تعلیمی اداروں سے تعلقات کو فروغ دینا

بھارتی خارجہ پالیسی کی ماہر ہ اور ایک ماہر تعلیم امریکی محکمہ خارجہ کے کفالت یافتہ تبادلہ پروگرام کی جھلکیاں مشترک کر رہی ہیں۔

اسٹیو فاکس

November 2023

تعلیمی اداروں سے تعلقات کو فروغ دینا

بھارتی چھبر(دائیں)امریکہ میں اپنے تبادلہ پروگرام کے دوران سنیٹر کرس کونس سے ملاقات کرتے ہوئے۔ ان کا یہ دورہ ’اسٹڈی آف دی یوایس انسٹی ٹیوٹس فار اسکالرس‘ پروگرام کے تحت ہوا تھا۔

دہلی یونیورسٹی کی اسسٹنٹ پروفیسر اور امریکی خارجہ پالیسی اور تعلقات کی ماہر ہ بھارتی چھبر  ۲۰۲۳ءکے موسم گرما میں یو ایس انسٹی ٹیوٹ فار اسکالرس(ایس یو ایس آئی)کے مطالعے کے پروگرام میں بہت سے تجربے مشترک کیے ۔ وہ کئی کتابوں کی مصنفہ ہیں اور مرکزی دھارے کے جرائد میں ان کے ۱۵۰ سے زیادہ تحقیقی مقالے اور مضامین شائع ہوئے ہیں۔

اسکالرس کی خاطر تیار ایس یو ایس آئیز پوسٹ گریجویٹ سطح کے تعلیمی پروگرام ہیں جن کو ایسے غیر ملکی اسکالرس، اساتذہ ، پریکٹیشنرز اور ثانوی جماعت کے ایسے اساتذہ کے لیے تیار کیا گیا ہے جو اپنی عملی زندگی کا نصف حصہ گزار چکے ہیں۔ ان کا مقصد نصاب کو  بہتر کرنا اور بیرون ملک تعلیمی اداروں میں امریکہ کے بارے میں معلومات کو بہتر بنانا ہے۔ پروگرام کے دوران اسکالرس سخت تعلیمی کورس ورک اور پینل مباحثوں میں شامل ہوتے ہیں، امریکی اسکالرس کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں، متعلقہ شعبوں کے ماہرین سے ملتے ہیں، شہری اداروں کا دورہ کرتے ہیں اور بعض اوقات تحقیقی سمپوزیم اور کانفرنسوں میں شرکت کرتے ہیں۔ ۲۰۲۳ء کے پروگرام نے چھبر کو ایک عالمی گروپ کے ساتھ نیٹ ورک قائم کرنے اور قابل قدر پیشہ ورانہ تعلقات کو فروغ دینے کا موقع فراہم کیا۔

یونیورسٹی آف ڈیلاویئر نے چار ہفتوں کے لیے چھبر اور دیگر شرکا ءکی میزبانی کی۔ اس کے بعد ان لوگوں نے کیمپس کے دوروں کے لیے پورے امریکہ کا ایک ہفتے کا سفر کیا۔ اس گروپ نے امریکی خارجہ پالیسی پر اہم اثرات کے کردار کا جائزہ لیا جن میں حکومت کی شاخیں، میڈیا، امریکی عوام،  اہلیانِ دانش اور غیر سرکاری تنظیمیں اور کثیر الجہتی ادارے شامل تھے۔

چھبر کا ملک   کے نمائندے کے طور پر پرتپاک استقبال کیا گیا۔ وہ کہتی ہیں’’ میں نے بھارت  اور زیادہ پرامن اور خوشحال دنیا کے لیے کام کرنے والی ہند ۔ امریکہ شراکت داری کے لیے بہت احترام دیکھا۔‘‘وہ مزید بتاتی ہیں کہ مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے مقررین نے اعتراف کیا ’’ کس طرح بھارت امریکی خارجہ پالیسی اور سفارت کاری اور دونوں کے درمیان بڑھتے ہوئے قریبی تعلقات میں اہم کردارادا کرتا ہے۔‘‘

پروگرام

چھبر کے گروپ میں ہانگ کانگ، متحدہ عرب امارات، ہنگری اور جارجیا سمیت مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے ۱۶ شرکا ء شامل تھے۔ وہ کہتی ہیں ’’ہم میں سے کچھ مستقبل میں مل کر کام کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔‘‘

گروپ نے امریکی داخلی سیاست اور بین الاقوامی پالیسی سازی پر مرکوز ایک ورکشاپ میں حصہ لیا جس میں نقلی مشقیں بھی شامل تھیں۔ ان مشقوں نے اسکالرس کو ایک متعامل تجربہ فراہم کیا جو  فرضی کیس اسٹڈیز پر مبنی تھے۔ تفویض کردہ سیاست دانوں کا کردار نبھاتے ہوئے گروپ کے ارکان نے پالیسی کے ساتھ ساتھ   فرضی اقدام کے تنظیمی اور سیاسی نتائج کا جائزہ لیا اور حکمت عملی تیار کی اور انہیں گروپ کے سامنے پیش کیا۔

چھبر کہتی ہیں ’’بناوٹی  مشقوں کے دوران میں نے سینیٹر رچرڈ ڈربن (ڈی الینوائے) کا کردار ادا کیا اور حیاتیاتی خطرہ کے  موضوع پر بات کی اور اسے ‘حیاتیاتی جنگ’  کے خطرے سے منسلک کیا۔‘‘

۲۰۲۳ءکے ایس یو ایس آئی میں نیویارک میں اقوام متحدہ،  واشنگٹن، ڈی سی میں یو ایس کیپیٹل، میری لینڈ میں یو ایس نیول اکیڈمی، اورپین سلوانیا میں بیٹل آف گیٹیز برگ کے دورے شامل تھے۔ اسکالرس نے ڈیلاویئر سے تعلق رکھنے والے سنیٹر کرس کونز سے بھی ملاقات کی جو امریکی  سنیٹ کی سلیکٹ کمیٹی برائے اخلاقیات کے سربراہ ہیں اور امریکی سنیٹ کی کمیٹی برائے خارجہ تعلقات کے رکن کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔

پیش قدمی 

تقریبا ۲۰سال تک دہلی یونیورسٹی میں تدریسی خدمات انجام دینے والی چھبر نے ماحولیاتی، تعلیمی اور صنفی مسائل پر بیداری پیدا کرنے اور لوگوں کو بااختیار بنانے کے لیے دیگر تنظیموں کے ساتھ بھی بڑے پیمانے پر کام کیا ہے، جس میں ماحولیاتی تحفظ اور صنفی مسائل پر نُکڑ ناٹک  لکھنا اور ان کی ہدایت کاری  شامل ہے۔ انہوں نے ایس یو ایس آئی پروگرام میں متعامل اجلاس اور تعلیمی مطالعات کا بہت توازن پایا۔ وہ مزید کہتی ہیں ’’ماہرین، پالیسی سازوں اور وسیع امریکی برادریوں کے ساتھ بات چیت بہت اچھی رہی۔ تعلیمی پروگرام نے روایات اور نئے نقطہ نظر کی بنیاد پر امریکی خارجہ پالیسی اور خارجہ پالیسی سازی کے عمل کے چیلنجوں، مواقع اور بنیادوں کا جائزہ لیا۔‘‘

ایس یو ایس آئی پروگرام سے امریکہ اور اپنے آبائی ملک دونوں کے لیے دل میں زیادہ  احترام اور اس پختہ عزم کے ساتھ چھبر واپس لوٹیں کہ جو کچھ انہوں نے سیکھا اسے اپنے عالمی مقاصد میں استعمال کریں گی ۔

وہ کہتی ہیں ’’امریکہ اور بھارت دنیا کی دو سب سے بڑی جمہوریتیں ہیں۔‘‘وہ مزید کہتی ہیں ’’میں اس تجربے کو مزید آگے لے جاؤں گی اور بھارت  اور امریکہ کے رشتے کو مزید مستحکم کرنے میں اپنا کردار ادا کروں گی۔‘‘ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے وہ کہتی ہیں  ’’جمہوری، پرامن، ترقی پسند اور پائیدار عالمی نظام کے مقاصد کے مطابق امریکی خارجہ پالیسی کے ماہر کے طور پر بھی میں کام کروں گی۔‘‘

اسٹیو فاکس کیلیفورنیا کے ونچورا میں مقیم ایک آزاد پیشہ قلمکار، ایک اخبار کے سابق ناشر اور نامہ نگار ہیں۔

——————————————————————————————————————————————————————————————————-

اسپَین نیوزلیٹر مفت میں میل پر منگوانے کے لیے لنک میں دیے گئے فارم کو بھریں: https://bit.ly/SubscribeSPAN



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے