پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر اور فلبرائٹ ۔نہرو ممتاز اسکالر جان پورٹز اس مضمون میں امریکی انتخابی عمل کے بارے میں معلومات فراہم کر رہے ہیں۔
September 2024
(السٹریشن از اینڈی لیو / شٹر اسٹاک ڈاٹ کام)
بوسٹن کی نارتھ ایسٹرن یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر جان پورٹز نے اس سال چار مہینے نئی دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں فلبرائٹ ۔نہرو کے ممتاز اسکالر کے طور پر گزارے۔
ممتاز اسکالر فیلوشپ پروفیسروں کے لیے تیار کی گئی ہے تاکہ وہ میزبان ادارے میں گریجویٹ طلبہ کو پڑھا سکیں، دیگر اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مہمان لیکچر دے سکیں اور سمپوزیم اور کانفرنس میں حصہ لے سکیں۔ ممتاز اسکالرس پروگرام کے فروغ اور نصاب کے ڈیزائن کے تعلق سے میزبان ادارے میں دیگر اساتذہ کے ساتھ کام بھی کرتے ہیں۔
پورٹز نے امریکی انتخابی نظام پر لیکچرس کے سلسلے میں ہندوستان بھر کے اداروں کا دورہ بھی کیا۔
پیش ہیں ان سے لیے گئے انٹرویو کے اقتباسات ۔
اپنے لیکچرس کے دوران آپ نے کن نکات پر بات کی؟
میں نے اپنے لیکچرس میں اس بارے میں بات کی کہ امریکی صدارتی انتخابات دو مرحلوں میں کس طرح انجام پاتے ہیں۔ پرائمری انتخابات موسم بہار میں ہوتے ہیں جب ریپبلکن پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی اپنے صدارتی اور نائب صدارتی امیدواروں کا انتخاب کرتی ہیں۔ اس کے بعد موسم خزاں میں صدارتی انتخابات کا عمل انجام پاتا ہے۔ میں نے ووٹنگ کے قواعد وضع کرنے میں ریاستوں کے اہم کردار پربھی روشنی ڈالی۔ بعض ریاستوں میں قبل از وقت ووٹنگ ہوتی ہے جہاں رائے دہندگان انتخابات کے دن یعنی نومبر کے پہلے منگل سے کئی دن یا ہفتے پہلے اپنا ووٹ ڈال سکتے ہیں۔ بعض ریاستوں میں میل کے ذریعہ بھی ووٹنگ ہوتی ہے۔
’بیٹل گراؤنڈ‘ اسٹیٹس کیا ہیں اوروہ کیوں اہم ہیں؟
’بیٹل گراؤنڈ‘ اسٹیٹس جنہیں ’سوئنگ اسٹیٹس ‘ بھی کہا جاتا ہے، نمایاں اہمیت کے حامل ہیں۔ تاریخی رجحانات اور رائے شماری امریکہ کی ۵۰ ریاستوں میں سے زیادہ تر میں ممکنہ فاتح کو ظاہر کرتی ہے۔ لیکن ’بیٹل گراؤنڈ اسٹیٹس ‘ میں کسی کی بھی جیت ہو سکتی ہے۔ یہ ریاستیں کسی بھی طرف جا سکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صدارتی امیدوار عام طور پر اپنی انتخابی مہم کا زیادہ تر وقت ان ہی ریاستوں میں صرف کرتے ہیں اور رائے دہندگان کا دل جیتنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس گروپ میں پانچ ریاستیں، وِسکونسن، مشی گن، پنسلوانیا، جارجیا اور ایریزونا شامل ہیں۔ بعض لوگ ان میں شمالی کیرولائنا اور نیواڈا کو بھی شامل کر لیتے ہیں۔
پروفیسر جان پورٹز(اگلی قطار میں بائیں سے تیسرے) نئی دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں ایک لیکچر کے بعد۔ (تصویر بشکریہ جان پورٹز)
۲۰۱۶ء میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ان میں سے پانچ ریاستوں میں کامیابی حاصل کی تھی۔ ۲۰۲۰ء میں جو بائیڈن بھی ’ بیٹل گراؤنڈ اسٹیٹس‘ میں پانچ میں کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔ اکثر ’ بیٹل گراؤنڈ اسٹیٹ‘ میں نتائج کا فیصلہ نسبتاً کم فرق سے ہوتا ہے۔ ۲۰۲۰ء کے انتخابات میں ایریزونا میں بائیڈن نے ٹرمپ سے صرف ۱۰،۴۵۷ ووٹ زیادہ حاصل کیے۔
آخر میں بائیڈن نے ٹرمپ کے مقابلے میں ۷۰لاکھ زیادہ ’مقبول‘ووٹ حاصل کیے (ڈالے گئے ۱۵۵ ملین ووٹوں میں سے)۔ لیکن الیکٹورل کالج میں بائیڈن نے کافی بڑے فرق سے یعنی ٹرمپ کے ۲۳۲ کے مقابلے میں ۳۰۶ ووٹ سے کامیابی حاصل کی۔
ہمیں الیکٹورل کالج کے بارے میں مزید بتائیں جس کے ذریعے امریکہ کے صدر کا انتخاب کیا جاتا ہے۔
الیکٹورل کالج میں ان دنوں ۵۳۸رائے دہندگان ہیں۔ ہر ریاست میں رائے دہندگان کی تعداد امریکی کانگریس میں سینیٹروں اور نمائندوں کی تعداد کے برابر ہے۔ دو ریاستوں نیبراسکا اور مین کو چھوڑ کر باقی تمام ریاستوں میں جیتنے والے کو تمام سیٹیں ملتی ہیں یعنی جو امیدوار کسی ریاست میں زیادہ ووٹ حاصل کرتا ہے ان کا ریاست کے تمام رائے دہندگان پر قبضہ ہوتا ہے۔ جو بھی امیدوار الیکٹورل کالج کی اکثریت یعنی ۲۷۰ رائے دہندگان کا اعتماد حاصل کرتا ہے وہ انتخابات جیت جاتا ہے اور ملک کا اگلا صدر بن جاتا ہے۔
پیچیدہ ریاضی کی وجہ سے امریکی تاریخ میں پانچ مرتبہ مقبول ترین ووٹ حاصل کرنے والے امیدوار الیکٹورل کالج میں اکثریت حاصل نہ کرسکے اور الیکشن ہار گئے۔
امریکی سیاست میں ڈیموکریٹس اور رپبلکنس کا غلبہ ہے۔ کیا تیسری پارٹی کے امیدواروں کا بھی کبھی اثر پڑتا ہے؟
تیسرے فریق کے امیدوار امریکی صدارتی انتخابات جیت تو نہیں سکتے لیکن وہ فرق ضرور پیدا کر سکتے ہیں۔ سنہ ۲۰۰۰ء کے انتخابات میں جب جارج ڈبلیو بش نے الگور کو شکست دی تھی تو انتخابات کا فیصلہ فلوریڈا میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے بعد ہی کیا گیا تھا۔ اُس سال بش کی جیت کا گرین پارٹی کی نمائندگی کرنے والے تیسرے فریق کے امیدوار رالف نادر کی موجودگی سے گہرا تعلق تھا۔ انہوں نے فلوریڈا میں ۹۷ہزار ووٹ حاصل کیے۔ فلوریڈا میں ڈالے گئے ۵ اعشاریہ ۸ ملین ووٹوں میں سے بش صرف ۵۳۷ ووٹوں سے ہی جیت پائے۔ لہذا جب معاملہ کانٹے کا ہو تو تیسری پارٹی کے امیدوار فرق پیدا کر سکتے ہیں۔
صدارتی مہم میں مالی اعانت کتنی اہم ہے؟
آج امریکہ میں سیاسی مہمات پر بہت زیادہ پیسے خرچ ہو تے ہیں۔ ۲۰۲۰ءکے انتخابات کے دوران تقریبا ً ۱۴ اعشاریہ ۴ بلین ڈالر خرچ کیے گئے۔ کانگریس میں نشستیں جیتنے کی مہم کے لیے ان میں سے ۸ اعشاریہ ۷ بلین ڈالر اور صدارتی انتخابات کے لیے ۵ اعشاریہ ۷ بلین ڈالر خرچ کیے گئے۔ ۲۰۱۶ء میں یہ رقم صرف آدھی تھی۔ اس اضافے کی بنیادی وجہ سپریم کورٹ کا ۲۰۱۰ء کا ایک فیصلہ تھا جسے عام طور پر ’’سٹیزن یونائیٹڈ‘‘ فیصلہ کہا جاتا ہے۔ اس فیصلے نے انتخابی مہم میں کارپوریشنوں کی مالی امداد کی حد ختم کردی اوراس کے ساتھ ہی انہیں انکشاف کو لازمی بنائے بغیر ایسا کرنے کی اجازت بھی دے دی۔
برٹن بولاگ واشنگٹن ڈی سی میں مقیم آزاد صحافی ہیں۔
اسپَین نیوزلیٹر کو اپنے میل پر مفت منگوانے کے لیے لنک میں دیے گئے فارم کو بھریں: https://bit.ly/SubscribeSPAN
تبصرہ