سرحدوں سے ماورا کہانیاں

فلبرائٹ۔نہرو فیلو کاویری کول اس مضمون میں اپنی دستاویزی فلم ’ دی بنگالی‘ کے علاوہ امریکہ میں مقیم جنوب ایشیائی نژاد افراد اور افریقی امریکیوں کے درمیان روابط کے بارے میں بتا رہی ہیں۔

چاروی اروڑا

September 2023

سرحدوں سے ماورا کہانیاں

فلمساز کاویری کول(دائیں)نئی دہلی میں واقع امیریکی سینٹر کی ایک تقریب کے دوران۔ ان کی دستاویزی فلم ’دی بنگالی‘ افریقی۔امریکی مصنفہ فاطمہ شیخ پر مبنی ہے جس میں امریکہ میں ان کے شہر نیو اورلینس سے لے کر بھارت تک کے سفر کو دکھایا گیا ہے جہاں بنگال سے تعلق رکھنے والے ان کے دادا کی پیدائش ہوئی تھی۔(تصویر بشکریہ اوشا کول)

انعام یافتہ ہند نژاد امریکی فلمساز اور فلبرائٹ۔نہرو فیلو کاویری کول اپنی کہانیوں کے ذریعہ ’عرفانِ خودی‘ کی ترغیب دیتی ہیں۔ ان کی دستاویزی فلم ’ دی بنگالی ‘ افریقی نژاد امریکی مصنفہ فاطمہ شیخ کی زندگی پر مبنی ہے۔ فاطمہ شیخ کا اصل وطن نیو اورلینس ہے۔ ان کے دادا شیخ محمد موسیٰ کا تعلق بھارت کے صوبہ بنگال سے تھا۔ اس فلم میں فاطمہ کو مرکزی کردار بنا کر کاویری نے جنوب ایشیائی نژاد امریکی مردوں کی پہلی نسل ،جس  نے افریقی۔امریکی خواتین سے شادی کی ،کی کہانی پیش کی ہے۔

کول کی دستاویزی فلموں کو ٹیلی ویژن اور دنیا بھر کے تھیٹروں  میں دکھایا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ کئی فلمی میلوں میں بھی  انہیں نمائش کے لیے پیش کیا جا چکا ہے۔ انہوں نے کولمبیا یونیورسٹی اور نیو یارک کے سٹی کالج میں تدریسی خدمات انجام دیں،  نیز وہ کولکاتا میں واقع ستیہ جیت رے فلم اینڈ ٹیلی ویژن انسٹی ٹیوٹ میں ’وزٹنگ فلم میکر ‘بھی رہی ہیں۔

حال ہی میں نئی دہلی میں واقع امیریکن سینٹر میں کول کی دستاویزی فلم ’ دی بنگالی‘دکھائی گئی۔ اس موقع پر اسپَین نے کول سے گفتگو کی۔ پیش خدمت ہیں اس گفتگو سے چند اقتباسات:

آپ کی دستاویزی فلمیں  ثقافت ، نسل ، طبقات اور جذباتی تعلق جیسے موضوعات کی جستجو کرتی ہیں ۔ ’دی بنگالی ‘میں آپ نے کس چیز کی جستجو کی ہے؟

میرے خیال میں ’ دی بنگالی ‘ ان تمام موضوعات کی جستجو کرتی ہے۔ یقیناً اس میں جذباتی تعلق کا عنصر بھی موجود ہے۔ یعنی کس کا تعلق کہاں سے ہے اور کس سے ہے۔ یہ  ثقافت کے بارے میں  ہے۔ اس میں دکھایا گیا ہے کہ کیا ہوتا ہے جب مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا خاندان ایک ہی ہوتا ہے۔ اس میں نسل اور طبقات بھی زیر بحث آئے ہیں۔ شہری اور دیہی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کے درمیان نیز امریکیوں، افریقی امریکیوں، بھارتیوں کے درمیان بہت فرق ہے۔ یہ تمام چیزیں اپنا اثر چھوڑتی ہیں۔ میں نے قصداً اسے کئی تہوں والی دستاویزی فلم بنایا ہے کیونکہ میرے نزدیک یہی انسانی تجربہ ہے۔

آپ نے ’ دی بنگالی‘بنانے کے لیے فاطمہ کا ہی انتخاب کیوں کیا؟ اس فلم میں آپ کی اپنی ذاتی زندگی کی تاریخ کا کتنا حصہ ہے؟

مجھے فاطمہ کے گھر والوں کی کہانی نے متاثر کیا۔ فاطمہ  کی فیملی ایسے خانوادوں میں سے تھی جن کے بارے میں  مجھے میری والدہ نے بتایا تھا۔ انہوں  نے بتایا تھا کہ  ہم سے بہت پہلے بھی بھارت سے بہت سارے بھارتی باشندوں نے امریکہ ہجرت کی تھی۔ میری والدہ تاریخ کی استانی تھیں۔ انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ مجھے یہ باتیں کتابوں میں پڑھنے کو نہیں ملیں گی۔ بس اسی بات نے میرے اندر تحریک پیدا کی کہ میں نیو اورلینس میں بسے ہوئے ان خاندانوں کو تلاش کر کے ان سے ملاقات کرنا شروع کروں جو ہم سے پہلے امریکہ میں جا بسے تھے۔

فلم کی عکس بندی کے دوران آپ کو کن چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا؟  

سب سے بڑا مسئلہ فاطمہ شیخ کا آبائی گاؤں ڈھونڈنا تھا ۔ کیوں کہ مجھے اس کا علم بھی نہیں تھا کہ اگر گاؤں کا پتہ مل بھی گیا تو کیا ہم فاطمہ کے آبائی گھر تک پہنچ پائیں گے۔ اور اگر وہاں تک  پہنچ بھی گئے تو کیا ہمیں مطلوبہ دستاویز بھی حاصل ہو پائیں گے۔ جب میں کوئی دستاویزی فلم بناتی ہوں تو میرے سامنے ایک مبہم سا منصوبہ ہوتا ہے تاکہ سمت ورفتار کا کچھ تعین کیا جا سکے۔ مگر یہاں مجھے ہر لمحہ اپنے منصوبے میں تبدیلی کرنی پڑی۔ مثال کے طور میں یہ جانتی تھی کہ فلم میں مجھے گاؤں والے کا نقطہ نظربھی پیش کرنا ہے مگر میں یہ فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی کہ اسے کیسے اور کہاں شامل کروں۔ لیکن جیسے ہی ہم گاؤں پہنچے تو ہم نے دیکھا کہ گاؤں والے فاطمہ کو گھور رہے ہیں۔ بس ہمیں یہی شاٹ چاہیے تھا۔ میں نے اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھے اور یہ دیکھتی رہی کہ کون کس کو گھور رہا ہے اور کون اس کا جواب دے رہا ہے۔

آپ نے اپنی فلم میں انیمیشن کا استعمال بھی کیا ہے۔ انیمیشن کو  پوری دستاویزی فلم میں شامل کرنے کا تجربہ کیسا تھا ؟

انیمیشن استعمال کرنے کا یہ میرا پہلا تجربہ تھا اور واقعتاً مجھے بہت اچھا لگا۔ مجھے اس کی اہمیت کا اندازہ ہو گیا۔ مایا ایڈلمین نے اس انیمیشن کو تیار کیا ہے۔ انہوں نے ۱۰ برس کی عمر میں اپنے گھر والوں کے ساتھ اس وقت کے یو ایس ایس آر میں واقع کیف سے امریکہ ہجرت کی تھی۔ اور جب پہلی بار میں نے ان کو کہانی سنائی تو ان کا جواب تھا ’’میں سمجھ گئی۔‘‘انہوں نے  واقعی بہت شاندار کام کیا ہے۔

 آپ کے خیال میں کیا افریقی امریکی اور بھارتیوں کے درمیان جو تاریخی روابط قائم ہیں ان سے تنوع اور شمولیت جیسے موضوعات پر مباحثہ ممکن ہو سکے گا؟

میرے خیال میں پہلے تو ان روابط کو دریافت کرنا پڑے گا۔ عجیب معاملہ ہے کہ ہم روابط کی بات نہیں کرتے بلکہ قطع تعلق اور تنازعات کی بات کرتے ہیں۔ یہ  اجتماعی طو ر پر پیش قدمی کی ہماری صلاحیت کو روکتا ہے۔ اکثر لوگوں کو یہ نہیں معلوم ہو گا کہ مارٹن لوتھر کنگ ۱۹۵۹ ءمیں بھارت آئے تھے۔ یا یہ کہ انہوں نے گاندھی جی کے متعلق جانا تھا۔ یا یہ کہ گاندھی جی نیشنل ایسوسی ایشن فار دی ایڈوانسمنٹ آف کلرڈ پیپل سے ۱۹۲۰ء کی دہائی سے ہی رابطے میں تھے۔ حتیٰ کہ ثقافتی طور پر بھی ہم لوگ اس حقیقت سے ناواقف ہیں کہ امریکی سیکسو فون بجانے والے جان کولٹرن کو بھارتی موسیقی سے عشق تھا اور انہوں بہت سارے سازوں کو جاز میں بھی اپنا لیا تھا۔ اوران تمام حقائق  کو سامنے لانا اشد ضروری ہے۔ فنون اس قسم کے روابط قائم کرنے کا بہترین مواقع فراہم کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فنکار دوسری ثقافتوں میں غوطہ لگانے کو ہمیشہ تیار رہتے ہیں کیوں کہ ان کے سوچنے کا نظریہ بالکل الگ ہوتا ہے۔


اسپَین نیوز لیٹر کو میل پر مفت منگوانے کے لیے لنک میں دیے گئے فارم کو بھریں: https://bit.ly/SubscribeSPAN



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے