غیر قانونی شکاریوں کو بے نقاب کرنا

ہندوستان میں ہاتھی دانت کی غیر قانونی تجارت پر بنائی گئی دستاویزی فلم ’’پوچر‘‘ کی نمائش نئی دہلی میں واقع امیریکن سینٹر میں فروری میں ہوئی۔ اس موقع پر فلم کے ہدایت کار ریچی مہتا بھی موجود تھے۔

چاروی اروڑا

April 2024

غیر قانونی شکاریوں کو بے نقاب کرنا

رِچی مہتا(مرکز میں) نئی دہلی میں واقع امیریکن سینٹر میں ’پوچر‘ کی پہلی قسط کی نمائش کے موقع پر حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے۔(تصویر بشکریہ یوگیش کمار)

امیزون اورِجنل سیریز کی فلم ’پوچر‘ ایمی انعام یافتہ ہدایت کار رِچی مہتا کی ہدایت کاری میں بنی ہے۔یہ ان کی دو سالہ تحقیق کا نتیجہ ہے جس میں ہندوستان میں ہورہی ہاتھی دانت کی غیر قانونی تجارت کا پردہ فاش کیا گیا ہے۔ ’ پوچر‘ فلم سیریز کی پہلی قسط کی نمائش فروری ۲۰۲۴ ء میں نئی دہلی میں واقع امیریکن سینٹر میں عمل میں آئی۔ آٹھ قسطوں پر مشتمل ’پوچر‘ کی تخلیق میں ہندوستان میں جنگلات افسران، ہندوستانی بیورو برائے جنگلی حیات جرائم کنٹرول اور دہلی میں واقع غیر سرکاری تنظیم وائلڈ لائف ٹرسٹ آف انڈیا (ڈبلیو ٹی آئی) کی محنت شاقہ شامل حال ہے۔

ڈبلیو ٹی آئی کو امریکی محکہ خارجہ کے اسٹیٹ بیورو برائے عالمی منشیات اور قانون کے نفاذ سے متعلق ادارے (آئی این ایل) اور امریکی خدمات برائے ماہی اور جنگلات سے گرانٹ بھی مل چکی ہے۔ دستاویزی فلم کی نمائش کے موقع پر اسپَین نے ہدایت کار رِچی مہتا سے گفتگو کی۔ پیش خدمت ہیں اس گفتگو سے چند اہم اقتباسات

آپ کو’پوچر‘فلم بنانے کی ترغیب کہاں سے ملی؟

بات ۲۰۱۵ءکی ہے جب میں ’انڈیا اِن اے ڈے‘ نامی دستاویزی فلم کی ہدایت کر رہا تھا۔اس دوران ملک کے ہر گوشے سے لوگوں نے اپنے روز مرہ کے معمولات سے متعلق ویڈیو مجھے بھیجے۔ ان میں سے ایک ویڈیو مجھے ڈبلیو ٹی آئی نے بھی بھیجا جو دہلی میں ہاتھی دانت کی تلاش میں چھاپے سے متعلق تھی۔ جب میں نے تنظیم سے رابطہ کیا تو مجھے بتایا گیا کہ ریاست کیرل کے محکمہ جنگلات نے دہلی میں ہاتھی دانت کی ملک کی سب بڑی غیر قانونی تجارت کا پردہ فاش کیا ہے ۔ اس سے پہلے یہ لوگ جنگلاتی حیات کی بڑے پیما نہ پر ہونے والی غیر قانونی تجارت کا بھی پردہ فاش کرچکے تھے۔یہ جان کر میرے تو اوسان خطا ہوگئے۔ مجھے احساس ہو گیا کہ اتنی قلیل مدت کی ویڈیو کے ساتھ میں اس حسّاس موضوع کے ساتھ انصاف نہیں کر سکوں گا۔ لہٰذا میں نے ڈبلیو ٹی آئی کی دِوّیا بھاردواج کو بتایا کہ میں اس موضوع کا بغور جائزہ لوں گا اور اس پر ایک مکمل تفصیلی دستاویزی فلم بناؤں گا۔ ’پوچر‘ اسی کا نتیجہ ہے۔

از راہ کرم یہ بتائیں کہ حقیقی زندگی کے محافظوں اور ڈبلیو ٹی آئی کے ساتھ اشتراک سے آپ کا بیانیہ کس طور پر متاثر ہوا۔

میری دستاویزی فلم ’دہلی کرائم‘۲۰۱۹ء میں منظر عام پر آئی۔ اس کے فوراً بعد میںنے ڈبلیو ٹی آئی کی ڈائریکٹر روپا گاندھی سے رابطہ کیا اور مقامی ’ فاریسٹ واچرس‘ کو جنگلات میں ہاتھیوں کے ویڈیو بنانے کے لیے رضاکارانہ طور پر ایک ورکشاپ منعقد کرنے کی پیشکش کی۔ ورکشاپ کے خاتمے پر روپا نے میرا تعارف ’’ جنگلات جرائم کے خلاف کام کرنے والوں ‘‘ ہوزے لوئی اور وویک مینن سے کرایا۔ہوزے نے میری ملاقات کیرل کے محکمہ جنگلات کے ان افسران کے ساتھ کروائی جو ہاتھی دانت کی غیر قانونی تجارت کے خلاف مہم کی سربراہی کررہے تھے۔ میری ملاقات ہندوستانی جنگلات خدمات کے رکن سریندر کمار ، نیز کیرل کے سابق اعلیٰ جنگلات وارڈن، سابق پرنسپل چیف کنزرویٹر آف فاریسٹس اور اس وقت کے تحقیقاتی افسر سے بھی ہوئی۔ ان کے علاوہ میں انڈین فاریسٹ سروس کے دیگر افسران سے بھی ملا۔ میری ملاقات ہاتھی دانت کی غیر قانونی تجارت میں ملوث ایک ملزم سے بھی ہوئی۔ یہ سب میرےلیے واقعی چشم کشا تھا۔

مجھے احساس ہوا کہ یہ کاوش محض ہاتھیوں کو ختم ہونے سے بچانے تک ہی محدود نہیں ہے ، اس سے وابستہ درجنوں دیگر مسائل بھی ہیں۔ یہ معاملہ کرہ ارض پر موجود ہر ذی روح، دیسی باشندوں ، معاشرے سے وابستہ یا ناوابستہ مذکورہ افراد، جنگل کے قانون (قدرتی اور مصنوعی دونوں) اور ہم سے کتنی گہرائی سے جڑا ہوا ہے۔ یہ کہانی ہر اس شئے سے وابستہ تھی جو کہ مجھے بہت محبوب تھی اور یہ میرے سامنے ایک حقیقی جرائم بیانیہ کی طرح نہایت سنسنی خیز انداز میں آشکارہوئی۔

(تصویر بشکریہ امیزون پرائم ویڈیو)

ایک حقیقی تفتیش پر مبنی آٹھ قسطوں والی اتنی دلکش دستاویزی فلم سیریز بنانے میں کیا کیا دشواریاں پیش آئیں۔

آسان لفظوں میں اس کا جواب ہے محنت۔ میں لوگوں سے ملاقات کرتا، طویل گفتگو یا انٹرویو کے ذریعہ ان کا اپنی فلم میں شامل ہونا یقینی بناتا، عدالتی کاغذات اور ٹرانسکرپٹس کا تجزیہ کرتا۔ یہ عمل ہفتوں جاری رہتا۔ پھر میں گھر واپس آکر تمام ڈیٹا کا اچھی طرح تجزیہ کرتا اور اس کو تاریخ وار ترتیب دیتا۔

اس کے بعد میں دوبارہ میدان میں جاتا اور اس پورے عمل کو پھر سے دوہراتا۔ اس دوران مجھے حقیقی زندگی میں بعض اوقات اہم معلومات حاصل ہوتیں، حیران کن انکشافات ہوتے اور دباؤ میں کام بھی کرنا پڑتا۔ ان سب تجربات کو زبانی بیان کرنے میں بھی مجھے بہت لذت محسوس ہو رہی ہے۔ لیکن دستاویزی فلم اور سلسلہ وار فارمیٹ میں مجھے اپنا پیغام پہنچانے میں کافی آسانی ہوئی۔ تمام معلومات کا گھر پر تجزیہ اورپھر دوبارہ میدان میں جاکر کام کرنے کا عمل مسلسل دو برس تک جاری رہا۔

آپ کے حساب سے دستاویزی فلم کے اس سلسلہ کو دیکھ کر ناظرین خطرہ سے دوچار جنگلی ہاتھی کے بارے میں کیا سبق حاصل کریں گے۔

اس دستاویزی فلم سیریز کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ کس طرح لوگ اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کرمعدوم ہوتے جنگلی ہاتھی کو بچا رہے ہیں۔مجھے امید ہے کہ ناظرین اس سے ضرور ترغیب پاکر جرائم کے خلاف نبردآزما افراد کی مدد کو آگے آئیں گے جس کا بہت گہرا تعلق ہماری روزمرہ کی زندگی سے ہے۔مجھے توقع ہے کہ لوگ جنگلاتی جرائم کے خلاف مہم میں ضرور شامل ہوں گے کیوں کہ یہ بھی ایک بہت اچھا پیشہ ہے۔ اور مجھے پوری امید ہے کہ ناظرین اس کرہ ارض پر بس رہے ہر ذی روح سے اپنے تعلق پر نظر ثانی کریں گے جیسا کہ خود میں نے اس دستاویزی فلم پر کام کرنے کے دوران کیا۔


اسپَین نیوز لیٹر کو میل پر مفت منگوانے کے لیے لنک میں دیے گئے فارم کو بھریں: https://bit.ly/SubscribeSPAN


ٹَیگس

تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے