ایّامِ حیض میں صفائی کا نظم

نیکسَس اور یو ایس ایڈ کی مدد سے دو اسٹارٹ اپ کمپنیاں ہندوستان میں ماہواری کے دوران برتی جانے والی صفائی ، نیز حفظانِ صحت کے انتظام کو ایک نئی شکل دے رہی ہیں۔

نتاشا ملاس

January 2024

ایّامِ حیض میں صفائی کا نظم

’پَیڈ کیئر لیبس‘ کاغذ کا استعمال کرکے مصنوعات بناتی ہے جس میں سیلولوز کام میں لایا جاتا ہے جو استعمال شدہ سینیٹری پَیڈ سے حاصل کیا جاتا ہے جسے ماہواری کے دوران صفائی کے انتظام سے متعلق نظام کے ذریعہ معرضِ وجود میں لایا جاتا ہے۔(تصویر بشکریہ پَیڈ کیئر لیبس)

ماہواری کے دوران استعمال کی جانے والی مصنوعات تک زیادہ سے زیادہ رسائی کو ممکن بنانے میں سوشل انٹرپرائزز اور اسٹارٹ اپس کی بڑھتی ہوئی شرکت کی بدولت ہندوستان میں اس قدرتی عمل کے دوران حفظانِ صحت سے متعلق بیانیہ میں نمایاں تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا جارہا ہے۔

اس طرح کی دو کمپنیوں ’ٹینڈرل پروڈکٹس‘ اور’ پَیڈ کیئر لیبس ‘ نے نئی دہلی میں واقع امیریکن سینٹر کے نیکسَس اسٹارٹ اپ ہب اور یو ایس ایڈ کی مدد سے پورے ہندوستان میں ماہواری کے دوران صفائی ستھرائی کے انتظام کو بہتر بنانے میں تعاون کیا ہے۔

نیکسَس سے تربیت یافتہ مہاراشٹر میں واقع اسٹارٹ اپ ’ٹینڈرل پروڈکٹس‘ ایّام حیض کے دوران استعمال ہونے والےپَیڈ مہیا کرانے والی اور استعمال کے بعد انہیں ماحول موافق طور پر تلف کرنے والی مشینیں بناتی ہے۔ کمپنی نے ملک کے ۶۵ شہروں میں ۲۵۰۰ مشینیں نصب کی ہیں۔

یو ایس ایڈ سے امداد یافتہ یش انٹرپرینرپروگرام سے منسلک ’ پَیڈ کیئر لیبس ‘ نے پَیڈ ری سائیکلنگ مشین تیار کی ہے جو پَیڈ فضلہ کے حجم کو کم کرنے کا کام کرتی ہے۔ اس طور پر یہ اس بڑے نظام کا حصہ ہے جو اس قسم کے فضلہ کو کم کرنے پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔ کمپنی نے حال ہی میں ’شارک ٹینک انڈیا ‘کے ذریعہ ایک کروڑ روپیہ کا سرمایہ حاصل کیا ہے۔

مصنوعات کو انہیں استعمال کرنے والوں تک پہنچانا

ہندوستان میں ماہواری کے دوران صفائی ستھرائی کے انتظام میں بہتری لانے کی غرض سے آرتی شرما نے ’ٹینڈرل پروڈکٹس‘ کو مشترکہ طور پر قائم کیا تھا ۔کمپنی سہولت کے ساتھ ماہواری کے دوران استعمال کیے جا نے والے پَیڈ کی فراہمی اور استعمال کے بعد انہیں تلف کرنے میں مدد کرنے والی مشینیں فراہم کرتی ہے۔ شرما بتاتی ہیں کہ وہ سماجی کاروباری پیشہ ور اروناچلم مورو گاننتھم سے متاثر تھیں جنہوں نے سستے پَیڈ بنانے والی مشین ایجاد کی تھی ۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کی کمپنی کی جانب سے بنائی جانے والی مشینیں صارف دوست ہونے کے ساتھ کام کے اعتبار سے موثر بھی ہیں۔ صارفین روایتی نقد لین دین، ٹوکن، مفت وینڈنگ بٹن، کی پیڈس، پری پیڈ اسمارٹ کارڈس اور کیو آر کوڈ سمیت مختلف طرح کی ادائیگی کے طریقوں کے ذریعے پَیڈ حاصل کر سکتے ہیں۔ شرما بتاتی ہیں ’’ہماری مشینیں مختلف ضروریات اور ترجیحات کی تکمیل کے لیے دیوار پر نصب برقی اور غیر برقی دونوں قسموں کی ہوتی ہیں۔‘‘

یہ مشینیں تعلیمی اداروں، کارپوریٹ دفاتر اور عوامی بیت الخلا میں لگائی جاتی ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ رسائی کو یقینی بنایا جا سکے۔ شرما کہتی ہیں ’’ہم لوگ اس سلسلے میں مکمل تعاون کرتے ہیں جس میں اعلیٰ معیار کے اور کم خرچ سینیٹری پَیڈ کی باقاعدگی سے ماہانہ فراہمی بھی شامل ہے۔‘‘

شرما کہتی ہیں کہ ان وینڈنگ مشینوں نے ماہواری کے دوران حفظان صحت اور رسائی کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں ’’ہماری مشینیں اعلیٰ معیار کے سینیٹری نیپکن تک آسان رسائی فراہم کرتی ہیں جس کی وجہ سے نقصان دہ طریقوں اور انفیکشن کے خطرے میں نمایاں کمی واقع ہوتی ہے۔‘‘ وہ مزید بتاتی ہیں کہ اس طرح ’’اسکولوں اور کالجوں میں پڑھنے والی لڑکیوں میں باقاعدگی سے کلاسوں میں شرکت کرنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ کارپوریٹ دفاتر اور فیکٹریوں میں یہ مشینیں افرادی قوت میں خواتین کی زیادہ سے زیادہ شرکت کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔‘‘

نیکسس اسٹارٹ اپ ہب سے ملنے والی مدد نے شرما کو ایک نئے نقطہ نظر سے متعارف کرایا۔ شرما کہتی ہیں ’’نیکسس اسٹارٹ اپ ہب کے ساتھ میرا تجربہ کسی اہم تبدیلی سے کم نہیں تھا۔ اس سے پہلے میں روز مرہ کے معاملات میں گہری دلچسپی رکھتی تھی جس کی وجہ سے میرے پاس ایک قدم پیچھے ہٹنے اور بڑی تصویر دیکھنے کے محدود مواقع موجود تھے۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں ’’مجھے جو دوبدو رہنمائی ملی وہ قسمت بدلنے والی ثابت ہوئی۔ اس بیش قیمتی رہنمائی نے مجھے وہ بصیرت فراہم کی جو مجھے کبھی حاصل نہیں ہوئی تھی۔ جو چیز نمایاں تھی وہ فیڈبیک تھا۔ یہ صرف کمزوریوں کو دور کرنے کے بارے میں نہیں تھا بلکہ ان شعبوں میں بہتری کی نشاندہی کے لیے بھی تھا جہاں ٹھیک تھے ۔ یہاں زور اس بات پر بھی تھا کہ بہتری کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ ‘‘

ماحول مخالف گیسوں کے اخراج میں کمی

’پَیڈ کیئر لیبس ‘ کا ماہواری کے دوران حفظان صحت کا نظام ایک مکمل سلسلے کا احاطہ کرتا ہے جس میں سینیٹری پیڈ تک رسائی سے لے کراستعمال شدہ پیڈس کی ری سائیکلنگ اور ری سائیکل شدہ مواد تیار کرنا شامل ہے۔ یو ایس ایڈ سے امداد یافتہ یش انٹرپرینرس پروگرام سے منسلک پیڈ کیئر لیبس نے اس صنعت پر بڑے پیمانے پر اثرات مرتب کیے ہیں۔

اس کے بانی اور سی ای او اجنکیا دھاریا کہتے ہیں ’’۲۰۱۸ءمیں قائم کی جانے والی پیڈ کیئر لیبس سینیٹری کوڑے دان ، ایک ری سائیکلنگ سسٹم اور ری سائیکل شدہ باقیات سے تیار کردہ مصنوعات پیش کرتا ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں ’’یہ جدید طریقہ کار سینیٹری نیپکن سے ضرر رساں فضلے کو مؤثر طریقے سے ہٹاتا ہے اور استعمال شدہ پیڈکو سیلولوز میں تبدیل کرتا ہے جنہیں پیکیجنگ انڈسٹری میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سے گلدان، سڑکوں اور فرشوں پر لگائے جانے والے بلاکس ( پیوَر بلاکس) جیسے مصنوعات بھی تیار کیے جاتے ہیں۔‘‘

یہ کیسے کام کرتا ہے؟ دھاریا کا کہنا ہے کہ اس اسٹارٹ اپ نے پیڈ کیئر ایکس کے نام سے ایک مشین تیار کی ہے جو ’’خاص طور پر استعمال شدہ سینیٹری نیپکن کو جراثیم سے پاک کرنے اور ان کے باریک ٹکڑے کرنے کے لیے‘‘ ڈیزائن کی گئی ہے۔ مشین اعلیٰ طور پر جذب کرنے والے پولیمر کو بے اثر کر کے ایک حل کے ذریعے ہٹائے گئے مواد کو پروسیس کرتی ہے اور پھر اجزا کو ری سائیکل کیے جانے والے سیلولوز میں بدل دیتی ہے۔

دھاریا کہتے ہیں کہ یہ بھی بہت تیزی سے کام کرتی ہے اور صرف ۲۰ منٹ میں ۵۰ پیڈس کو پروسیس کرتی ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ماحولیات کو اس سے بہت زیادہ فائدے ہیں اور ’’پیڈ کیئر فی کلوگرام پیڈ کے مقابل دو اعشاریہ ۱۴ کلو گرام کے مساوی کاربن ڈائی آکسائیڈکا اخراج روکتی ہے ۔‘‘

اب تک پیڈ کیئر نے ہندوستان میں ۵۵۰ گاہکوں کے دفاتر میں دس ہزارکوڑے دان مفت میں نصب کیے ہیں جو روزانہ تقریباً ایک اعشاریہ پانچ ٹن سینیٹری پیڈ کی پروسیسنگ کرتے ہیں۔ کمپنی بینگالورو اور نئی دہلی میں پیڈ کیئر یونٹ متعارف کرانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ دھاریا کہتے ہیں ’’پیڈ کیئر کی توسیع کے ساتھ ساتھ اس کا مقصد ٹیئر ٹو اور ٹیئر تھری شہروں میں مائیکرو انٹرپرینرشپ ماڈل کا استعمال کرتے ہوئے ان یونٹس کو متعارف کرنا ہے۔‘‘ اس صنعت میں کام کرنے والی ان دونوں کمپنیوں کے مدد سے ہندوستان میں ماہواری کے دوران حفظان صحت پر مثبت اثرات میں توسیع جاری رہے گی جس سے ملک بھر میں ماہواری سے متعلق مصنوعات تک رسائی اور اس کے فضلہ کے انتظام و انصرام کے ذمہ دارانہ طریقوں کے لیے زیادہ پائیدار اور جامع نقطہ نظر کی راہ ہموار ہو گی۔

نتاشا ملاس نیو یارک سٹی میں مقیم ایک آزاد پیشہ قلمکار ہیں۔


اسپَین نیوز لیٹر کو مفت میل پر منگوانے کے لیے لنک میں دیے گئے فارم کو بھریں: https://bit.ly/SubscribeSPAN



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے