آج کے اس غیر معمولی دور میں امریکی یونیورسٹیوں میں عالمی قائدین کی اگلی نسل کو تعلیم دینے کی گہری اور پائیدار وابستگی برقرار رہے گی۔
July 2020
پین سلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی کا دی پتّی لائبریری اینڈ مال۔ ناتھانیل سی شیٹز/ تصویر بشکریہ وکی پیڈیا
آج کی اس غیر یقینی صورتحال میں یونیورسٹی میں داخلہ لینے والے طلبہ اور ان کے والدین دنیا بھرکے قابل اعتماد اور معیاری تعلیمی اداروں کی جانب سے ضمانت کے خواہاں ہیں۔ بہت سارے طلبہ تو انگشت بدنداں ہیں کہ اعلیٰ تعلیم سے متعلق ان کے منصوبوں کا مستقبل کیا ہوگا ؟ اور یہ کہ بیرون ملک انڈر گریجویٹ اور گریجویٹ ڈگری لینے کے ان کے خوابوں کی تکمیل کیسے ہوگی؟
اس موقع کا استعمال کرتے ہوئے میں آپ کوبتانا اور یقین بھی دلانا چاہتا ہوں کہ امریکہ کے اعلیٰ تعلیمی ادارے اپنی خصوصیات برقرار رکھیں گے۔ خیال رہے کہ امریکہ کی سر فہرست یونیورسٹیوں نے خود کو موجودہ صورتحال کے حساب سے ڈھال لیا ہے اور اب وہ دنیا کے کسی بھی حصے میں عالمی معیار کی تعلیم آسانی کے ساتھ فراہم کر سکتی ہیں۔
عالمی معیار کی اصطلاح کا المیہ یہ ہے کہ اس کا استعمال ان دنوں کچھ زیادہ ہی کیا جا رہا ہے۔مگر جب امریکی اعلیٰ تعلیم کی بات ہوتی ہے تو یہ اس پر صادق آتی ہے۔آئیے اب سر فہرست تین عالمی درجہ بندی کے تناظر میں امریکی یونیورسٹیوں کی موجودہ صورتحال پر غور کرتے ہیں۔
٭ درجہ بندی کے دنیا بھر کے تین اہم اور بڑے نظاموں میں سے ایک کیو ایس رینکنگس میں دنیا کی سو سر فہرست یونیورسٹیوں میں امریکہ کی ستائیس یونیورسٹیاں شامل ہیں۔اور یہ ایک غیر معمولی بات ہے۔
٭ دی ٹائمس ہائیر ایجوکیشن رینکنگس میں دنیا بھر کی سرفہرست سو یونیورسٹیوں میں چالیس امریکی یونیورسٹیاں شامل ہیں۔
٭ اکیڈمک رینکنگ آف ورلڈ یونیورسٹیز (اے آر ڈبلیو یو )کی درجہ بندی میں دنیا بھر کی سر فہرست سو یو نیورسٹیوں میں پینتالیس ، سر فہرست پچاس یونیورسٹیوں میں اکتیس ، سر فہرست بیس یونیورسٹیوں میں سولہ اور سر فہرست دس یونیورسٹیوں میں سے آٹھ امریکی یونیورسٹیاں ہیں۔
اگر آپ اس کا دائرہ بڑھا کر سرفہرست دو سو، تین سو یا پانچ سو یونیورسٹیاں بھی کردیں تو بھی یہی چیز دیکھنے کو ملے گی۔اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ نہیں ہوگا کہ دو سو پچاس امریکی یونیورسٹیوں میں سے متعدد یونیورسٹیاں آج دنیا بھر میں اعلیٰ تعلیمی ادارے خیال کی جاتی ہیں۔ ان غیر معمولی حالات میں بھی امریکی یونیورسٹیوں کا عالمی رہنماؤں کی نئی نسل کو تعلیم فراہم کرنے کا عزم دیر پا ہے۔
آپ پوچھ سکتے ہیں کہ وہ کون سی چیز ہے جو امریکہ کے اعلیٰ تعلیمی نظام کو اتنا مضبوط بناتی ہے؟ تو میں آپ کو بتا ؤں کہ امریکی یونیورسٹیوں کے بعض نمایاں اور قابل ذکر پہلو ہیں اس کا باعث ہیں۔
اس میں سب سے پہلی چیز لبرل آرٹس کی ہماری روایت ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ طلبہ اپنے پسندیدہ شعبوں میں علم حاصل کرنے کے ساتھ اپنی دنیا کو بھی وسیع طور پر سمجھنا سیکھتے ہیں۔یہ طلبہ صرف نظریا ت کی تعلیم حاصل نہیں کرتے بلکہ وہ اپنے علم کو پروجیکٹ ، پوچھ تاچھ اور تحقیق کے ذریعہ حقیقی معنوں میں استعمال کرنا بھی سیکھتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ چیز اتنی اہم کیوں ہے؟ یہ ضروری ہے۔ کیوں کہ مصنوعی ذہانت کا استعمال کرکے کام چلانے والے کسی کمپیوٹر سائنٹسٹ ،پیش گویانہ تجزیات کا استعمال کرنے والے کسی تاجر یا انسانی جینوم کا تجزیہ کرنے والے کسی بایو میڈیکل انجینئر کو انسانیت کی ایک واضح اور ذمہ دارانہ سمجھ ہوتی ہے۔ اسی طرح ایک سماجی سائنسداں کو اس بات کی عملی سمجھ ہونی چاہیے کہ دوا اور ٹیکنالوجی میں تیزرفتار تبدیلی خواہ وہ مقامی طور پرہو یا عالمی سطح پر، بنیادی طورسے معاشرے کو کس طرح متاثر کرتی ہے۔لبرل آرٹس کی روایت اسی اثر اور فلسفے کو تعلیمی نظام میں شامل کرتی ہے۔
اس کے علاوہ تجرباتی تعلیم اور کریئر سازی دو ایسے شعبے ہیں جس میں امریکی اعلیٰ تعلیم کا شعبہ مثالی روایت رکھتا ہے ۔ یہی نہیں بہت سارے امریکی ادارے عالمی سطح پر مصروف طلبہ کو تیار کرنے اور ہماری مربوط دنیا میں ان کی کامیابی کو یقینی بنانے کی ایک واضح حکمت عملی رکھتے ہیں۔ یوں طلبہ کو اپنے تعلیمی منصوبے کی ضرورت کے تحت اپنی تحقیق، انٹرن شپ ، عملی پروجیکٹ اور عملی کام مکمل کرنے کے مواقع ملتے ہیں۔ امریکی نصاب تعلیم طلبہ کے سامنے یہ چیلنج پیش کرتا ہے کہ وہ دکھائیں کہ وہ اپنی سمجھ کا استعمال موزوں ، اہم اور جدید طریقوں میں کر سکتے ہیں۔
امریکہ میں عام طور پر تمام یونیورسٹیوں میں ایک فعال کریئر سروسیز آفس ہوتا ہے جو گریجویشن کے بعد طلبہ کی زندگی بہتر بنانے میں ان کی مدد کرتا ہے۔ یونیورسٹیاں فارغ ہو چکے طلبہ اور حال میں ہی کامیابی حاصل کرنے والوں کا رابطہ کاروبار اور اس سے متعلق صنعت سے کرتی ہیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ امریکی ادارے ابنائے قدیم کے نیٹ ورک کے تعلق سے کافی سنجیدہ ہوتے ہیں۔مثال کے طور پر میرا ادارہ پین سلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی دنیا بھر میں ابنائے قدیم کا سب سے بڑا نیٹ ورک ہے جو یہاں سے فارغ ہو چکے طلبہ کی زندگی بھر مدد کرنے اورنیٹ ورکنگ میں شامل ر کھنے کے لیے پر عزم ہے ۔
امریکہ میں طلبہ یونیورسٹی میں صرف پڑھائی کے لیے نہیں آتے بلکہ وہ زندگی بھر کارشتہ قائم کرنے ، اپنے کلاس روم سے باہرطلبہ تنظیموں اور کھلاڑیوں کے طور پر کیمپس کی زندگی کے تجربات کے ذریعے معاشرے میں خود کوشامل کرنے اورسماج کے ایک فعال اور کار آمد رکن کے طور پر خود کو فروغ دینے کے لیے آتے ہیں۔میرے ایک سابق ہمکار نے کبھی مجھ سے کہا تھا ’’انڈر گریجویٹ تعلیم کا مقصداٹھارہ برس کے کسی نوجوان کو بائیس برس کے نوجوان میں تبدیل کرنا ہے۔مجھے پختہ یقین ہے کہ والدین اس بات کی تعریف کریں گے۔متحرک، کامیاب اور اطمینان بخش کریئر کے لئے ہنرسازی میں گریجویٹ طلبا کی مدد کرنا بھی کافی اہم ہے۔‘‘
امریکی اعلیٰ تعلیم کا نظام اسی کی پیش کش کرتا ہے۔ امریکہ نے طویل عرصے سے ہندوستانی طلبہ کا استقبال کرکے خود کو فائدہ پہنچایا ہے۔وہ طلبہ جنہوں نے ہمارے معاشرے کو تقویت بخشی ہے اور بہت سارے معاملات میں تواپنے وطن واپس پہنچ کر انہوں نے اپنے معاشرے کو بھی خوشحال بنانے کا کام کیا ہے۔ ہم تمام طلبہ کو قابل، پر اعتماد اور انتہائی ہنر مند افراد کی حیثیت سے ان کی زندگی کے مقاصد کوحاصل کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے معاشرے کے لیے مؤثر رہنما بن سکیں۔
ہر امریکی یونیورسٹی مستقبل کے پیش نظر طلبہ کے کیمپس میں واپس آنے کے تعلق سے فیصلہ کرنے والی ہے۔بہت ساری یونیورسٹیاں آنے والے سمسٹر کے لیے منصوبے وضع کر رہی ہیں۔ اس کے تحت ہدایات کے ایک ، دو یاتین نمونے ترتیب دیے جارہے ہیں جن میں کلاسیکی رہائشی تجربہ، مکمل طور پر آن لائن تجربہ اور ایک ہائبرِڈ (کلاسیکی رہائشی اور آن لائن )تجربہ شامل ہیں۔رہائشی تجربے کے فوائد ناقابل تردید ہیں کیوں کہ امریکی نظام دنیا بھر سے آنے والے طلبہ کو نصابی اور شریک نصابی تعلیم دینے کی منفرد اہلیت رکھتا ہے۔تاہم ہمارے بہت سارے اداروں میں عالمی معیار کے انتہائی متعامل ، طلبہ پر توجہ دینے والی مثالی تعلیم کی دور دراز علاقوں تک فراہمی کا انتظام ہے ۔مجھے معلوم ہے کہ انڈیا میں آن لائن پروگرام کو ہمیشہ بہتر سمجھا نہیں جاتا اور شاید بعض طلبہ کے لیے تو اس کا تجربہ غیر متاثر کن بھی ہوسکتا ہے۔
اگر امریکہ کی بات کریں تو دوردراز علاقوں میں کورس ورک کی ڈیجیٹل فراہمی میں گذشتہ دو دہائیوں سے رفتہ رفتہ بہتری آرہی ہے۔ہمارے آن لائن کورسیز میں بات چیت پر کافی زور رہتا ہے ۔ان میں ناہم زمان اورہم زمان تجربات کی خصوصیات ہوتی ہیں جس کے لیے اساتذہ جدید ترین ڈیجیٹل تدریسی وسائل جیسے کرسٹل بورڈ اور بلیو اسکرین کا استعمال کرتے ہیں۔ یہاں پر میں آپ سب کو اس بات کا اطمینان دلانا چاہتا ہوں کہ یہ بہت سارے امریکی اداروں میں ہمارے جدید اقدارکی نشاندہی کرتا ہے اور مستقبل کے لیے طلبہ کو تیار کرنے کی جانب ہمارے جذبے کا غماز ہے۔
اب ہم عصر امریکی سماج میں ایک انتہائی اہم مسئلے کے ذکرکے ساتھ میں اس مضمون کو ختم کرنا چاہوں گا ۔امریکہ میں حالیہ مظاہروں کے تعلق سے ہندوستانی ذرائع ابلاغ میں کافی خبریں دیکھنے کو ملی ہیں ۔ اس کوریج سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تحریک انتشار انگیز ہے۔
اس کے تعلق سے میرا کہنا ہے کہ جزوی طور پر وہ صحیح ہیں۔یہ انتشار انگیز ہے۔دراصل انتشار ایک علامت ہے اور امریکی تاریخ کے سیاق و سباق میں دروں بینی کا عمل طویل عرصے سے واجب ہے۔تاریخ نے امریکہ سے لے کر بھارت اور دیگر ملکوں تک یعنی پوری دنیا میں احتجاج کی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے۔معاشرے میں مساوات کے مسائل کے حل میں، اور اس بات کی یقین دہانی میں امریکہ ایک بہتر ملک ثابت ہوگا ،کہ ہمارے آبا و اجدادجس پر یقین رکھتے تھے ہم نے بھی اسے اسی طرح تشکیل دیا ہے۔
تین برس تک ایشیا میں پڑھائی کرنے والی ایک بیٹی کے باپ ہونے کے ناطے میں اپنے بچے کو کسی ایسے ملک میں بھیجنے سے متعلق تشویش کو سمجھ سکتا ہوں جہاں آدھی دنیا کا سفر کرکے پہنچا جاتا ہے۔ لیکن میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ امریکہ میں زندگی بلا روک ٹوک جاری ہے اور ہمارے معاشرے میں مزید مثبت تبدیلیاں آنے والی ہیں اور یہ کہ امریکہ میں انڈیا سے آنے والے طلبہ کا ہر وقت پرتپاک استقبال ہے۔
ہم لوگ غیر یقینی کے دور میں جی رہے ہیں لیکن ایک چیز میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ کسی بھی امریکی ادارے سے حاصل کی ہوئی ڈگری کسی بھی گریجویٹ کے لیے امکانات کی ایک دنیا کھول دیتی ہے۔میں امید کرتا ہوں کہ آپ اپنے لیے یا پھر اپنے طلبہ کے لیے اس موقع کو حاصل کرنے پر غور کریں گے۔
روجربرِنڈلے پین سلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی میں گلوبل پروگرامس کے وائس پروووسٹ ہیں۔
تبصرہ