طلبہ تنظیمیں رنگارنگ کیمپس کی تشکیل کا سبب بنتی ہیں ۔ بھارتی طلبہ تنظیمیں ایک طرح سے بھارتی اور امریکی تہذیبوں کا سنگم ہیں جس کی جھلک کیمپس کی زندگی میں صاف طور پر نظر آتی ہے۔
April 2022
تال ۲۰۱۹ کے شرکا۔ تال کیمپس بھر کا جنوبی ایشیائی ہنر مقابلہ ہے جس کی کفالت آسٹِن میں واقع یونیورسٹی آف ٹیکساس کے بھارتی طلبہ کرتے ہیں۔ تصویر بشکریہ فیس بُک ڈاٹ کام/ ٹیکس ایشیا۔
امریکی یونیورسٹیوں نے تسلسل کے ساتھ دنیا کے بہترین تدریسی اداروں میں اپنی برتری قائم کی ہوئی ہے۔ ان اداروں کی خصوصیت یہ ہے کہ ان میں درس و تدریس کو فوقیت کے ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں پر بھی کافی توجہ دی جاتی ہے۔ امریکہ میں ایک فعال کیمپس زندگی گزارنا اس لیے بھی ضروری ہوجاتا ہے تاکہ طلبہ یونیورسٹی میں اپنے قیام کے دوران وہاں موجود سہولتوں اور وسائل سے بھر پور فائدہ اٹھا سکیں۔ یہ جامعات اپنی افرادی قوت، منصوبہ بندی اور اپنے وسائل کا کثیر تعداد میں استعمال کرتے ہیں تاکہ بین الاقوامی طلبہ اپنی زندگی کے اگلے مرحلے کے لیے اچھی طرح سے تیاری کرلیں اوران کی درست طور پر مدد ہو سکے۔ طلبہ تنظیمیں جامعات میں ثقافتی طور پر متنوع کیمپس تشکیل تو دیتی ہی ہیں، انہیں چلانے میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ طلبہ کی مختلف النوع ضروریات کے مد نظر یہ تنظیمیں کلب سے لے کر پرفارمنگ آرٹس گروپس، رضاکاری کے مواقع اور سیر تفریح وغیرہ یعنی طلبہ زندگی کے مختلف شعبہ جات کا بخوبی احاطہ کرتی ہیں۔
مثال کے طور پر بھارتی طلبہ ایسو سی ایشن( آئی ایس اے) قدیم بھارتی اور امریکی طلبہ کو یکجا کرتی ہے۔ اس کی موجودگی امریکہ بھر کی یونیورسٹیوں میں ہے۔اصل میں آئی ایس اے ایک مجموعی تنظیم ہے جس کے تحت متعدد چھوٹے چھوٹے کلب اور ایسو سی ایشن کام کرتے ہیں جن میں طلبہ شرکت کر سکتے ہیں۔آسٹن میں واقع یونیورسٹی آف ٹیکساس کی آئی ایس اے ۱۹۵۴ء میں قائم ہوئی تھی۔ یہ اس وقت سب سے قدیم طلبہ تنظیم ہے جس میں ۱۵۰ سے زائد چندہ دینے والے اراکین ہیں۔ فلرٹن میں واقع کیلیفورنیا اسٹیٹ یونیورسٹی میں موجود آئی ایس اے میں ۲۰۰ اراکین ہیں۔ اس طور پر یہ کسی بھی کیمپس میں پائی جانے والی سب سے بڑی ثقافتی تنظیم ہے۔ پرڈیو یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف مشی گن میں بھی آئی ایس اے موجود ہیں جو طلبہ کو جوڑنے اور طبقات کی تشکیل کا کام کرتی ہیں۔
یہ تنظیمیں دیوالی کی تقریبات اور سالِ نو پر رقص کا اہتمام کرتی ہیں۔ ان میں کالج کمیونٹی کی کثیر تعداد شرکت کرتی ہے۔ ہر سال موسم بہار کے موقع پر پرڈیو یونیورسٹی کی آئی ایس اے ’’کراس روڈس آف بھانگڑا‘‘ نامی مقابلے کا انعقاد کرتی ہے۔ یہ نہایت ہی مقبول بھانگڑا مقابلہ ہے جس میں امریکہ بھر کی جامعات جیسےییل یونیورسٹی، پرنسٹن یونیورسٹی اور کولمبیا یونیورسٹی کے طلبہ شرکت کرتے ہیں۔ آسٹن میں واقع دی یونیورسٹی آف ٹیکساس کو اپنے قومی رقص گروپ ٹیکساس بھانگڑاپر بڑا فخر ہے۔ اس کا قیام ۲۰۰۳ء میں عمل میں آیا تھا جس کا مقصد پنجابی ثقافت اور کثیر ثقافتی معاشرے کی فروغ کے لیے کام کرنا ہے۔
انڈین اسٹوڈنٹ ایسوسی ایشنس تہوار مناتے ہیں، ثقافتی پروگراموں کا انعقاد کرتے ہیں، طلبہ کے مابین رابطہ کرواتے ہیں، طبقات کی تعمیر کرتے ہیں اور نئے طلبہ کو کیمپس کی زندگی سے مطابقت پیدا کرنے میں مدد کرتی ہیں۔ تصاویر بشکریہ فیس بک ڈاٹ کام/آئی ایس اے یو میچ اینڈ فیس بُک ڈاٹ کام/ سی ایس یو ایف انڈیا اسٹوڈنٹ ایسوسی ایشن۔
بڑے کیمپسوں میں آئی ایس اے امدادی نیٹ ورک اور سماجی گروپ کی حیثیت سے کام کرتی ہے۔ اس سے ایسے طلبہ فیضیاب ہوتے ہیں جو تہذیبی قرابت، ہم خیال رفاقت اور اپنائیت کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ مشی گن یونیورسٹی میں موجود آئی ایس اے بین الاقوامی بھارتی طلبہ اور ہند نژاد امریکی طلبہ کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں مدد کرتی ہے۔ فلرٹن میں واقع کیلیفورنیا اسٹیٹ یونیورسٹی میں موجودآئی ایس اے جنوبی کیلیفورنیا میں موجود بڑی برادری سے طلبہ کا رابطہ کراتی ہے۔
امریکہ میں یونیورسٹیاں طلبہ کو امدادی خدمات بھی فراہم کرتی ہیں جن کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ نئے طلبہ اور ان کے گھر والے کیمپس کی نئی زندگی میں اپنے آپ کو اچھی طرح سے ڈھال لیں۔ یہ منظور شدہ امدادی نظام صحت سے لے کر درس و تدریس، مالی اعانت سے لے کر تحفظ تک تمام معاملات کا نہ صرف ہر طرح خیال رکھتا ہے بلکہ طلبہ کی پوری مدد کرتا ہے۔
جامعات میں موجود آئی ایس اے طلبہ تنظیموں کی صرف ایک مثال ہے جو اس مقصد کو پورا کرتی ہے۔ یہ تنظیمیں طلبہ کو اس وقت یہ سب اضافی وسائل مہیا کرتی ہیں جب ان کو ان کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔ آسٹن میں واقع یونیورسٹی آف ٹیکساس میں موجود آئی ایس اے ایک خاص مہم’’فوڈ فار تھاٹ‘‘ چلاتی ہے۔ اس کے تحت ان طلبہ کو مفت کھانا دیا جاتا ہے جو اپنی تعلیم کے آخری مرحلے میں ہیں۔ اسی طرح پرڈیو انڈین انڈر گریجویٹ ویلفیر ایسوسی ایشن امریکہ آنے والے نئے طلبہ کو امریکہ آنے سے قبل امریکہ کے حساب سے ڈھلنا سکھاتی ہے۔ اس تربیت کا انعقا ان کے امریکی کیمپس میں آنے سے پیشتر د موسم سرما میں کیا جاتا ہے۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ امریکہ میں طلبہ نئی یونیورسٹی کی طرزحیات کی فعالیت اور پریشانی کوخندہ پیشانی سے قبول کرتے ہیں۔ جہاں طلبہ کالجوں میں داخلہ لیتے ہیں وہاں ان تجربات کا انہیں کافی فائدہ ملتا ہے۔ جو طلبہ کسی بڑی شہری یونیورسٹی کے کسی ادارے میں داخلہ لیتے ہیں ان کا تجربہ ان طلبہ سےیکسر مختلف ہوتا ہےجو کسی چھوٹے شہر کی یونیورسٹی میں داخلہ لیتے ہیں۔ اس طور پر دیکھا جائے تو جو طلبہ تیز رفتار طرز حیات اور شہری زندگی کے عادی ہوتے ہیں وہ بڑے تعلیمی ادارےپسند کرتے ہیں جبکہ ایسے طلبہ جو سب وے نظام اور ہزاروں طلبہ سے بھری یونیورسٹی کے تصور سے ہی خوف کھاتے ہیں وہ چھوٹے شہروں کے کالجوں کی سست رفتار زندگی کو ترجیح دیتے ہیں۔
طلبہ چاہے جس قسم کے بھی تعلیمی ادارے کے بارے میں سوچیں، ہر جگہ یقینی طور پر غیر نصابی سرگرمیوں کا اہتمام ہوتا ہے۔ مباحثہ کلب سے لے کرموسیقی تنظیمیں یا پھر مقامی تنظیموں کے ساتھ کام کرنا، ہر طرح کے مواقع موجود ہیں۔ اگر بذات خود جانا ممکن نہیں تو طلبہ کو چاہیے کہ وہ یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر جا کر دیکھیں کہ کسی مخصوص تعلیمی ادارے میں ان کی دلچسپی کا کوئی کلب ہے کہ نہیں۔ اس کے علاوہ فیس بک گروپ پرطلبہ سے رابطہ کریں اور ان کے تجربا ت جانیں۔ ایک اور بہت اہم بات یہ کہ طلبہ خواہ کسی ادارے میں تعلیم حاصل کر رہے ہوں ان کو چاہیے کہ وہ اپنے گوشہ عافیت سے باہر نکلیں اورہر قسم کی تقریبات میں شرکت کریں کیوں کہ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ مواقع کی تلاش خود کرنی ہوگی ، وہ ہاسٹل کے کمرے تک نہیں آئیں گے۔
کینڈِس یاکونو جنوبی کیلیفورنیا میں مقیم قلمکار ہیں جو جرائد اور روزناموں کے لیے لکھتی ہیں۔
تبصرہ