تنوع اور رفاقت کا استقبال

رمضان کے مقدس مہینے میں جنوبی ہند کے شہر حیدرآباد سے امریکی ریاست اوہائیو وتک کاتبادلہ پروگرام کے ایک طالب علم کا سفر شمولیت اور عرفانِ خودی کی خوبصورت عکاسی کرتا ہے۔

رِمشا رحمان

April 2024

تنوع اور رفاقت کا استقبال

رِمشا رحمان (دائیں) کا تعلق حیدرآباد سے ہے۔ وہ سینٹ جوزف کالج سے گریجویشن کر رہی ہیں۔ (تصویر بشکریہ رِمشا رحمان)

میں ۱۶ برس کی تھی جب میں نے کینیڈی۔لوگر یوتھ ایکسچینج اینڈ اسٹڈی (یس) پروگرام کے حصے کے طور پر ۲۰۱۸ء میں ایکسچینج اسٹوڈنٹ کی حیثیت سے امریکہ کا سفر کیا۔ امریکی ریاست وہائیو ومیں میرے میزبان خاندان نے میرا استقبال کیا اور مجھے پُرسکون محسوس کرانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اس کیتھولک امریکی خاندان کے ساتھ میرا پہلا ہفتہ گرم جوشی بھرے ماحول میں گزرا۔

میری روزانہ کی عبادتوں کے معاملے میں کسی مختلف عقیدے کے ایک بڑے خاندان کا حصہ ہونا میرے لیے کبھی بھی مسئلہ نہیں رہا ہے۔میرے میزبان خاندان نے میرے کمرے کے ایک کونے کو میری عبادت کے لیے مخصوص کردیا۔ مجھے قریب کی ایک مسجد میں بھی لے جایا گیا۔ میرے میزبان سحری کے وقت میرے لیے کھانا تیار کرتے اور افطار کے وقت مسجد میں بھی میرے ساتھ شامل ہوتے۔کسی دوسرے ملک کے مسلمان کے ساتھ اپنا پورا رمضان گزارنا تو دور ، میں تو اس سے پہلے کبھی کسی دوسرے ملک کے مسلمان سے ملی بھی نہیں تھی۔

مسجد کی دیکھ بھال کرنے والے امام صاحب اور ان کی اہلیہ کا تعلق انڈونیشیا سے تھا۔ میں اکثر اختتام ِ ہفتہ امام صاحب کی بیوی کے ساتھ تلاوت کلام پاک کرتی تھی ۔ ابتدا میں ان کے لیے میرے لہجے کو سمجھنا ذرا مشکل تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ میرے لہجے سے آشنا ہوگئیں۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے کمیونٹی اور وہاں بنائے گئے دوستوں کے ساتھ عید بھی منائی تھی۔

تبادلہ پروگرام کی مدت کے دوران میرے میزبان خاندان کے اراکین نے اسلام کے بارے میں جانا اور مجھے ان کے عقیدے سے متعارف ہونے کا موقع ملا۔ یوں کسی دوسرے ملک میں زندگی کا تجربہ حاصل کرنے سے میرے نقطہ نظر کو وسعت ملی اور اس نے مجھے دنیا کو عالمی نظریہ سے دیکھنے میں مدد کی۔ میں نے متنوع پس منظر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ساتھ روابط قائم کیے۔ اس کے نتیجے میں مجھے زندگی بھر کی دوستی ملی اور میں نے بہت کارآمد روابط استوار کیے۔ تبادلہ پروگرام نے مجھے ذاتی طور پر خود کو بہتر بنانے میں مدد کی اور تنوع کے تئیں میری سوچ کو تقویت بخشی۔ ایک مختلف ثقافت کا براہ راست تجربہ کرنے سے مجھے تنوع اور ثقافتی تبادلے کی اہمیت کو سمجھنے میں مدد ملی ہے۔ میں نےرفتہ رفتہ ایک نئے ماحول میں رہنے کے چیلنجوں پر قابو پانا بھی سیکھ لیا ۔ کبھی گھر نہ چھوڑنے کی کمزوری سے زبان کے مسائل تک، تمام نا مساعد حالات سے نمٹنے کی میری اہلیت میری ذاتی بہتری کا ایک اہم پہلو ہے۔

ایک نئے ماحول میں ہونا اکثر خود کو دریافت کرنے کا باعث بنتا ہے۔ میں نے اپنے مذہب کی گہری تفہیم حاصل کر کے اپنے اقدار، عقائد اور ترجیحات کی جستجو کی ۔ تبادلہ پروگرام کے دوران بیرون ملک رہ کر اپنی تعلیمی ذمہ داریوں کو نبھانے کے علاوہ سماجی سرگرمیوں اور اپنے لیے وقت نکالنے سے وقت کا صحیح استعمال کرنے کی میری صلاحیت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

میں فی الحال حیدرآباد کے سینٹ جوزف ڈگری اور پی جی کالج میں دوہری ڈگری، کامرس میں بیچلر کی ڈگری کے ساتھ ساتھ اے سی سی اے (ایسوسی ایشن آف چارٹرڈ سرٹیفائیڈ اکاؤنٹنٹس) کے حصول کے لیے کوشاں ہوں ۔

اس رمضان میں میرا مقصد قرآن مجید کی تلاوت اور اس کے معنی کو سمجھنا اور نماز اور غور و فکر میں اضافہ کرنا تھا۔ مجھے امید ہے کہ میں زیادہ سے زیادہ صدقہ کرسکوں گی اور ماہِ مبارک کے ایّام مجھے کارہائے خیر میں شامل ہونے کا موقع عنایت کریں گے ، نیز میں معاشرے کے اندر اور باہر ضرورت مندوں پر توجہ دے سکوں گی۔

میری ملاقات اوہائیوو کی مسجد میں مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگوں سے ہوئی تھی جن سے میں اب بھی رابطے میں ہوں۔ میں امید کرتی ہوں کہ دورانِ رمضان میں ان سے از سر نو رابطہ کرسکوں گی اور اسلام کے بارے میں اپنے علم کا ان سے اشتراک بھی کرپاؤں گی۔

رِمشا رحمان یس پروگرام کی سابق طالبہ ہیں۔


ٹَیگس

تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے