ممبئی میں یَنگ مین کرسٹییَن ایسو سی ایشن (وائی ایم سی اے)کی اسٹوڈ نٹ شاخ والی سو برس پرانی عمارت کو یو ایس اَیمبسڈرس فنڈ فار کلچرل پریزرویشن کی جانب سے ملے ایک عطیہ نے نئی زندگی عطا کر دی ہے۔
May 2017
ممبئی کی کیمنگٹن روڈ پر ۱۰۰ سال پرانی وائی ایم سی اے اسٹوڈنٹ برانچ بلڈنگ کا ایک نظارہ۔ (تصویر بشکریہ دی بومبے وائی ایم سی اے)
وائی ایم سی اے میں ٹھہرنا خاص کر ممبئی میں ۴۱۲ لیمنگٹن روڈ پر واقع وائی ایم سی اے کے اسٹو ڈینٹ برانچ میں ٹھہرنا یقینی طور پر تفریح کا باعث ہے۔۱۹۱۰ءمیں تعمیر کی گئی اس عمارت کو اپریل ۲۰۱۰ ءمیں اس کی صدی تقریبات کے موقع پر پھر سے استعمال کے لیے کھولا گیا ۔ اس سے پہلے ۱۹ ماہ تک عمارت کو بحال کرنے کا کام چلتا رہا۔
ممبئی کے تاریخی حصے کی سب سے مصروف گلیوں کے مصروف حصے کو خود میں جگہ دینے والی نو کلاسیکی اور اطالوی ماہر تعمیرات ایندرے پلادیو کے نئے طرز کی اس عمارت کا ڈیزائن مقامی ماہرین تعمیرات چَیمبرس اینڈ فرچ لے نے انجام دیا تھا۔ ان ہی دونوں نے ۱۸۹۸ءمیں آرمی اینڈ نیوی بلڈنگ اور۱۸۸۴ ءمیں کنیسیٹ ایلی یاہو سائنا گوگ کو بھی ڈیزائن کیا تھا۔
۲۰۰۷ء میں وائی ایم سی اےکے ڈپٹی جنرل سیکریٹری پال جارج نے عمارت کی تزئین اور آرائش کا منصوبہ بنانا شروع کیا۔ عمارت کو اس کی سخت ضرورت بھی تھی۔ انہوں نے عمارت کی بحالی کے کام کے لیے تحفظ کا کام انجام دینے والے ماہر تعمیرات وکاس دلاوری سے رابطہ قائم کیا اوریو ایس ایمبسڈرس فنڈ فار کلچرل پریزرویشن(اے ایف سی پی)سے مالی اعانت کے لیے درخواست دی جہاں سے اس کام کے لیے ۳۰ ہزار ڈالر (قریب قریب ۲۰ لاکھ روپے)کا عطیہ ملا۔
وائی ایم سی اے کی عمارت کی بحالی کے کام میں بہت سے ڈھانچوں کو بہتر شکل دینا بھی شامل تھا ۔ بحالی کے منصوبے کا سب سے اہم حصہ نچلی منزل کے پبلک ہال کو لکچر اور نمائش کے علاوہ مختلف سرگرمیوں کے لیے استعمال میں لائے جانے کے قابل بنانا تھا ۔ اس کے علاوہ کتب خانے اور انتظامیہ کے دفاتر میں بھی کام کروایا گیا۔ کھانے کے ہال کو بھی بہتر بنایا گیا اور اس میں توسیع کی گئی۔ اب اس میں ۴۵ افراد کے بیٹھنے کی گنجائش پیدا ہو گئی ہے جب کہ پہلے یہاں اس تعداد کے نصف سے بھی کم لوگ بیٹھ پاتے تھے۔ تین منزلہ اس عمارت کی ہر منزل کو الگ رنگ سے رنگا گیا ۔ لکڑی کی تمام چیزوں پر بھی پالش کی گئی ۔ اس کے ساتھ ساتھ چکر دار لوہے والی سیڑھی کو بھی بحال کیا گیا۔
جارج کہتے ہیں ”خوبصورت ڈائننگ ہال آپ کو ایک آرام دہ اور اطمینان بخش ریستوراں کا احسا س کراتا ہے ، نہ کہ ہاسٹل کے کسی کینٹین کا۔ دیوار پر بنائی ہوئی ممبئی کے مناظرکی تصاویر واقعی پُر کشش ہیں۔ طلبہ نے شاید اسی لیے اسے ممبئی میں تمام ہاسٹل کا بہترین ڈائننگ ہال قرار دیا ہے۔‘‘
عوامی استعمال کے مقامات کی تزئین کاری پر سب سے زیادہ توجہ دی گئی ہے جس میں مطالعہ کا کمرہ اور کتب خانہ شامل ہے۔
جارج اپنی بات جاری رکھتے ہیں ”دوسری جگہ جو ہاسٹل کے اور قرب و جوار کے طلبہ کے درمیان کافی مقبول ہے وہ عوامی مطالعہ کا کمرہ اور کتب خانہ ہے ۔ یہ چیزیں ان طلبہ کے لیے ایک عظیم تحفہ ہیں جو مطالعہ کے لیے کسی مناسب جگہ سے محروم ہیں اور چال میں یا ایک کمرے کے کرائے کے گھروں میں رہتے ہیں۔‘‘
وائی ایم سی اے کی بحالی کے منصوبے کو ۲۰۰۹ ءکے ایشیا پیسیفک ہیریٹج ایوارڈس فار کلچر ہیریٹیج کنزرویشن میں یونیسکو ایوارڈ آف میرٹ سے سرفراز کیا گیا ۔ یونیسکو پینل نے ”عمارت کو محفوظ کرنے کے مناسب طریقہ کار کی ستائش کی جس نے اس محبوب ادراے کی عظمت کو برقرار رکھا اور اس تاریخ ساز گلی کے نظارے کو بہتر بنایا۔‘‘
جنوری ۲۰۰۹ ءمیں اس نئی اور تزئین شدہ عمارت کے افتتاح کے جشن کے لیے وائی ایم سی اے نے امریکی شہری حقوق سے متعلق تحریک کے رہنما ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ جونیر کے بیٹے مارٹن لوتھر کنگ سوئم کو دعوت دی۔ اس دعوت کا مقصد طلبہ کو ترغیب دینا اور دیگر عوامی شخصیات کے دورے کے لیے راہیں ہموار کرنا تھا۔
انگریزی روزنامہ انڈین ایکسپریس کو دیے گئے انٹرویو میں جارج نے بتایا ”وائی ایم سی اے ایک چھوٹے بھارت کی طرح ہے۔ آپ کو یہاں ہر ذات ، برادری ، عقیدے اور پس منظر کے طلبہ ملیں گے۔ یہ بات اہم ہے کہ وہ اختلافات کا احترام کرنے کی اہمیت سے واقف ہوں ۔ اوراس بات کو ان کو مارٹن لوتھر کنگ سوئم سے بہتر اور کون سکھا سکتا ہے ۔ اس لیے ہم نے انہیں اور ان کے وفد کو یہاں آنے کی دعوت دی۔‘‘
ابتدائی بحالی کے وقت سے ہی وائی ایم سی اےاپنے یہاں رہنے والوں کے معیار زندگی کو مزید بہتر کر نے پر کام کر رہا ہے ۔
جارج بتاتے ہیں ”حال ہی میں ہمیں ایک بڑے خطے پر قبضہ ملا جس پر ایک کرائے دار نے غیر قانونی طریقے سے قبضہ جمارکھا تھا۔ عدالت نے ہمارے حق میں فیصلہ سنایا۔ اب اس کا ایک حصہ مطالعہ کے کمرے کی توسیع کے کام آیا ہے ۔ اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اسی کا استعمال کرتے ہوئے مشاورت کے کام کے لیے ایک مرکز قائم کیا گیا ہے۔‘‘
نتاشا مِلاس نیو یارک سٹی میں مقیم ایک آزاد پیشہ قلمکار ہیں۔
تبصرہ