سماجی تبدیلی کے لیے موسیقی کا استعمال

آئی وی ایل پی کی سابق طالبہ دیپا اُننی کرشنن بتاتی ہیں کہ کس طرح ہِپ ہاپ رقص کمیونٹی میں تبدیلی لا سکتا ہے۔

مائیکل گیلنٹ

September 2024

سماجی تبدیلی کے لیے موسیقی کا استعمال

ہِپ ہاپ فنکارہ دیپا اُننی کرشنن عالمی طور پر اپنے فن کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ وہ بالی ووڈ کے لیے موسیقی بھی ترتیب دیتی ہیں اور ایک ویب سائٹ کے لیے ایڈیٹر اِن چیف کے طور پر بھی کام کرتی ہیں۔ (تصویر بشکریہ دیپا اُننی کرشنن)

ممبئی سے تعلق رکھنے والی ڈی ایم سی کے نام سے نہایت مقبول ہِپ ہاپ آرٹسٹ دیپا اُننی کرشنن نے متعدد زبانوں میں بڑے مشکل نغمے ریکارڈ کر کے رَیپ کی دنیا میں اپنا ایک منفرد مقام بنایا ہے۔ انہوں نے مردوں کے غلبہ والی موسیقی کی دنیا میں ایک کامیاب خاتون کے طور پربڑی پیش رفت کی ہے۔ اپریل ۲۰۲۴ء میں انہوں نے ’’ہپ ہاپ اینڈ سِوِک انگیجمنٹ‘‘ کے عنوان سے امریکی محکمہ خارجہ کے انٹرنیشنل وزیٹر لیڈرشپ پروگرام (آئی وی ایل پی) کے تحت امریکہ کا سفر کرکے نئی راہ تلاش کی۔

اُننی کرشنن نےہِپ ہاپ کے ماضی، حال اور مستقبل کے بارے میں جاننے کے لیے۲۱ دیگر ممالک کے فنکاروں اور ماہرین تعلیم کے ساتھ واشنگٹن، ڈی سی، نیو یارک سٹی، نارتھ کیرولائنا میں رالی اور دیگر امریکی طبقات کا دورہ کیا۔ شرکاء نے ۱۹۷۰ءکی دہائی میں نیو یارک شہر کے برونکس بورو میں پیدا ہونے والی موسیقی کی زیر زمین تحریک سے دنیا کی سب سے مقبول اور طاقتور صنفوں میں سے ایک کے طور پر شناخت قائم کرنے والی ہِپ ہاپ کے ارتقا ءکے بارے میں جانا۔ انہوں نے ہِپ ہاپ کی حقیقت بیان کرنے، پسماندہ طبقات کو بااختیار بنانے اور سماجی تبدیلی کی ترغیب دینے کی صلاحیت کا بھی جائزہ لیا۔

صلاحیتوں کا اشتراک

اُننی کرشنن کیرل میں پیدا ہوئیں اور ممبئی کے مضافات میں پلی بڑھیں۔ نو عمری میں ہی پہلی بار انہیں ہِپ ہاپ کے بارے میں معلوم ہوا۔ رَیپ کی دنیا میں قدم رکھنے سے پہلے وہ بریک ڈانس کی شوقین تھیں۔ وہ بتاتی ہیں ’’ میں اسکول میں نظمیں لکھا کرتی تھی۔ اس کے علاوہ بھرت ناٹیم میں تربیت کی وجہ سے تال میں مہارت بھی رکھتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ۵ بر س کی عمر سے ہی میں اسٹیج پرپرفارم کررہی تھی۔‘‘وہ مزید کہتی ہیں’’ میں ۲۰۱۱ء میں یوٹیوب پر نکی مِناج، جے زیڈ اور لیل وین جیسے فنکاروں کے نغموں کو اپ لوڈ کر نا شروع کردیا تھا۔ اس کے بعد کسی نے مجھے ہندوستان کی ہِپ ہاپ کمیونٹی سے متعارف کرایا جہاں سے مجھے اپنے رَیپ نغمے لکھنے کی ترغیب ملی۔وہاں سے پھر میں نے پیچھے مڑکر کبھی نہیں دیکھا۔‘‘

اُننی کرشنن نے ۲۰۱۲ءمیں رَیپ نغمے لکھنا شروع کر دیا تھااور تب سے وہ ترقی کی منازل طے کرتی جارہی ہیں۔ وہ بین الاقوامی سطح پر اپنے فن کا مظاہرہ کرتی ہیں ، بالی ووڈ کے لیے موسیقی تیار کرتی ہیں اور جنوبی ایشیا میں ہِپ ہاپ کے نیوز سورس DesiHipHop.comکی ایڈیٹر اِن چیف کے طور پرخدمات انجام دیتی ہیں۔

رَیپ اوراس کے اثرات

اُننی کرشنن کا کہنا ہے کہ ان کی موسیقی ان کے ذاتی سفر اور ان سماجی مسائل کی عکاسی کرتی ہے جو مقامی اور عالمی طبقات کو متاثر کرتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے بعض نغموں میں سنجیدگی ہے جب کہ دیگرنغموں کو انہوں نے ’’صرف تفریح کے لیے‘‘ لکھا ہے۔ ان کی موسیقی میں خواتین کو بااختیار بنانے کے پیغامات موجود ہیں جن میں ’’مضبوط، خود مختار، خوبصورت، عجیب اور عالمی رہنما ہونے کے احساسات شامل ہیں۔‘‘ وہ کہتی ہیں’’وبا کے پھوٹ پڑنے کے بعد سے میری موسیقی میں خودشناسی کا مادّہ زیادہ پایا جارہا ہے اور اس کا تعلق ذہنی صحت سے ہوگیا ہے۔ ۲۰۲۰ء سے پہلے میں نے جو نغمے گائے ان کا تعلق سماجی خودمختاری، سیاست اورنسائیت سے زیادہ تھا۔‘‘

اُننی کرشنن کو پہلی بار آئی وی ایل پی کے بارے میں اس وقت معلوم ہوا جب انہیں ممبئی کے امریکی قونصل خانہ نے اس کے لیے نامزد کیا تھا۔ وہ کہتی ہیں ’’ امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے اپنے ملک کی نمائندگی کرنے اورہِپ ہاپ کی جائے پیدائش پر جاکر اس کی ثقافت کے بارے میں جاننے کے لیے مدعو کیا جا نا میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔‘‘وہ مزید کہتی ہیں،’’ میرے لیے یہ زندگی بھر کا ایک موقع رہا ہے اور مجھے امید ہے کہ میں ہندوستانی ہِپ ہاپ طبقات کو وسعت دینے میں تعاون کرتی رہوں گی۔‘‘

اُننی کرشنن کے لیے امریکہ کا سفر ایک نیا اور دلچسپ تجربہ تھا۔ وہ اور ان کے ساتھی آئی وی ایل پی شرکاء کو رہنماؤں، اساتذہ، موسیقی کے پیشہ ور افراد اور عام شہریوں سے یکساں طور پر ملنے کا اور یہ جاننے کا موقع ملا کہ کس طرح امریکی سیاستدانوں نے ’’ہِپ ہاپ کو بات چیت اور شہریوں کے طرز زندگی کو بہتر بنانے کے ایک آلے کے طور پر استعمال کیا۔‘‘وہ مزید کہتی ہیں’’ہِپ ہاپ کے انقلابی اور تعلیمی پہلو کو دیکھ کر تازگی محسوس ہوئی جبکہ اس کے برعکس شوبِز میں ہمیں بس چمک دمک نظر آتا ہے۔‘‘

اُننی کرشنن پروگرام میں شرکت کے بعد ہندوستان میں اپنی ہِپ ہاپ کمیونٹی کو فروغ دینے کی شدید خواہش کے ساتھ واپس آئی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ جنوب ایشیائی طبقات افریقی امریکی فنکاروں کے ذریعے اپنائی گئی ہِپ ہاپ ثقافت کی جڑوں سے بہت دور ہیں ۔اس لیےاب توجہ زمینی تحریک کی بجائے خوشحال اور معروف طرز زندگی جیسے پہلوؤں پر زیادہ ہے، جس کا مقصد ان لوگوں کو بااختیار بنانا ہے جو نظام میں سب سے زیادہ دبے کچلے ہیں۔‘‘

اُننی کرشنن کا خیال ہے کہ دوسروں کے ساتھ اپنی بصیرت کا اشتراک کرنا بہت ضروری ہے۔ وہ اظہار تشکر کرتے ہوئے کہتی ہیں ’’ میں فنکاروں کی عالمی برادری سے جڑنے کا موقع ملنے پر ہمیشہ بہت شکر گزار ہوں۔ میں واقعی یقین رکھتی ہوں کہ آرٹ، سائنس اور کھانے وہ تین چیزیں ہیں جن کا انسان کو حق حاصل ہے اور اگر آپ خود کو ان میں سے کسی بھی شعبے میں کام کرتے ہوئے پاتے ہیں تو اپنے آپ کو واقعی خوش قسمت سمجھنا چاہیے۔‘‘

مائیکل گیلنٹ نیویارک سٹی میں مقیم قلمکار، موسیقار اور کاروباری پیشہ ور ہیں۔


اسپَین نیوزلیٹر کے میل پر مفت منگوانے کے لیے لنک میں دیے گئے فارم کو بھریں: https://bit.ly/SubscribeSPAN



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے