طبقہ مخصوص کے مستقبل کی فکر

سمرن شیخ بھروچا آئی وی ایل پی فیض یافتہ صنف خاص کے حقوق کی ایک علم بردار ہیں۔ اس مضمون میں وہ اپنے کام ، اپنے طبقات کی صحت کی اہمیت ،نیز ہم جنس پرستی کے متعلق اظہار خیال کر رہی ہیں۔

کریتیکا شرما

June 2024

طبقہ مخصوص کے مستقبل کی فکر

سمرن شیخ بھروچا(بائیں) حیدرآباد کے مِتر کلینک میں ہندوستان میں امریکی سفیر ایرک گارسیٹی(مرکز میں)کے جون ۲۰۲۳ء میں کیے گئے ایک دورے کے دوران۔ (تصویر بشکریہ یوایس ایڈ/ انڈیا)

صنف خاص سے تعلق رکھنے والی سمرن شیخ بھروچا نے ۲۰۰۷ء میں صنف تبدیلی کا آپریشن کرانے کا فیصلہ کیا۔ بھروچا چوں کہ  مالی طور پر خود مختارتھیں لہذا انہیں اس آپریشن کے لیے  مالی دشواریوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ لیکن بہر کیف ایک ایسا تربیت یافتہ اور بھروسے مند طبیب تلاش کرنا جو کہ ان کو اس نازک آپریشن میں رہنمائی کر سکے ایک دشوار گزار مرحلہ تھا۔وہ انکشاف کرتی ہیں ’’ مجھے اپنے آپریشن کے لیے ایک جھولا چھاپ ڈاکٹر کے پاس جانا پڑا ۔‘‘ سمرن کی داستان ہندوستان میں رہنے والے اور صنف ِخاص سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد ہی کی طرح ہے جن کو وسائل کی  تلاش کرنے ، صحت خدمات ، نیز ان کے مخصوص مسائل کے تعلق سے معلومات حاصل کرنے میں پریشانیاں ہوتی ہیں۔

ہندوستان میں  صنفِ خاص میں خود کشی کی شرح ۳۱ فی صد ہے۔ انڈین جرنل برائے نفسیاتی طب میں شائع ایک تحقیق کے مطابق ان میں سے تقریباً نصف فی صد تو ۲۰ کی عمر تک پہنچنے سے قبل ہی کم از کم ایک بار خود کشی کرنے کی کوشش کر چکے ہوتے ہیں۔ صنف خاص سے تعلق رکھنے والے افراد کی اکثریت ذہنی دباؤ کا شکارہوتی ہے ، نیز ان میں خود کشی کے خیالات بھی آتے رہتے ہیں۔ ان کو معاشرہ نہ تو آسانی سے قبول کرتا ہے اور نہ ہی انہیں کسی قسم کی معاشرتی امداد فراہم کی جاتی ہے۔ ان کو ایچ آئی وی بیماری کا خطرہ لاحق رہتا ہے اور یہ اکثر تشدد کا بھی شکار ہوتے ہیں۔ صنف خاص کی بہبود کے لیے بھروچا جو کام کررہی ہیں اس میں نفسیاتی مسائل کی مشاورت، طبقاتی  امداد ، نیز ان کے لیے  روزگار کے مواقع  فراہم کرنا شامل ہے۔

ایکسلریٹ پروگرام کی سابق سربراہ بھروچا انٹرنیشنل وزیٹر لیڈر شپ پروگرام کی فیض یافتہ ہیں۔ واضح رہے کہ ایکسلریٹ کا نفاذ جان ہاپکنس یونیورسٹی امریکی صدر ہنگامی منصوبہ برائے ایڈس (پی ای پی ایف آر) کے زیر اہتمام یو ایس ایڈ۔انڈیا کی مالی امداد سے ہوتا ہے۔ بھروچا کے زیر قیادت پروگرام کے تحت جنوری ۲۰۲۱ء میں صنف خاص کے لیے مخصوص ہندوستان کا اوّلین کلینک حیدرآباد میں  کھولا گیا۔  بعد ازاں دو مزید کلینک جولائی ۲۰۲۱ءمیں مہاراشٹرا میں کھولے گئے۔

مِتر کلینکس

’’مترکلینک‘‘ کے نام سے موسوم ان کلینکوں میں صنف خاص کے لیے  صحت کی جامع خدمات فراہم کی جاتی ہیں۔ ان مطب میں صحت  سے متعلق عام خدمات ، ہارمون تھیراپی ادویات اور اور صنف تبدیلی آپریشن کی رہنمائی، نفسیاتی صحت مشاورت، ایچ آئی وی/ایس ٹی آئی، احتیاطی اور علاج خدمات ،قانونی مدد  نیز معاشرتی حفاظت جیسی متنوع خدمات کی سہولت دستیاب ہے۔ اور یہ سب بغیر کسی تعصب کے ہوتا ہے۔

بھروچا واضح کرتی ہیں ’’ حالاں کہ ان مطب میں بنیادی طور پر ایچ آئی وی سے متعلق ہی خدمات دستیاب ہیں۔ مگر بہر کیف غیرایچ آئی وی خدمات کے لیے بھی  انہیں کھولا گیا ہے ۔ یہ اس لیے بھی اہمیت کے حامل ہیں کیوں کہ اس سے قبل اس طرح کی خدمات ہمارے طبقات کے لیے موجود نہیں تھیں۔‘‘

متر کلینک کا کھلنا در اصل بھروچا کےلیے  کسی خواب سے کم نہیں۔ وہ انکشاف کرتی ہیں ’’ میں  نے پہلی بارصنف خاص  کے اپنے طبقات کے لیے ایسے مطب کی شروعات کی جس میں صنف خاص کی صحت کے متعلق ہر قسم کی سہولت فراہم کی جائے۔ ‘‘

سمرن شیخ بھروچا(دائیں) نئی دہلی کے امیریکن سینٹر میں عالمی یومِ ایڈس کے موقع پر منعقد ایک تقریب میں۔(تصویر از راکیش ملہوترا)

بھروچا شکوہ کرتی ہیں ’’ہمارے طبقات کے درمیان گفت وشنید کے مسلسل کئی ادوار کے بعد ہی  اس کلینک کے اغراض و مقاصد طے ہو پائے۔ اکثر لوگوں کی ترجیحات میں صحت  دیکھ بھال اوّل نمبر پر  تھی کیونکہ سرکاری اور سستے نجی طبّی اداروں میں ہمارے طبقات کے تئیں حسّاسیت ، بیداری اور وسائل کا فقدان پایا جاتا ہے۔ اگر صنف خاص سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص کسی سرکاری اسپتال جاتا ہے تو وہاں کے ڈاکٹر اسے حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اس کے ساتھ بد سلوکی کرتے ہیں۔مزید برآں، صنفی تبدیلی کا آپریشن کروانا بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے ۔ ہمارے طبقات کو کھل کر اپنے مسائل پر گفتگو کرنے کے لیے کوئی جگہ میسر نہیں ہے۔‘‘

مگر صنف خاص کے لیے مِتر کلینک قائم کرنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ بھروچا بتاتی ہیں کہ گو کہ صنف خاص کے لیے مخصوص قسم کی صحت دیکھ بھال کا تصور ایک دہائی قبل متعارف ہوچکا تھا مگر ایسے مطب کو قائم کرنے کے لیے مختلف ایجنسیوں کی مدد لینی پڑی ۔ وہ بتاتی ہیں ’’ ہم بہت خوش قسمت تھے کیوں کہ میرے ایکسلریٹ پروگرام میں شامل ہوتے ہی ہمیں صنف خاص کی صحت کی دیکھ بھال کی اجازت مل گئی تھی۔ ‘‘

اصل میں مِتر کلینکس کا قیام بھروچا کی مساعی کا ہی ثمرہ ہے۔ اس کے بارے میں بتاتے ہوئے وہ باخبر کرتی ہیں ’’ میں اکتوبر ۲۰۲۰ء میں ایکسلریٹ میں شامل ہوئی تھی اور ایک ہفتے کے اندر ہی مجھے پہلی مشاورت کا موقع ملا ۔ ۲۰۲۱ء میں پہلا مِتر کلینک کھلنے سے پیشتر  ہی ہم نے اپنے طبقات میں ۱۵ سے ۱۶ مشاورتیں کر لی تھیں۔ ان مشاورتوں کے سبب ہم صنف خاص کی ضروریات کو مزید بہتر طور پر سمجھ پائے ۔

مثال کے طور پر ہم یہ یقینی بنانا چاہتے تھے کہ متر کلینک میں ڈاکٹر صنف خاص کا ہی ہو۔ میں ایسے ڈاکٹر کی تلاش میں بہت فکر مند تھی، لیکن سوچئے کیا ہوا؟ ہمارا پہلا ڈاکٹرہمیں حیدر آباد میں کلینک کھولتے وقت مجمع ہی میں سے مل گیا۔‘‘

تبادلہ کا تجربہ

جون ۲۰۲۳ء میں بھروچا نے امریکی وزارت ِ خارجہ کے اعلیٰ پیشہ ورانہ تبادلہ پروگرام آئی وی ایل پی میں شرکت کی۔ اس پروگرام کے تحت موجودہ اور مستقبل کے رہنما امریکہ کا ایک مختصر دورہ کرتے ہیں جس کے دوران وہ اپنے امریکی اور بین الاقوامی ہم منصبوں سے ملاقاتیں کرتے ہیں اور دیرینہ رشتے قائم کرتے ہیں۔

بھروچا بتاتی ہیں’’انسانی اور شہری حقوق برائے محروم طبقات‘‘سے عبارت آئی وی ایل پی کا ان کا تجربہ ’ بہت شاندار‘رہا۔ اپنے امریکہ کے سفردوران بھروچا نے کئی شہروں کا دورہ کیا جہاں انہیں تنوع کے احترام کرنے کے اختراعی انداز سیکھنے کو ملے، مشمولیت کی اہمیت کا اندازہ ہوا، مختلف اداروں کے تعاون سے حسّاس مسائل کو عبور کرنا آیا ،نیز انہوں رابطہ کاری میں توسیع کرنے کا ہنر سیکھا۔‘‘ وہ مزید بتاتی ہیں ’’ مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے ہم ۲۳ یا ۲۴ افراد تھے۔ ہمیں نہ صرف امریکہ کی خوبصورتی کو دیکھنے کا موقع ملا بلکہ میں ’ امریکہ کے تلخ حقائق‘ سے بھی واقف ہوئی۔

وہ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتاتی ہیں ’’ ہم نے صنف خاص کے بے گھرافراد ،نیز ان کی پناہ گاہوں کے بارے میں بھی تفصیل سے جانا۔ ہم نے دونوں طرح کے نقطہ نظر کا تجزیہ کیا۔ مجھے احساس ہوا کہ اس کرہ ارض پر کوئی بھی ملک ایسا نہیں جہاں صنفِ خاص کے افراد مسائل سے دو چار نہ ہوں۔مگر آپ جو کچھ بھی دنیا کو دکھانا چاہتے ہیں  ،آپ پر اس کی پاسداری لازم ہے ۔ اور ہمارے طبقات کی بھی یہی حقیقت ہے ۔ ہمارے اپنے مسائل ہیں مگر ہماری قوت کو اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ہمارے ملک میں صنف خاص سے تعلق رکھنے والے چند ڈاکٹر، پولیس افسران، منصفین اور وکلاء ضرور ہیں مگر جو چیزیں ہم میں اکثر دیکھی جاتی ہیں وہ ہماری ادائیں، نسوانی حرکتیں بلکہ ٹریفک سگنلوں پر ہمارے طبقات کے افراد کی دریوزہ گری کو بہت غلط نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔‘‘

آئی وی ایل پی سے بھروچا کو جو سب سے زیادہ فائدہ ہوا وہ یہ  ہےکہ ان کے اندر صنف خاص کے متعلق منفی بیانیہ کو مثبت طور پر رد کرنے کی صلاحیت پیدا ہوئی۔ بھروچا بتاتی ہیں کی اس مقصد کے حصول کے لیے  طبقات سے تعلق رکھنے والے کارکن اور دیگر سماجی کارکن (سوشل میڈیا اور روایتی میڈیا دونوں کا استعمال کرکے)عوام الناس میں صنف خاص کے متعلق غلط فہمیوں کو دور کرنے کوشش کرتے ہیں۔ہم حکومت سے مسلسل مطالبہ کرتے ہیں کہ صنف خاص کے لیے مخصوص پناہ گاہیں تعمیر کی جائیں۔ ہم  مرکزی دھارے کے معاشرے سے مستقل وکالت کرتے ہیں جس کے لیے ہم اپنی کہانیاں سناتے ہیں، مثبت  تصدیق ناموں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور ریڈیو، ٹی وی اور اخبارات و رسائل، نیز ڈجیٹل میڈیا کے ذریعہ سے سچے واقعات کا اشتراک کرتے ہیں۔     ‘‘

بھروچا کے لیے  بس یہی منزل مقصود نہیں ہے ۔ وہ پُرمسرت لہجے میں  بتاتی ہیں ’’ ہم جس قسم کی معاشرتی تبدیلی کے خواہاں ہیں وہ ایک دن میں آنے والی نہیں ۔ مگر اس کی جانب ہماری شروعات تو ہو ہی گئی ہے۔ ‘‘


اسپَین کی مشمولات کو میل پر منگوانے کے لیے لنک میں دیے گئے فارم کو بھریں: https://bit.ly/SubscribeSPAN



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے