گرمی کی شدت اور اس سے حفاظت

اس مضمون میں جے پور ادبی میلہ کی ایک نشست کے پینلسٹ مصنف جیف گوڈیل نے کرہ ارض کی روز افزوں ہدت ، موسمیاتی تبدیلی اور گرمی کی شدت کے خطرات کے بارے میں اظہار خیال کیا ہے۔

کریتیکا شرما

April 2024

گرمی کی شدت اور اس سے حفاظت

جے ایل ایف میں شرکت کے موقع پر جے پور کی سیر کرتے ہوئے جیف گوڈیل نے درجہ حرارت کو معتدل رکھنے کی غرض سے ہندوستانی فن تعمیر میں صحن، کھدی ہوئی جالیوں اور پانی کے فوّاروں کے استعمال کا مشاہدہ کیا۔ (تصویر بشکریہ جیف گوڈیل)

جیف گوڈیل آپ کو ڈرانا نہیں چاہتے لیکن وہ چاہتے ہیں کہ آپ جان جائیں کہ اب موسمیاتی تبدیلی اور عالمی طور پر محسوس کی جارہی روز افزوں گرمی کے خلاف کاروائی کا وقت آچکا ہے۔ انہوں نے حال ہی میں ’’جھلسی ہوئی زمین: قدرت سے ملنے والا سبق‘‘ کے موضوع پر مبنی ایک نشست میں ایک پینلسٹ کی حیثیت سے اپنانقطہ نظر پیش کیا۔ ہندوستان کے امریکی سفارت خانہ کی کفالت سے یہ نشست جے پور ادبی میلہ ۲۰۲۴ میں منعقد ہوئی جس میں موسمیاتی تبدیلی پر توجہ مرکوز تھی۔

گوڈیل جن کی تازہ ترین کتاب ’’دی ہیٹ وِل کِل یو‘‘ ہے۔ وہ کم و بیش ۲۵ برسوں سے ماحولیاتی صحافت کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’کچھ عرصہ پہلے تک میں نے گرمی کے بارے میں زیادہ غور و فکر نہیں کیا تھا جو کہنے میں بہت عجیب بات لگتی ہے کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ گرمی کوئی پوشیدہ چیز نہیں ہے۔‘‘

جے ایل ایف کی اس نشست کے دوران گوڈیل نے اپنی زندگی کے ایک اہم لمحے کا اشتراک کیا۔ ہوا ایسا تھا کہ ایریزونا کے فینکس میں ایک گرمی کی شدت سے بھرے دن ان سے ٹیکسی چھوٹ گئی اور انہیں میٹنگ کے لیے تقریباً ۲۰ بلاکس تک دوڑ کر جانا پڑا۔ گوڈیل یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’۲۰ بلاکس تک دوڑنے کے بعد میرا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ مجھے چکر آ رہا تھا اور مجھے احساس ہوا کہ اگر مجھے مزید ۲۰ بلاک تک دوڑ کے جانا ہوتا تو میں بڑی پریشانی میں پڑ جاتا۔ یہ پہلی بار تھا کہ مجھے واقعی یہ محسوس ہوا کہ گرمی ہمارے ماحول میں صرف ایک تجریدی تصور نہیں ہے بلکہ یہ حقیقت میں آپ کو بہت جلد مارنے کا سبب بن سکتی ہے اور یہی میرے لیے اس کتاب کا آغاز تھا۔‘‘

نشست کے دوران گوڈیل نے کہا کہ وہ اپنی کتاب میں ’’اس بارے میں بات کرنا چاہتے تھے کہ موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں اس طرح اکثر بات کی جاتی ہے گویا یہ ایک غیر اہم موضوع ہے اور جو (ابھی کی نہیں بلکہ) آنے والی نسلوں کو متاثر کرنے والی ہے۔ جن کو متاثر کرے گی وہ شاید ہم سے مختلف لوگ ہوں گے۔ شاید مختلف جلد کی رنگت والے ہوں گے اور دور دراز مقامات پر ہوں گے۔ میں درحقیقت اس کے بارے میں سنجیدگی سے بات کرنا چاہتا تھا اور اس بات پر روشنی ڈالنا چاہتا تھا کہ اس کے فوری نتائج کیا ہو سکتے ہیں۔ جیسے آپ کسی خراب دن چہل قدمی کے لیے باہر نکلیں اور آپ نہیں جانتے کہ اس صورتحال میں کیا کرنا ہے۔‘‘

گوڈیل کہتے ہیں کہ جے ایل ایف میں ہونے والی بات چیت ’’فرحت بخش‘‘ اور چیزوں کو رفتار دینے والی تھی۔ ان کا کہنا ہے ’’لوگ قابل عمل حل پر تبادلہ خیال کرنے میں گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ کاربن کے اخراج کو کم کرنے، صاف توانائی کی طرف منتقلی اور ۲۰۳۰ء تک قابل تجدید ذرائع سے اپنی آدھی بجلی حاصل کرنے اور ۲۰۷۰ تک صفر کاربن اخراج کے ہندوستان کے عہد کے بارے میں بہت زیادہ بات چیت ہوئی، خواہ وہ حقیقی اہداف ہوں یا نہ ہوں، وغیرہ۔‘‘

گرمی سے نمٹنے کی ضرورت

گوڈیل کہتے ہیں ’’ہندوستان ان جگہوں میں سے ایک ہے جہاں شدید گرمی کا خطرہ سب سے زیادہ ہے۔ جب آپ مستقبل کے درجہ حرارت کے اندازوں کے بارے میں غور کریں جو لو کا باعث بن سکتے ہیں تو یہ بہت مہلک ہوگا۔ لہٰذا جب آپ شدید گرمی اور تیز رفتار سے بڑھتی ہوئی آبادی کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہندوستان اس کا مرکز ہے۔‘‘

گوڈیل کہتے ہیں کہ دوسری جانب ایئر کنڈیشننگ کے اپنے منفی پہلو ہیں۔ ان کے بقول ’’اگرچہ یہ زندگیاں بچا سکتا ہے اور یہ ایک اہم ٹیکنالوجی ہے لیکن اس کے لیے زیادہ توانائی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر یہ توانائی کوئلے جیسے روایتی ایندھن سے ملتی ہے تو یہ صرف انہیں جلانے کا سلسلہ برقرار رکھتی ہے۔‘‘

ایئر کنڈیشنرس میں توانائی کی کھپت بہت زیادہ ہوتی ہے اور ان میں ہائیڈرو فلورو کاربن (ایچ ایف سی) کا استعمال ہوتا ہے جو گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں مدد کرتی ہے جو موسمیاتی تبدیلی کی بنیادی وجوہات میں سے ایک ہے۔ تاہم گرمی کی شدت سے نمٹنے کے لیے ایئر کنڈیشنرس بھی ضروری ہیں، خاص طور پر جب لو زیادہ شدت اختیار کر جاتی ہے، جس کی وجہ سے ہر آنے والی دہائی میں گرمی سے متعلق اموات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

گوڈیل کہتے ہیں ’’جیسے جیسے گرمی کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، ہندوستان کو صاف و شفاف توانائی کی طرف منتقلی کو تیز کرنے میں مدد دینے کے لیے مغرب کو ہر ممکن کوشش کرنے کی ضرورت ہو گی خاص طور پر گھروں کو محجوز (انسولیٹ) کرنے کا ضروری کام کرنے اور بڑھتے ہوئے شہروں میں سبز جگہوں کو شامل کرنے کے بارے میں مختلف طریقے سے غور وفکر کرنے کی ضرورت ہو گی۔‘‘

موسمیاتی تبدیلی کے مطابق خود کو ڈھالنا

گوڈیل کا ماننا ہے کہ قدیم ہندوستانی فن تعمیر، خاص طور پر عمارتوں کو ٹھنڈا رکھنے والے نظام سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔ جے ایل ایف میں شرکت کے بہانے جے پور کی سیر کے دوران گوڈیل کو قدیم ڈھانچے ملے جن کا کم درجہ حرارت برقرار رکھنے کے لیے صحن اور پانی کے چشموں کا استعمال ہوتا تھا۔ وہ کہتے ہیں ’’۵۰۰ برس پہلے ہندوستان میں لوگ اچھی طرح جانتے تھے کہ گرمی سے کیسے نمٹنا ہے۔ اور میرے خیال میں اس علم میں سے بعض طریقوں پر عمل کرنا اور ان خیالات کو دوبارہ دریافت کرنا جو قدرتی ٹھنڈک کے حل پیش کرتے ہیں، واقعی اہم ہیں۔‘‘

آگرہ میں تاج محل اور جے پور میں ہوا محل جیسے قدیم تعمیراتی عجائبات ان پتھر کی عمارتوں کے اندرونی حصوں کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے روشنی اور ہلکی ہوا کی اجازت دینے کے لیے نقش شدہ جالیوں کا استعمال کرتے ہیں۔

گوڈیل کے مطابق جیسے جیسے عالمی درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے، آرکٹک میں برف پگھلتی جاتی ہے اور اس سے ملنے والا گرم پانی نئی قسم کے بیکٹیریا کی افزائش گاہ بن جاتا ہے لہٰذا ہمیں تبدیل ہوتی آب و ہوا کے مطابق ڈھالنے کے طریقوں پر غور کرنا چاہیے۔ وہ محنت کش جو دھوپ میں زیادہ وقت گزارتے ہیں یا کولنگ یونٹس کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے وہ سفید چھتوں جیسے سستے حل استعمال کر سکتے ہیں جو سورج اور گرمی کے رخ کو موڑ دیتے ہیں۔

انتہائی گرمی کے دنوں میں محنت کشوں کو دھوپ میں زیادہ وقت گزارنے سے روکنے کے ساتھ ہی ان کی اجرت کی ادائیگی جیسے انسانی اقدامات بھی زندگیوں اور خاندانوں کو بچانے میں مدد کر سکتے ہیں. گوڈیل کہتے ہیں ’’گرمی سے موت کے خطرے کو کم کرنے کے لیے بہت کچھ کیا جا سکتا ہے جو بہت مہنگا بھی نہیں ہے۔‘‘

بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے شدید بارش کے ساتھ طوفان بھی آ سکتے ہیں۔ گوڈیل بتاتے ہیں ’’اب وقت آگیا ہے کہ اس بارے میں سوچنا شروع کر دیا جائے کہ شدید بارش سے نمٹنے کی تیاری کیسے کرنی ہے اور اس کے مطابق خود کو کیسے ڈھالنا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ بارش کے پانی کے اضافی حجم کی نکاسی کا نظم ۔ ایک پریشانی یہ ہے کہ زمین کے بہت سارے حصے کنکریٹ میں تبدیل کردیے گئے ہیں جس کی وجہ سے مٹی میں قدرتی طور پر پانی جذب کرنے کے لیے زیادہ جگہیں دستیاب نہیں ہیں ۔ بہت سارے ممالک اب ’اسپنج پارکس‘ جیسی چیزیں بنا رہے ہیں جو بڑی مقدار میں پانی جذب کرنے کے لیے بنا ئے گئے سبز خطے ہیں۔ ‘‘


اسپَین نیوزلیٹر کو اپنے میل پر مفت منگوانے کے لیے لنک میں دیے گئے فارم کو بھریں: https://bit.ly/SubscribeSPAN



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے