امریکہ نے دوسری عالمی جنگ کے دوران مشرقی ہمالیائی سلسلوں میں ’’ہمپ‘‘ روٹ پر سینکڑوں طیارے کھو دیے ۔ امریکہ اوربھارت نے لاپتہ فوجیوں کو گھر واپس لانے کی خاطر بازیابی مشن چلانے کے لیے مل جل کر کام کیا ہے اور ان اہم مہمات کے لیے اپنی عہدبستگی کا اعادہ کیا ہے۔
June 2022
آرمی ایئر کور فرسٹ لیفٹیننٹ اِروِن جی زیٹز (بائیں) اور آرمی ایئر فورسیز فرسٹ لیفٹیننٹ چارلس ہووارڈ مورٹیمر
۱۹۴۲ء میں جب کہ دوسری عالمی جنگ سے پوری دنیامیں تباہی مچی ہوئی تھی، امریکی فضائیہ نے ان دس لاکھ سے زیادہ جاپانی فوجیوں کو روکنے میں مدد کے لیے ایک جرات مندانہ اور بے مثال مہم شروع کی جو چینی فوجیوں سے لڑ رہے تھے۔یہی وجہ تھی کہ انہیں اتحادی فوجوں کے خلاف پیسیفک تھیٹر (بحرالکاہل دوسری عالمی جنگ کے زمانے میں اتحادیوں اور جاپانیوں کے مابین ایک بڑی رزم گاہ کی حیثیت رکھتا تھا) میں کہیں بھی تعینات نہیں کیا جا سکا تھا۔
اس وقت امریکہ چینی افواج کو ایک گھماؤ دار راستے سے رسد بھیج رہا تھا جو رنگون (موجودہ ینگون) کے برمی بندرگاہ سے شروع ہوا، مشرقی برما (موجودہ میانمار) کے شہر لیشیو تک جاری رہا اور پھر برما کی مشہور سڑک کے ذریعہ چین میں کنمنگ سے مربوط ہوا۔ یہ سپلائی لائن چینی فوج کے لیے انتہائی اہم تھی کیونکہ جاپان نے دیگر ذرائع کو منقطع کر دیا تھا اور بالآخر مارچ ۱۹۴۲ء میں رنگون پر قبضہ کر کے راستے کو مکمل طور پر بند کر دیا تھا۔
جواب میں امریکہ نے صوبہ آسام کے اڈوں سے کنمنگ کےلیے ہوائی رسد بھیجنے کا آغاز کیا اور دنیا کے چند بلند ترین پہاڑوں کے اوپر ایک انتہائی خطرناک راستے سے ہزاروں ٹن گیسولین، سازوسامان، خوراک اور دیگر جنگی سامان پہنچایا ۔ بعد میں ان پہاڑوں کو ’’ہمالین ہمپ‘‘ کے نام سے جانا جانے لگا۔
ان کے بھاری بھرکم ، سامان سے لدے ہوئے ، غیر دباؤ والے ،’ٹو پروپیلر ایئر کرافٹ‘ (جو ہتھیاروں سے لیس نہیں تھے اور جن میں آکسیجن بھی نہیں تھا) کو انتہائی سخت موسمی حالات اور جاپانی زیرو جنگی طیاروں سے بھی خطرہ لاحق تھا جو انہیں مار گرانے کے فراق میں تھے۔
طوفانی ہوائیں ۱۰۰ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے تجاوز کرگئیں، جبکہ مانسون کی بارش، برف اور سمت شناسی کے بنیادی آلات کی وجہ سے ہوابازوں کے لیے اپنے ہوائی جہاز کا کنٹرول برقرار رکھنا، اپنی پوزیشن کا تعین کرنا اور اپنی منزلوں تک جانے کا راستہ تلاش کرنا مشکل ہو گیا۔ ان سب کے باوجوداس فضائی آپریشن کا نام ۲۴ گھنٹے انتہائی سرعت کے ساتھ چلنے والے اور ہر موسم میں عسکری سازوسامان پہنچانے والے آپریشن کے طور پر تاریخ میں درج ہوگیا۔
ایک اندازے کے مطابق ایک ہزار سے زائد مرد اور ۶۰۰ طیارے ۵۳۰میل کےاس ناہموار علاقے میں لاپتہ ہو گئے جنہیں لاپتہ ہوجانے والے اور مار گرائے جانے والے طیاروں کی تعداد کی وجہ سے ’’ الومینم ٹرائل‘‘کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
یو ایس ڈیفنس پی او ڈبلیو/ ایم آئی اے اکاؤنٹنگ ایجنسی (ڈی پی اے اے ) محکمہ دفاع کے عملے کے حساب کتاب رکھنے کی کوششوں کی حمایت کے لیے ماضی کے تنازعات سے لاتعداد امریکیوں کی شناخت کے لیے عالمی تلاش، بازیابی اور لیبارٹری کی کارروائیاں کرتی ہے۔ڈی پی اے اے کے ڈائریکٹر کیلی میک کیگ کا کہنا ہے کہ ڈیفنس پی او ڈبلیو/ ایم آئی اے اکاؤنٹنگ ایجنسی پر الزام ہے کہ اس نے ماضی کی جنگوں سے لاپتہ ہونے والوں کی تلاش اور ان کی بازیابی اور ان کے کنبوں کو دیرینہ جوابات فراہم کرنے کے تئیں امریکہ کی عہدبستگی کی تعمیل نہیں کی ہے۔ وہ بتاتے ہیں’’ ان ۴۶ ملکوں کے مقابلے جہاں ہم کام کرتے ہیں، ہم بھارت میں صرف اس لیے کامیاب ہوئے ہیں کیوں کہ بھارت کے ساتھ ہماری اہم شراکت داری ہے۔ ہم قومی اور ریاستی سطح پر حکومت ہند، نئی دہلی میں واقع امریکی سفارت خانے کی ٹیم اور ابور کنٹری، آر آئی ایم او اور گجرات میں واقع نیشنل فارنسک سائنسز یونیورسیٹی کے ممنون ہیں جنہوں نے ان امریکیوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے اس عظیم مشن کی حمایت کی جنہوں نے آزادی کے دفاع میں عظیم قربانیاں دیں۔‘‘
ہمپ پر پرواز کرنے والے پائلٹ عام امریکی تھے جنہیں ایک غیر معمولی فوجی آپریشن کے درمیان میں دھکیل دیا گیا تھا۔ہمپ پر کھو جانے والے اس طرح کی پرواز کرنے والے دو افراد کی کہانیاں مہم کے انسانی پہلو کو واضح کرتی ہیں۔
دفاعی پی او ڈبلیو/ایم آئی اے اکاؤنٹنگ ایجنسی(ڈی پی اے اے) امریکی فوج کے ایئر کورسے تعلق رکھنے والے آٹھ اراکین کی باقیات کی کھدائی کے دوران اروناچل پردیش میں۔ ان کا طیّارہ ۱۹۴۲ میں حادثے کا شکار ہو گیا تھا۔(محکمہ دفاع کی تصویر از سرجنٹ ایرک کارڈیناس/ امریکی فضائیہ)۔
لاپتہ ہواباز
آرمی ایئر فورس کے پہلے لیفٹیننٹ چارلس ہووارڈ مورٹیمر کی عمر ۳۲سال تھی جب انہوں نے میڈیکل کی ڈگری حاصل کرنے، انٹرن شپ مکمل کرنے اور اپنی اہلیہ میج سے شادی کرنے کے بعد اپنا اندراج کرایا۔ انہوں نے ۳۰۸ ویں بومبر گروپ کے ساتھ فلائٹ سرجن کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور ۲۵جنوری ۱۹۴۴ء کو بی ۲۴- جے لبریٹر ’’ ہیلیز کامٹ‘‘ پر ایک مسافر تھے جب انہوں نے چین کے کنمنگ ایئر فیلڈ سے بھارت میں چابوا ایئر فیلڈ کے لیے اڑان بھری تھی ۔ طیارہ اپنی منزل پر کبھی نہیں پہنچا اور بعد کی سرکاری کاروائی میں تمام مسافروں کو لاپتہ قرار دے دیا گیا۔
مسز مورٹیمر کو ۳۰ جنوری ۱۹۴۴ء کو وزیر جنگ کی طرف سے ایک سرکاری ٹیلی گرام کے ذریعے مطلع کیا گیا جس میں بتایا گیا کہ ان کے شوہر کی پرواز ۲۵جنوری ۱۹۴۴ء کو لاپتہ ہو گئی ۔ مورٹیمر، جنہیں سرکاری طور پر ۲۶ جنوری ۱۹۴۶ء کو مردہ قرار دیا گیا تھا، کو ایئر میڈل اور ’پرپل ہارٹ‘ سے نوازا گیا۔
لاپتہ اڑان بھرنے والوں کے تمام رشتہ داروں کے ساتھ مورٹیمر کے کنبے کو ان کے خسارہ اور ان کی موت کی تفصیلات نہ جاننے کی وجہ سے دونوں طرح کے نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔
ان کی بھتیجی نے ایک خط میں اس صورت حال کو یاد کرتے ہوئے تحریر کیا ’’ان کی گمشدگی پورے مورٹیمر قبیلے کے لیے ایک جھٹکا تھی ۔ ان کے بھائی، یعنی میرے داداواقعی کبھی صحت یاب نہیں ہوسکے۔ میرے عظیم چچا کی گمشدگی کے کچھ ہی عرصہ بعد میرے نانا اور نانی کا طلاق ہو گیا۔ اپنے بڑے بھائی کے کھونے کی وجہ سے ہونے والی تکلیف کے براہ راست نتیجے کے طور پر میری ماں نے اپنے والد کو کھو دیا اور میں اور میری بہن اپنے نانا سے کبھی نہیں ملے۔‘‘
۲۵جنوری ۱۹۴۴ء کو اسی کنمنگ سے چابوا کے راستے پر بی- ۲۴’’ہاٹ ایز ویل‘‘ نے پرواز بھری، جس کے نیویگیٹر آرمی ایئر کور فرسٹ لیفٹیننٹ اِروِن جی زیٹز تھے۔ وہ ۷ دسمبر ۱۹۴۱ء کو پرل ہاربر پر جاپانیوں کے حملے کے فوراً بعد فوج میں بھرتی ہوئے تھے۔ اس کے طیارے کو مورٹیمر کے جیسے ہی شدید موسم کا سامنا کرنا پڑا اور وہ ایلومینیم ٹرائل میں حادثے کا شکار ہو گیا۔ عملے کے تمام آٹھ ارکان کی ابتدائی طور پر ’’کارروائی میں لاپتہ‘‘ کے طور پر درجہ بندی کی گئی ، ایک سال بعد اسے ’’لاپتہ سمجھا گیا مردہ‘‘ زمرے میں بدل دیا گیا۔
ممتاز فلائنگ کراس اور ایئر میڈل سے سرفراز زیٹز اپنے پسماندگان میں ایک بڑا کنبہ یعنی اپنے والدین، تین بھائی، اپنی بہن اور اپنی بیوی کو چھوڑگئے۔ زیٹز کا کنبہ خاص طور پر پریشان تھا کیونکہ ان کی باقیات کبھی ملی ہی نہیں۔
ان کے بھتیجے نے ایک خط میں لکھا ’’ کئی عشروں تک ان کی موت پر میرے اہل خانہ کا غم ایک قسم کی ظالمانہ صورت حال میں باقی رہ گیا، کیونکہ ان کی باقیات کبھی برآمد نہیں ہوئیں۔وہ ان ۷۴۰۰۰ امریکی مرد فوجیوں اور خواتین فوجیوں میں سے ایک تھے جو دوسری عالمی جنگ کے دوران لاپتہ ہو گئے تھے، ان کی باقیات ان کی موت کے کئی عشروں بعد بھی نہیں مل سکی ہیں۔ محکمہ دفاع کے ایک اندازے کے مطابق، وہ ان ۴۰۰ امریکی فوجیوں میں سے ایک تھے جنہیں شمال مشرقی بھارت ، بنیادی طور پر اروناچل پردیش میں حادثے کے مقامات پر ابھی تک بازیاب نہیں کیا جا سکاہے۔
جاپانی بادشاہ ہیروہیٹو کے ذریعہ دوسری عالمی جنگ میں ہتھیار ڈال دیے جانے کے اعلان کے تین ماہ بعد ۱۵ نومبر ۱۹۴۵ء کوہمپ کو باضابطہ طور پر بند کر دیا گیا۔ یہ یاد رکھنا ہو گا کہ مورٹیمر اور زیٹر نے اپنے ملک کے لیے حتمی قربانی دی۔
اسٹیو فاکس کیلیفورنیا کے ونچورا میں مقیم ایک آزاد پیشہ قلمکار، ایک اخبار کے سابق ناشر اور نامہ نگار ہیں۔
تبصرہ