذیر سطحوں پر دوبارہ استعمال کرنا ہے۔‘‘
’ایکوویا ‘ کا پیکیجنگ مواد انتہائی پائیدار ہےاور اسے تقریباً ۱۰۰ بار دوبارہ استعمال کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ مہتا کہتی ہیں ’’مواد ’ری سائیکل پالیسٹر ‘ہے جو پلاسٹک کی بوتلوں سے بنا ہے۔ یہ بنیادی طور پر وہی مواد ہے جس کا استعمال بیک پیک بنانے کے لیےکیا جاتا ہے۔ یہ پانی اور آنسو سے بچانے والا ہے۔‘‘
گھروں تک پہنچنا
’ایکوویا‘ کا کاروباری ماڈل منفرد ہے کیونکہ صارف کو ذمہ داری سے کام کرنے اور دوبارہ استعمال کے لیے پیکیجنگ واپس کرنے پر انعام دیا جاتا ہے۔ ایک بار ’پارٹنر برینڈ ‘سے ڈیلیوری صارف تک پہنچنے کے بعد وہ ’ایکوویا پیکیج واپسی‘کے وقت کا تعین کرنے کے لیے پیکیجنگ پر چھپے کیو آر کوڈ کو بہ آسانی اسکین کر سکتے ہیں۔
جیسے ہی واپسی کا عمل مکمل ہو جاتا ہے ، صارف کو پائیداری کی طرف ان کی شعوری پیش قدمی کے لیے ’شکریہ‘ کے طور پر ایک انعامی کوپن ملتا ہے۔ مہتا کہتی ہیں ’’یہ انعام بنیادی طور پر اسی برینڈ سے وابستہ ہے جس سے خریداری کی گئی تھی۔ تو شاید آپ کی اگلی خریداری پر ۱۰ فی صد یا ۲۵ فی صد چھوٹ ملے۔ ہم واپسی کے معاملے میں ۷۰ فی صد کے قریب پہنچ گئے ہیں ۔‘‘
’ایکوویا‘ نے ’وہ اسکن سائنس‘ ،’ اوٹیپی‘ ،’ گو دیسی‘ اور ’سوتا‘ سمیت ۵۰ سے زائد برینڈز کے ساتھ شراکت داری کی ہے۔
’دھرکشا‘ نے بھی کامیابی کے ساتھ اپنے تحلیل ہو جاسکنے والے پیکیجنگ مواد کے لیے ڈابر اور باروسی سمیت کئی کارپوریٹ کمپنیوں کے ساتھ مفاہمت کی ہے ۔ دھوپر بتاتے ہیں کہ اس سلسلے کو دراز کرنے کے لیے کمپنی نے دوسری مصنوعات پر بھی اپنے پیکیجنگ مواد کا تجربہ کرنے کے سلسلے میں پیش قدمی کی ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’ مستقبل میں ہم اس مواد کی مضبوطی میں اضافہ کرکے اس سے فرنیچر بنانے کے بارے میں غور کر رہے ہیں۔ اس سے جنگلات کی کٹائی کو روکنے میں بھی مدد ملے گی کیوں کہ ہم لکڑی کے بجائے دنیا کے سامنے ہمارے مواد سے فرنیچر بنانے کا متبادل پیش کر سکیں گے ۔‘‘
جیسون چیانگ لاس اینجلس کے سلور لیک میں مقیم ایک آزاد پیشہ قلمکار ہیں۔
تبصرہ