ذائقوں کی تجارت

عصمت فریدی نے نئی دہلی کے امیریکن سینٹر میں منعقد لیڈ بائی فاؤنڈیشن کی ایک تقریب میں شرکت کے بعد کاروباری پیشہ وری کی راہ کا انتخاب کرکے ذائقوں کی بھیڑ بھاڑ والی تجارتی دنیا میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا ۔

ڈاکٹر سیّد سلیمان اختر

April 2024

ذائقوں کی تجارت

عصمت فریدی نے درس و تدریس کے بعد فنِ طبّاخی کو اپنا میدانِ عمل بنایا ہے۔ یوں وہ اپنے لیے کاروباری امکانات پیدا کرنے کے ساتھ دوسری خواتین کے لیے مشعلِ راہ بن گئی ہیں۔ (تصویر بشکریہ عصمت فریدی)

دہلی میں مقیم عصمت فریدی کے ذائقوں کے سفر کی ابتدا اپنے گھر کی چہار دیواری کے اندر ہوئی جہاں انہوں نے برسوں تک فنِ طبّاخی کی مشق کی۔ درس و تدریس کے پیشے کو خیر باد کہہ چکیں عصمت نے ایک دہائی کے وقفہ کے بعد کام کاجی دنیا میں پھر سے نمودار ہونے کا فیصلہ کیا مگر ان کا سابقہ مواقع کی کمی سے پڑا۔ چوں کہ اپنا کام شروع کرنا ان کا دیرینہ خواب تھا اس لیے انہوں نے کھانا پکانے کے اپنے شوق کو ’عصمت کچن‘ نامی ایک پھلتے پھولتے کاروبار کی شکل دے دی۔ کاروباری دنیا میں اپنے قدم جمانے کے ان کے شوق کو اس وقت جلا ملی جب وہ لیڈ بائی فاؤنڈیشن کے رابطے میں آئیں۔ لیڈ بائی فاؤنڈیشن ہندوستانی مسلم خواتین کی پیشہ ورانہ ترقی پر توجہ مرکوز کرنے والی ایک معروف تنظیم ہے جس کا مقصد افرادی قوت میں مسلم خواتین کی شراکت داری کو بڑھانا ہے۔ فاؤنڈیشن سے رابطے کے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔

امکانات کی جستجو

دسمبر ۲۰۲۳ء کے نئی دہلی کے امیریکن سینٹر میں منعقد ہوئی رابطہ سازی کی تقریب نے عصمت کو کھانا پکانے کی اپنی مہارت کا استعمال کرتے ہوئے ایک کاروباری پہل کرنے کی ترغیب دی۔ وہ بتاتی ہیں’’ میں نے تقریب میں اپنی خاص ڈش ’شیر ‘پیش کی۔ اسی تقریب میں میں نے سیکھا کہ مختلف ثقافتی پس منظر کے حامل افراد کے ساتھ بات چیت کیسے کی جائےاور کس طرح موثر طور پر ان کے سامنے اپنا سامان رکھا جائے۔اس تجربے نے مجھے اعتماد سے بھر دیا۔‘‘

’عصمت کچن‘ کے خاص پکوان دم بریانی، آلو بریانی، چکن قورمہ، چکن اچاری، نرگسی کوفتہ اور شیر خورمہ ہیں۔ (تصویر بشکریہ عصمت فریدی)

عصمت کا کھانا پکانے کا شوق اپنی جگہ مگر ان کی لخت جگر عظمیٰ کے بازارکاری کے تجربے نے ’ عصمت کچن‘ کو معروف بنانے اور عوام تک پہنچانے میں بڑی مدد کی۔ عظمیٰ نے بازار میں دستیاب کھانوں کی قیمت کو دھیان میں رکھتے ہوئے ’عصمت کچن‘ کے ذائقوں کی قیمت طے کی تاکہ گاہکوں تک رسائی میں اضافہ کیا جاسکے۔ عصمت درست طور پر کہتی ہیں ’’ تجربہ اور وقت بہت کچھ سکھا دیتا ہے۔‘‘

کاروبار شروع کرنے میں گھرکے دیگر افراد نے بھی پورا ساتھ دیا ، حوصلہ افزائی کی اور اپنے اپنے طور پر مدد کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ اس تجربے کو شیئر کرتے ہوئے عصمت اعتراف کرتی ہیں’’ اب سوچ میں بڑی تبدیلی آ چکی ہے۔ سب اس بات کو سمجھتے ہیں کہ حرکت میں برکت ہے۔اور وقت اور صلاحیت ہے تو اس کا استعمال کیا بھی جانا چاہیے۔‘‘

کھانے پکانے میں اپنی پسند کے ساتھ بازار کی ضرورت کی سمجھ بھی لازمی چیز ہے۔ اس بارے میں عصمت اظہارِ رائے کرتے ہوئے کہتی ہیں’’ میری اپنی مہارت دم بریانی اور شیر خورمہ میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے ان دونوں پر خصوصی توجہ دی۔ اس کے ساتھ نرگسی کوفتہ اور چکن اچاری بھی مقبول ہیں مگر یہ بریانی ہے جو سب سے زیادہ توجہ کا مرکز بنتی ہے۔ ‘‘ عصمت امکانات کا جائزہ لے رہی ہیں کہ کھانا پہنچانے والے زومیٹو اور سویگی جیسے اَیپ کے ذریعہ پورے شہر میں ذائقوں کی دستیابی کے لیے اندراج کریں۔

انسان اگر سیکھنا چاہے تو سیکھنے کا عمل تا عمر جاری رہ سکتا ہے۔ عصمت بتاتی ہیں کہ انہوں نے خود دوسروں کو دیکھ دیکھ کر بہت کچھ سیکھا ہے ۔ ان کا خیال ہے کہ عرفان ِ خودی سے فیض حاصل کیا جانا چاہیے۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر آپ میں کوئی خوبی ہے تو اس کا استعمال ضرور کیا جانا چاہیے ’’ اسی طرح انسان کامیاب ہوتا ہے ۔ ایک بار خود کو آزمائیں ۔ ایک قدم آگے بڑھائیں گی تو رکاوٹ ڈالنے والوں سے زیادہ مدد گار ہاتھوں کا مشاہدہ کریں گی ۔‘‘

عصمت کا اختتامی پیغام تحریک دینے والا ہے۔ وہ شاعر مشرق علّامہ اقبال کے مصرعہ کا حوالہ دیتی ہیں ’ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔‘ اس کی وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں ’’ہم بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ ضرورت ہے پہل کی۔ آپ بسم اللہ کہیں ، ماشا ء اللہ کہنے والوں کی قطار لگ جائے گی۔‘‘


ٹَیگس

تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے