انٹرویو پر مبنی اس مضمون میں امریکی مقرر الیسنڈرا کیریون روایتی ایندھن سے مستقبل کے صاف ستھرے ایندھن کی جانب منتقلی اور اسے کامیابی سے ہمکنار کرنے والے پہل کے بارے میں بات کررہی ہیں۔
July 2024
الیسنڈرا کیریون فرماتی ہیں کہ ہندوستان کے ان کے دورے کی سب سے اہم یافتوں میں سے ایک یہ مشاہدہ ہے کہ صاف و شفاف تکنیک کی جانب منتقلی اور نقل وحمل کے ذرائع کو برقیائے جانے کے نتیجے میں یہاں بڑی تعداد میں نوکریاں پیدا ہوں گی۔ (پردیپ گورس/شٹراسٹاک ڈاٹ کام)
لائسنس یافتہ کیمیکل انجینئر اور خاتون کاروباری پیشہ ور الیسنڈرا کیریون خود کو خوش قسمت تصور کرتی ہیں کہ انہوں نے ایسی تنظیموں کے ساتھ کام کیا ہے جو صاف توانائی کی جانب منتقلی کو مہمیز کرنے اور برقی گاڑیوں (ای وی ایس) کو مساوی بنیادوں پر اپنانے کو یقینی بنانے کے موصوفہ کے جذبے کو شیئر کرتی ہیں۔
مشی گن پبلک سروس کمیشن کی کمشنر کی حیثیت سے وہ دائرہ نما بیٹری معیشت کی وکالت کرتی ہیں جس کے تحت استعمال شدہ بیٹریاں یکجا کی جاتی ہیں ، ان کی خامیوں کو دور کیا جاتا ہے اور انہیں ضائع کرنے کی بجائے دوبارہ لائقِ استعمال بنایا جاتا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے یو ایس اسپیکر پروگرام کے حصے کے طور پر کیریون نے حال ہی میں چنئی، کولکاتہ اور نئی دہلی کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے طلبہ، محققین، کاروباری رہنماؤں، کاروباری پیشہ وروں، کارکنوں، حکومتی نمائندوں اور صحافیوں سے ملاقات کی۔ انہوں نے صاف توانائی اور برقی کاری، اسٹیم شعبہ جات میں خواتین سمیت انسانی صحت، موسمیاتی تبدیلی اور صاف توانائی سے نمٹنے میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے کردار وغیرہ موضوعات پر بات کی۔
پیشِ خدمت ہیں ان سے لیے گئے ایک انٹرویو کے بعض اہم اقتباسات۔
موسمیاتی تبدیلی اور پائیداری میں آپ کی دلچسپی کیسے پیدا ہوئی؟
ماحولیاتی موضوعات اور پائیداری میں میری دلچسپی بچپن سے ہی رہی ہے۔ یہ دلچسپی اُس وقت شروع ہوئی جب میں نے اپنے والدین کے آبائی ممالک فلپائن اور اٹلی میں ماحولیات پر ترقی کے اثرات کا مشاہدہ کیا۔ امریکہ میں قیام نے اسکولی نصاب کے ذریعے پائیداری، ری سائیکلنگ اور ماحولیاتی تحفظ کے بارے میں میری بیداری کو مزید گہرا کیا۔
مشی گن پبلک سروس کمیشن کی کمشنر کے طور پر آپ کی اوّلین ترجیحات کیا ہیں؟
پبلک سروس کمیشن میں ہمارا مشن مشی گن کے عوام کے لیے محفوظ، قابل اعتماد اور سستی توانائی اور مواصلات کی خدمات کو یقینی بنانا ہے۔ مشی گن کے نئے صاف توانائی کے قوانین نے مستقبل کے لیے اہداف مقرر کیے ہیں: ریاست۲۰۳۰ء تک اپنی توانائی کا ۵۰ فی صد قابل تجدید ذرائع سے اور ۶۰ فی صد ۲۰۳۵ءتک پیدا کرے گی۔ ۲۰۴۰ءتک مشی گن کی تمام توانائی صاف ذرائع سے آئے گی۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس منتقلی کو یقینی بنائیں اور قانون کی طرف سے مطلوبہ آب و ہوا کے فوائد کی فراہمی کے دوران عوامی بہبود پر توجہ مرکوز کریں۔
سستی اور قابل رسائی برقی گاڑی کو اپنانے اور چارج کرنے کے لیے آپ کو کون سی حکمت عملیاں سب سے زیادہ مؤثر معلوم ہوتی ہیں؟
امریکہ میں قومی اور ریاستی دونوں سطحوں پر کئی موثر حکمت عملیاں اور پالیسیاں موجود ہیں۔ مراعات، کریڈٹ اور چھوٹ برقی گاڑیوں کی مانگ میں اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔ ملک بھر میں بشمول قومی شاہراہوں کی راہداریوں میں اور مقامی طبقات کے اندر چارجرکی دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے بھی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے۔ مزید برآں، نجی کاروں کے متبادل کے طور پر، مشترکہ نقل و حرکت کے لیے جیسا کہ میں نے یہاں ہندوستان میں دیکھا، شاندار ای وی رائیڈ ۔شیئرنگ کے متبادل دستیاب ہیں۔
لائسنس یافتہ کیمیکل انجینئر اور کاروباری پیشہ ورالیسنڈرا کیریون(مرکز میں)کولکاتی کے امیریکن سینٹر میں اپنے خطاب کے دوران۔ ان کا دورہ ہند امریکی محکمہ خارجہ کے یوایس اسپیکر پروگرام کا حصہ ہے۔ (تصویر اویجیت بھٹاچاریہ)
آپ کی رائے میں عالمی سطح پر دائرہ نما بیٹری معیشت میں تیزی کے لیے کون سی پالیسیاں ضروری ہیں؟
دائرہ نما بیٹری معیشت کو فروغ دینے کے لیے ہمیں ایسی اہم پالیسیوں کی ضرورت ہے جو ہائی وولٹیج ای وی بیٹریوں کو ان کی زندگی کے دورانیے میں محفوظ اور ماحولیاتی لحاظ سے درست ہینڈلنگ کو یقینی بنائیں۔ یہ طریقہ ان بیٹریوں کو عوامی حفاظت کو درپیش خطرات بننے سے روکے گا۔ پالیسیوں کو علاقائی اور مقامی معیشتوں کے لیے قدر کی تشکیل کے دوران منفی ماحولیاتی یا سماجی اثرات میں تخفیف کے لیے معدنیات کے اخراج اور بیٹری کی پیداوار پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ مکمل بیٹری ویلیو چین پر غور کرنے سے ہم محفوظ اور ماحول کے لحاظ سے بیٹری کے انصرام اور پیداوار کو یقینی بنا سکتے ہیں۔
ہندوستان میں صاف توانائی کی طرف منتقلی اور برقی گاڑیوں کو اپنانے کی موجودہ صورت حال اور مستقبل کے امکانات کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے؟
ہندوستان کے اپنے سفر کے دوران میں نے مشاہدہ کیا کہ ہندوستان اور امریکہ دونوں صاف توانائی اور برق کاری کی جانب اپنی منتقلی میں اضافے کی راہ پر گامزن ہیں۔ تاہم بعض چیزوں میں دونوں ممالک کے درمیان بعض فرق نظر آتے ہیں، خاص طور پر برقی گاڑیوں کو اپنانے میں۔ مثال کے طور پر امریکہ کے پاس دو اور تین پہیوں والی گاڑیوں کے لیے بازار نہیں ہے جو ہندوستان میں عام اور کثرت سے ہے۔
ان تبدیلیوں تک پہنچنے کے بہت سے طریقے ہیں جو کہ بازار اور جغرافیہ کے لحاظ سے مخصوص ہیں۔ متذکرہ فرق کے باوجود، دونوں ممالک افرادی قوت کو تیار کرنے اور آلودگی کے خاتمے ،نیز پائیداری کو ترجیح دینے کی ضرورت میں مماثلت رکھتے ہیں۔
آپ اسٹیم میں خواتین کے کردار کو، خاص طور پر سماجی کاروبار کے شعبے میں، کس طرح دیکھتی ہیں؟
ہمیں نہ صرف اسٹیم شعبہ جات کے تعلیمی پروگراموں میں بلکہ کریئر میں بھی مزید خواتین کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔ اب جب کہ ہم صاف توانائی اور برق کاری کی طرف منتقل ہو رہے ہیں، نئے کاروباری ماڈلس کو یقینی بنانا ضروری ہے تا کہ ان ٹیکنالوجیوں سے نہ صرف کمپنیاں یا نجی مفادات بلکہ ہر ایک فیضیاب ہو۔ اسٹیم شعبہ جات میں مزید خواتین کی شمولیت اور کاروباری ماڈلس کو سماج کی خدمت کی نظر سے تیار کرنے سے ہم صاف توانائی اور ای وی کی طرف منتقلی کو زیادہ موثر اور پائیدار بنا سکتے ہیں۔
ہندوستان میں آپ کی مصروفیات سے حاصل شدہ تجربات اور مشاہدات کیا ہیں؟
میرے سفر کے اہم ترین مشاہدات میں سے ایک ملازمتوں کی وہ قابل ذکر تعداد ہے جو صاف توانائی اور برقی کاری کی منتقلی سے پیدا ہو گی۔ یہ ہندوستان اور امریکہ دونوں جگہ توانائی اور برقی کاری کی خاطر ایک نئے رجحان کے لیے رہنماؤں کو تیار کرنے کا ایک امید افزا موقع پیش کرتا ہے۔ اشتراک کر کے ہم ماضی سے سیکھ سکتے ہیں اور آنے والی نسلوں کی مدد کر سکتے ہیں۔
اسپَین نیوزلیٹر کو اپنے میل پر مفت منگوانے کے لیے لنک میں دیے گئے فارم کو بھریں: https://bit.ly/SubscribeSPAN
تبصرہ