راہِ امن کا انتخاب

امریکی وزارتِ خارجہ سے مالی امداد یافتہ’ گاندھی۔کنگ اسکالرلی ایکسچینج انی شی ایٹو ‘سے فیض یافتہ ہندوستانی اور امریکی نوجوان اسکالر شہری حقوق، سماجی انصاف اور شمولیت کی وکالت کرتے ہیں۔

کریتکا شرما

February 2024

راہِ امن کا انتخاب

’گاندھی۔کِنگ اسکالرلی انی شی ایٹو‘ کے شرکا نئی دہلی کے امیریکن سینٹر میں۔(تصویر بشکریہ راکیش ملہوترا)

امریکی شہری حقوق تحریک کے علم بردار ریورنڈ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کی مہاتما گاندھی سےملاقات  کبھی نہیں ہوئی ۔ کنگ کو گاندھی جی کے  بارے میں علم ان کے قتل کے ایک سال بعد یعنی  ۱۹۴۹ء میں ہوا۔ بہر کیف، کنگ کو گاندھی جی کے عدم تشدد کے فلسفہ نے بے حد متاثر کیا۔  امریکی وزارت خارجہ سے مالی امداد یافتہ پروگرام ’گاندھی۔کنگ اسکالرلی ایکسچینج انی  شی ایٹو‘کے تحت نوجوان ہندوستانی اور  امریکی اسکالرس اسی عدم تشدد کے فلسفہ کا مطالعہ کررہے ہیں۔

اس پروگرام کا آغاز۲۰۲۲ء میں ہوا جس کے تحت ہندوستان اور امریکہ کے نوجوان شہری قائدین گاندھی جی اور کنگ کی وراثت کا مطالعہ کررہے ہیں تاکہ شہری حقوق، معاشرتی انصاف اور شمولیت کو مقامی، قومی اور بین الاقوامی سطحوں پر فروغ دیا جا سکے۔

اس پروگرام کے تحت امریکہ اور  ہندوستان کے ۲۰ طلبہ الاباما اے اینڈ ایم یونیورسٹی  میں قیام کریں گے اور یکجا ہو کر علمی مقاصد کے حصول کے لیے کام کریں گے۔ بعد ازاں یہ لوگ قلیل مدت کے لیے ہندوستان کے دورے پر  آئیں گے اور اپنے اندر قائدانہ صلاحیت پیدا کریں گے، نیز عدم تشدد تحریک کے آغاز اور ارتقاء کا مطالعہ بھی  کریں گے۔ واضح رہے کہ الاباما اے اینڈ ایم ایک تاریخی طور پر سیاہ فام تعلیمی ادارہ ہے۔

لازوال فلسفہ

اس سال  کے لیے منتخب شدہ گروپ کے اکثر اراکین متفق ہیں کہ گاندھی جی اور کنگ کا عدم تشدد کا فلسفہ عصر حاضر میں خاص اہمیت کا حامل ہے۔ کولکاتہ سے معاشیات میں بی ۔اے کرنے والے گاندھی ۔کنگ اسکالر شورجیا سامنت وضاحت کرتے ہیں ’’یہ ایک صریح غلطی ہوگی اگر کوئی یہ سمجھے کہ گاندھی جی اور کنگ کی کاوشیں اور تعلیمات صرف ان ہی کے ملکوں تک محدودہیں۔ موجودہ جغرافیائی سیاست اور نظریہ امن گاندھی جی کے اصولوں پر قائم ہے۔ آج کل نئی نئی سیاسی تحریکات جنم لے رہی ہیں اورشہریوں اور حکومتوں کے درمیان نئے قسم کے سیاسی تعلقات قائم ہو رہے ہیں۔ ان حالات میں گاندھی جی کا فلسفہ امن اور بھی زیادہ موزوں ہو جاتا ہے۔‘‘

گاندھی جی اور کنگ دونوں ہی محبت اور عدم تشدد کے پرستار تھے۔ ان کے نزدیک عدم تشدد نہ صرف سیاسی مقاصد حاصل کرنا ایک اہم ذریعہ تھا بلکہ وہ مانتے تھے کہ اس سے برادریوں کی ترقی ممکن ہے۔ نیز، یہ اخوت و بھائی چارہ قائم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔کامرس کی طالبہ اور گاندھی۔کنگ فیض یافتہ موکشا مہیشوری کہتی ہیں کہ گاندھی جی اور کنگ کے ہمدردی اور برادری  کی بہبود کے فلسفے آج انتہائی اہمیت کے حامل ہیں کیوں کہ یہ ’’ ایک بکھرتے ہوئے سماج کو سنبھالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘‘

جنوری ۲۰۲۴ء میں اس گروپ نے ہندوستان کا سفر کیا اور امن، تنازعات کا حل، قیادت اور برادریوں کو تیار کرنے جیسے متنوع تصورات کا مطالعہ کیا ۔یہ بھی سیکھا کہ ان کو حقیقی زندگی میں عمل میں کیسے لایا جاتا ہے۔ الاباما یونیورسٹی میں انڈر گریجویٹ طالب علم جارج کوئچی اکیدا۔سانچیز کہتے ہیں ’’ عین ممکن ہے کہ گاندھی جی کے فلسفہ کی مخصوص چیزیں آج کے اعتبار سے لایعنی ہوگئی ہوں، اسی طرح شہری حقوق کی تحریکوں نے کنگ کے اکثر مقاصد  حاصل کر لیے ہوں مگر وسیع طور پر گاندھی جی اور مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کے فلسفے معاشرے کی شیرازہ بندی کے لیے آج بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ محبت اورعدم تشدد کا پیغام نہایت ہی طاقت ور ہے۔ بڑھتے ہوئے سیاسی تشدد کے پس منظر میں ہمیں اسے قطعی پھیکا پڑنے نہیں دینا ہے۔‘‘

سفر ہند

ہندوستان  میں دو ہفتوں کے قیام کے دوران فیض یافتگان نے گاندھی جی کے اصولوں کا مطالعہ کیا اور یہ بھی سیکھا کہ حقیقی زندگی میں ان کا اطلاق کیسے کیا جائے۔اکیدا۔ سانچیز کہتے ہیں ’’ ہاں ہندوستان میں ہم نے محبت اور عدم تشدد کے فلسفوں کا بخوبی ادراک کیا ۔نیز، ان کی تاریخ کے مطالعہ سے یہ بھی سمجھا کہ کس طرح برصغیر کے لوگ ان کا استعمال کر کے  خود مختاربنے۔‘‘

کنگ کے شمولیت اور اخوت کے فلسفوں نے سامنت کےعالمی نقطہ نظر کو ہی تبدیل کردیا۔  وہ کہتے ہیں ’’ کولکاتہ میں واقع ا میریکن سینٹر کے تجربے نے مجھے یقین دلایا کہ دفاتر کو مشمولی اقدار کے اعتبار سے تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ اور اگر ہم ایسا نہیں کر رہے ہیں تو ہم بہت بڑے خسارے میں ہیں۔ چھوٹی چھوٹی سطح پر تنوع اور شمولیت کو اختیار کرکے یقینی طور پر عالمی سطح پر تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ ‘‘

الاباما کے ٹسکالوسا میں واقع شلٹن اسٹیٹ میں سال دوم کی طالبہ اکیلہ ٹیلر کے لیے سفر ہند کے دوران احمد آباد میں واقع گجرات ودیا پیٹھ کا دورہ سب سے زیادہ دلچسپ رہا۔ اس دورے نے مرکزی پالیسیوں اور ان کے اثر کی تفہیم میں خاصہ اضافہ کیا۔ ٹیلر بتاتی ہیں ’’ ہم نے دنیا کے مختلف خطوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ قائدین سے گفت و شنید کی اور ہر کس و ناکس کے ذاتی اہداف کے بارے میں جانا۔اس پروگرام کی بدولت قائدین نے ایک دوسرے سے بالمشافہ ملاقاتیں کیں اور ایسے ایکشن پلان تیار کیے  جن سے دنیا قریب آئے اور بنی نوع انسانی کا معیار زندگی بلند ہو۔‘‘

عوامی پالیسی میں تعلیم یافتہ اور ہندوستان سے تعلق رکھنے والے گاندھی۔کنگ اسکالر اجے پَلّے کہتے ہیں ’’الاباما کے مانٹگمری میں واقع ’ لگیسی میوزیم‘کا دورہ ان کا سب یادگار لمحہ تھا۔ یہ  میو زیم دراصل امریکہ کے پیچیدہ ماضی کی زبردست مثال ہے جو  امریکہ کی فتوحات اور مسائل کا اظہار ہے۔ اس میوزیم میں جس خوبصورت انداز میں شہری حقوق کی نمائش کی گئی ہے اس سے متنوع نظریات میں ہمدردی اور افہام و تفہیم میں داستان گوئی کی طاقت کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ میں کہوں گا کہ لیگیسی میوزیم کے میرے تجربہ نے ایک طرح سےمجھے باور کرایا ہے کہ ثقافتی ادارے اجتماعی شعور اورمشترکہ تاریخ کے متعلق بیداری پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔‘‘


اسپَین نیوزلیٹر کو مفت میں میل پر منگوانے کے لیے لنک میں دیے گئے فارم کو بھریں: https://bit.ly/SubscribeSPAN



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے