دہلی میں منعقد ہوئے کامِک کَون پروگرام کے مدّاحوں کو یاد ہے کہ کس طرح بچپن میں انہیں امریکی سُپر ہیروز نے اپنی انسانی جدوجہد کے ذریعے متاثر کیا۔
January 2023
دھرو کالرا(دائیں) جیسے بیس سالہ مدّاح جس نے دہلی کامِک کَون میں سپائڈرمین کا کردار ادا کیا کہتے ہیں کہ امریکی سُپر ہیروز نے ان کے ابتدائی برسوں انہیں بے حد متاثر کیا اور اب جب کہ وہ اس دَور کو خیر باد کہہ چکےہیں تو اب بھی وہ کردار بطور بالغ ان کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
کَرَن دیسائی نے ۸ برس کی عمر میں پہلی بار کامِکس پڑھنا شروع کیا۔ کَرَن کا کہنا ہے ’’ میں نے انہیں ۲۰۰۲ء میں جمع کرنا شروع کیا تھا جب ان کی قیمت ۲۰ یا ۲۵ روپے تھی۔ ‘‘ کَرَن کی پہلی پسند بَیٹ مَین اور سُپر مَین تھے۔ اب ۲۰ سال بعد جب کہ کامِکس کا کَرَن کا وہ ذخیرہ شاید گم ہو چکا ہے اور کَرَن بَیٹ مَین اور سُپر مَین کی جگہ ڈاکٹر اسٹرینج میں دلچسپی لینے لگے ہیں مگر بچپن کے ان کرداروں کے اثر نے کَرَن کو دنیا کو اس طرح دیکھنا سکھایا جیسے اب وہ اسے دیکھتا ہے۔
کَرَن کوبیلس پالسی کا مرض لاحق ہے، جس کی وجہ سے بائیں جانب چہرہ فالج زدہ ہو گیا ہے۔اس نے اس بات کی نشاندہی کی کہ کس طرح افسانوی ڈاکٹر اسٹرینج اپنے ہاتھوں کے اعصابی نقصان پرتوجہ دیتا ہے۔کَرَن کا کہنا ہے ’’میں ان سے جدوجہد کرنا اور بہتری لانا سیکھ رہا ہوں۔‘‘ اسی لیے کَرَن نے اپنا ڈاکٹر اسٹرینج جیسا کپڑ ابنوایا اور پچھلے سات آٹھ ماہ سےاسے ڈاکٹر اسٹرینج کے کردار کی طرح زیب تن کررہا ہے۔
۱۹۸۰ءکی دہائی میں پیدا ہونے والے بہت سے بھارتی بچوں کے لیے کامِکس کتابیں اور بَیٹ مَین اور سُپر مَین جیسے امریکی سُپر ہیروز ان کے ان دنوں کا لازمی حصہ رہے ہیں جب وہ بڑے ہورہے تھے۔ بہت سے لوگوں نے اپنے پسندیدہ سُپر ہیروز کے لیے اپنی وابستگی کو کئی سالوں تک برقرار رکھااور دہلی کامِک کَون میں اسٹیج پر ان کرداروں کوپیش کیا۔خواہ وہ کرداروں کے جیسے لباس،کامِکس بُک اور ان کےمجسموں کے جمع کرنے سے لے کرزیادہ گہرے اثر کی بات ہو، یہ واضح تھا کہ امریکی سُپر ہیروز پرانے اور نئےڈی سی اور مارویل شائقین کے دلوں میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔
ساکشی سنگھ، جو بنارس سے کامِک کَون میں شرکت کے لیے آئی تھیں وہ ’ بفی دی ایمپائر سلیئر ‘ کی بفی اور ’مارویل سنیمیٹِک یونیورس‘ کی شوری اور وانڈا جیسی خواتین سُپرہیروز کی بہت بڑی مداح ہیں۔ ان کے نزدیک بفی خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے حتمی تعویذہے۔ سنگھ کہتی ہیں’’بفی ایک مضبوط کردار ہے،وہ نہ صرف ایک سُپر ہیرو ہے کیونکہ اس کے پاس مافوق الفطرت طاقتیں ہیں، وہ جذباتی طور پر بھی مضبوط ہے اور اس میں نسوانیت ہے جو اسے مشہور بناتی ہے۔‘‘
سنگھ کا کہنا ہے کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بفی کسی بھی ایسی مردانگی کا مظاہرہ نہیں کرتی جو کچھ مرد سُپر ہیروز کرتے ہیں۔ ’’وہ جذبات کو دیکھتی ہے، وہ چیزوں سے گزرتی ہے، وہ اپنے کردار میں نشوونما اور پختہ ہوتی ہے اور بڑھتی ہے اور یہی چیز اسے بہت خاص بناتی ہے۔‘‘
مردوں کے زیر تسلط’ مارویل سنیمیٹِک یونیورس ‘ کےمنفردکرداروں کے طور پر، شوری اور وانڈا بھی سُپرہیرو کی کہانیوں میں منفرد داستانیں لاتے ہیں۔’’میں جانتی ہوں کہ وانڈا ابھی کچھ چیزوں سے گزر رہی ہے اور ہمیں اسے سُپر ہیرو کے طور پر درجہ بندی کرنے کی ضرورت نہیں لیکن مجھے لگتا ہے کہ وانڈا کا کردار اس بات کی بھرپور نمائندگی کرتا ہے کہ لوگ کس طرح ذہنی صدمے سے گزرتے ہیں اور یہ انہیں سُپرہیرو بنا دیتا ہے اور جب ہم دیکھتے ہیں کہ وہ بھی جدوجہد کر رہے ہیں اور انتہائی انسانی انداز میں ردعمل ظاہر کر رہے ہیں تو یہ ہمیں ان کے قریب ہونے کا احساس دلاتا ہے۔‘‘
زندگی سے مطابقت رکھنے کی وجہ سےبہت سے مدّاح اپنے بچپن کے سُپر ہیروز کی طرف اپنی بلوغیت میں بھی مائل ہوتے ہیں۔کَرَن کے لیے کامِکس بُک ’’ان مثالی چیزوں کی طرح تھیں جو آپ کو اس وقت ملتی ہیں جب آپ بڑے ہورہے ہوتے ہیں اور آپ کے والدین مکمل طور پر وہاں نہیں ہوتے۔‘‘ کَرَن کا کہنا ہے ’’میں جیسے جیسے بڑا ہوا، میں نے کرداروں کی پیچیدگی کو سمجھ لیا۔ یہ صرف سیاہ اور سفید نہیں، اچھے اور برے نہیں ۔ ابھی بہت کچھ ہو رہا ہے اور یہ ابھی بہت زیادہ سکھانے والا تجربہ رہا۔‘‘
یہاں تک کہ ۲۰سالہ دھرو کالرا،جس نے کامِک کَون میں اسپائیڈرمین کا کردار ادا کیا، انکل بین کے مشہور مکالمے کو بڑی قوت، بڑی ذمہ داری کے ساتھ بہت سنجیدگی سے بھی لیتا ہے۔لیکن کوئی افسانوی کردار کسی کی زندگی میں کس وصف کا اضافہ کر سکتا ہے؟کامِک کَون آنے والا۲۳ سالہ پرنس مہاجن کہتا ہے ’’جس طرح میں اپنی زندگی گزارنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ میں مستقبل میں کوئی پچھتاوا نہیں چاہتا۔‘‘ وہ خود بھی ایک سُپر فین ہے۔وہ مزید کہتا ہے’’میں یقین کرنا چاہتا ہوں کہ اس لمحے میں میں نے جو کچھ بھی کیا، میں نے اس کے بارے میں سوچا اور اس وقت وہی کرنا صحیح تھا اور اس طرح کیپٹن امریکہ مجھے متاثر کرتا ہے۔ وہ پوری تصویر دیکھتا ہے۔‘‘
تبصرہ