تکنیک کے استعمال سے سفر آسان بنانا

ہیوبرٹ ایچ ہمفری فیلو برجیش دکشت ممبئی اور احمد آباد کو منسلک کرنے والی ہندوستان کے اوّلین ’ ہائی اسپیڈ ریل کوریڈور‘ پر کام کر رہے ہیں۔

پارمیتا پین 

July 2024

تکنیک کے استعمال سے سفر آسان بنانا

ہوبرٹ ایچ ہمفری فیلو برجیش دکشت(جو نیشنل ہائی اسپیڈ ریل کارپوریشن لمیٹیڈ) کے ایکزیکٹو ڈائریکٹر بھی ہیں) امریکہ میں فیلو شپ کی مدت کے دوران مساچیوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں۔ (تصویر بشکریہ برجیش دکشت)

ممبئی اور احمد آباد کے درمیان ۵۰۸ کلومیٹر پر محیط جدید ترین ’ہائی اسپیڈ ریلوے کاریڈور‘  کو ان دونوں بڑے شہروں کے درمیان رابطے کو بہتر اور سفر کو آسان بنانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

نیشنل ہائی اسپیڈ ریل کارپوریشن لمیٹڈ (این ایچ ایس آر سی ایل) کے ایکزیکٹو ڈائریکٹر برجیش دکشت اس پروجیکٹ کے نفاذ میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں مسا چیو سٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) میں ٹیکنالوجی پالیسی اور مینجمنٹ کے میدان میں ہمفری فیلوشپ مکمل کی ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کا کفالت یافتہ ہیوبرٹ ایچ ہمفری فیلوشپ پروگرام کو انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ایجوکیشن چلاتا ہے۔ یہ فیلوشپ بین الاقوامی پیشہ ور افراد کے درمیان ایک ایسی قیادت کو تیار کرتا ہے جو مقامی اور عالمی دونوں چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے مل کر کام کرتے ہیں۔

’ہائی اسپیڈ ریلویز‘:  مستقبل کا سفر

جاپان، چین اور مغربی یورپ میں کامیاب آپریشن کے ساتھ تیز رفتار ریلوے یا ایچ ایس آر دنیا بھر میں مقبول ہو رہا ہے۔ دکشت کہتے ہیں ’’ایچ ایس آر کے تیز رفتار نقل و حمل کے علاوہ بھی متعدد فوائد ہیں:جیسے توانائی کے استعمال میں کفایت، تکنیکی ترقی کا فروغ، زمین کی قدرو قیمت میں اضافہ، نیز شہرکاری کو منظم کرنا اور دیگر شعبہ جات میں ذیلی فوائد بھی شامل ہیں۔‘‘ ممبئی۔احمد آباد کو ہی ہندوستان کی اوّلین ہائی اسپیڈ ریل  کاریڈور کے طور پر کیوں منتخب کیا گیا؟اس سلسلے میں  دکشت وضاحت کرتے ہوئے بتاتے ہیں ’’تقریباً ۵۰۰ کلومیٹر کا بین شہری فاصلہ ایچ ایس آر کے لیے بالکل موزوں ہے۔ اس کاریڈور میں مسافرین کی کثیر تعداد کی دلچسپی، نیز صنعتی اور اقتصادی ترقی کے کافی امکانات موجود ہیں۔‘‘

اس طرح کے وسیع پیمانہ کے منصوبوں کو لامحالہ کئی طرح کی دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان میں معاشرتی اور ماحولیاتی خدشات کو عبور کرنے سے لے کر نئی ٹیکنالوجیوں کو مربوط کرنے کے ساتھ  موثر نگرانی کو یقینی بنانا شامل ہیں۔ تاہم ہمفری فیلو کی حیثیت سے ایم آئی ٹی میں دکشت کے تجربے نے انہیں ٹیکنالوجی پر مبنی نظام کے متعلق اہم علم سے لیس کیا ہے، جس کا ایچ ایس آر تقاضہ کرتا ہے۔ The high-speed rail corridor under construction in Gujarat. (Photograph by Mahi.freefly / Shutterstock.com)

گجرات میں زیر تعمیر ہائی اسپیڈ ریل کوریڈور۔(تصویر از ماہی ڈاٹ فری فلائی/ شٹر اسٹاک ڈاٹ کام)

جدید ترین تحقیق

دکشت انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (آئی آئی ٹی) کانپور سے فارغ التحصیل ہیں۔ انہیں ہمیشہ سے ہی انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں کام کرنے کا جنون رہا ہے۔

ایم آئی ٹی میں دورانِ تعلیم ہی دکشت ہائی اسپیڈ ریل تحقیقی گروپ میں نہ صرف شامل ہوئے بلکہ جاپان کی شنکانسین ہائی اسپیڈ ٹرینوں کے ذمہ دار عہدیداران کے ساتھ اشتراک بھی کیا۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ اس تجربے نے انہیں ’’نہ صرف جاپان میں بلکہ مشرق وسطیٰ، یورپ اوردنیا کے مختلف خطوں اور خود امریکہ میں بھی ہائی اسپیڈ  ریل کی ترقی کے متعلق بصیرت افروز معلومات فراہم کیں۔‘‘ مزید برآں ،دکشت نے شماریاتی ماڈلنگ اوربِگ ڈیٹا، آٹومیشن، انٹرنیٹ آف تھنگس (آئی او ٹی)، منصوبہ بندی اور نقل و حمل کے انصرام کا بھی مطالعہ کیا۔ انہوں نے سینسنگ اور ڈیٹا انالٹکس کو بروئے کار لاتے ہوئے ٹرین اثاثہ جات کے انصرام پر ایک تفصیلی تبصراتی مقالہ بھی تحریر کیا۔

ایم آئی ٹی میں اپنی تعلیم و تجربے اور بین الاقوامی نظام سے واقفیت کے ثمرہ سے دکشت کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف ریلوے بلکہ دیگر شعبوں میں بھی موثر تبدیلی لانے کے اہل ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’ایم آئی ٹی میں ہونے کے سبب مجھے جدید ترین تحقیق سے روشناس ہونے کا موقع ملا ۔ اور میرے اندر وسعت نظری اور اختراعی نقطہ نظر پیدا ہوا۔‘‘ اہم بات یہ ہے کہ دکشت کو اصول اوّل سے واقفیت بھی حاصل ہوئی جس سے انہیں پیچیدہ طریقوں کو سہل بنانا آیا۔

فیلوشپ کے دوران دکشت قدرت، سائنس اور ٹیکنالوجی کے اسرار و رموز پر شاعری کے اپنے شوق کو دریافت کرنے میں کامیاب ہوئے۔ وہ انکشاف کرتے ہیں ’’میں نے اپنی کلیات بعنوان ’نیچر، سائنس اینڈ مائی میوزنگز: اے پیوٹک اوڈیسی سَم ایکزسٹینشیئل کوسچنس‘ مکمل کر لی ہے جو جلد ہی شائع ہونے والی ہے۔‘‘

سیکھنے کے شاندار مواقع

دکشت کا ہمفری گروپ  امریکی ریاست مین میں قیام پذیر تھا۔ اس گروپ نے امریکی وزارت خارجہ کی میزبانی میں بریٹن ووڈس، نیو ہمپشائر اور واشنگٹن ڈی سی کے دورے کیے۔ دکشت بتاتے ہیں ’’فیلوشپ پروگرام کے دوران میں نے امریکی اداروں اور ریل روڈ صنعت کا دورہ کیا۔‘‘ دکشت کو ہارورڈ یونیورسٹی میں ’شہریت اور بین الاقوامی ترقی‘ پر ہونے والے پینل مباحثے میں پینلسٹ کے طور پر شرکت کرنے کی دعوت بھی دی گئی۔ وہ بتاتے ہیں ’’میں نے دنیا بھر سے دوست بنائے۔‘‘ اس تجربے نے دکشت کے نقطہ نظر کو وسعت دی  اور انہیں مختلف ممالک، ان کی ثقافتوں اور ان کے مسائل  کے بارے میں جانننے کا موقع ملا۔ وہ مزید کہتے ہیں ’’میری ہمفری فیلوشپ کی اور بھی بہت سی یادیں ہیں اور شاید یہ میرے پیشہ ورانہ کریئر کا سب سے مفید اور شاندار دور تھا۔‘‘

پارومیتا پین رینو میں واقع یونیورسیٹی آف نیواڈا میں گلوبل میڈیا اسٹڈیز کی اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ 


اسپَین نیوزلیٹر اپنے میل پر منگوانے کے لیے لنک میں دیے گئے فارم کو بھریں: https://bit.ly/SubscribeSPAN



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے