معاشی آزادی کی کہانیاں رقم کرنا

منجووارا مُلّاآسام میں دریا کے ساحل پر بسی خواتین کو کولکاتہ میں واقع امریکی قونصل خانہ کی مدد سے معاشی آزادی حاصل کرنے میں مدد کر رہی ہیں۔

رنجیتا بسواس

March 2024

معاشی آزادی کی کہانیاں رقم کرنا 

آمراپاری آسام کے ساحلی علاقوں میں آباد خواتین کی ان کے ذریعہ تیار کشیدہ کاری والے لحاف کو تجارتی بازار تک پہنچا کر ان کی معاشی آزادی کے حصول میں مدد کرتی ہے۔(تصویر بشکریہ منجووارا مُلّا)

آمراپاری آسام کے بارپیٹا ضلع میں خواتین کی ایک تنظیم ہے جو یومیہ بنیادوں پر کام کرنے والی خواتین کے لیے روزگار کے پائیدار مواقع پیدا کر رہی ہے۔ بارپیٹا ضلع برہم پُتر ندی کے شمالی ساحل پر واقع ہے جس میں بے شمار ریت کے ٹیلے پائے جاتے ہیں جن کو مقامی زبان میں چار چپوری کہا جاتا ہے۔ یہاں کے باشندگان اپنا گھر بار چلانے کے لیے زراعت کے پیشہ سے منسلک ہیں یا مزدوری کرتے ہیں۔ تاہم انہیں تقریباً ہر سال سیلاب کی وجہ سے اپنے اپنے مسکن چھوڑنے پڑتے ہیں۔

بارپیٹا میں مقیم منجووارا مُلّاحقوق نسواں کی کارکن ہیں۔ انہوں نے آمراپاری ( جس کے مقامی زبان میں معنی ہیں: ’ہم کر سکتے ہیں‘) کی داغ بیل ڈالی اور اس کے تحت ان علاقوں کی خواتین کو روایتی دستکاری سے روزی روٹی کمانے کی تربیت دی جا رہی ہے۔ مُلّا کولکاتہ میں واقع امریکی قونصل خانہ سے مالی امداد یافتہ پروگرام’ ویمن ویلڈنگ دی ورکپلیس‘ سے فیض یافتہ ہیں۔ اس پروگرام کا مطمح نظر خواتین کی صلاحیت سازی کرنا، سرپرستی اور علم کا اشتراک کرنا ، نیز اس کا مقصد ایسے معاون نیٹ ورکس بنانا ہے جو زیادہ سے زیادہ خواتین کو افرادی قوت میں حصہ لینے کی ترغیب دیں۔

مُلّا تصدیق کرتی ہیں کہ اس پروگرام سے ان کی تنظیم کو فروغ پانے میں کافی فائدہ ہوا ہے۔ وہ کہتی ہیں ’’اس سے قبل میں تجارت کے معاملات میں بالکل نابلد تھی اور مجھے نہیں معلوم تھا کہ آمراپاری کے کام کو کیسے فروغ دیا جائے۔ اس پروگرام کے دوران میں نے جو علم حاصل کیا اس نے میرے نقطہ نظر میں مثبت تبدیلیاں لائیں ،نیز تبدیلیوں کو نافذ کرنے اور اختراع پردازی میں کامیاب ہونے کے لیے درکار اعتماد عطا کیا۔‘‘

خاتون قیادت

آمراپاری کے سفر کا آغاز ۲۰۲۰ءمیں اُس وقت ہوا جب کووِڈ۔۱۹ تالا بندی کے سبب دریا کے ساحل پر بس رہی بہت ساری خواتین کا ذریعہ آمدنی ختم ہو گیا تھا۔ مُلّاجب ایک رضاکار کے طور پر ان علاقوں میں بس رہے لوگوں کو امدادی سامان فراہم کر رہی تھیں تو انہیں پتہ چلا کہ ان علاقوں کی خواتین کو کھانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ وہ یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں ’’گھریلو تشدد کے واقعات میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔ چوں کہ بہت سارے مردوں کی ملازتیں ختم ہو گئی تھیں تو خمیازہ خواتین کو بھگتنا پڑ رہا تھا۔‘‘

مُلّا چوں کہ خود دریا کے ساحلی علاقے میں پلی بڑھی ہیں، لہٰذا انہیں مقامی خواتین کی کڑھائی کرنے اور لحاف بنانے کی صلاحیت کا بخوبی اندازہ تھا۔ انہوں نے مقامی خواتین کو ترغیب دی کو وہ تجارتی بازاروں کے لیے کڑھائی کام والے لحاف تیار کریں۔ مغربی بنگال کی روایتی دستکاری ’’کنٹھا‘‘ کا استعمال کر کے مقامی خواتین نے لحاف تیار کیے۔ مُلّانے انہیں کپڑا اور دھاگا مہیہ کرایا۔ جب منقش لحاف تیار ہو گئے تو ان کی تصاویر کا سماجی رابطہ کی ویب سائٹس پر اشتراک کیا جن کو دیکھ کر بہت سارے خریداروں نے ان سے رابطہ کیا۔ اس طرح آمراپاری کوآپریٹو سوسائٹی کے طور پر قائم ہوئی۔

معاشی آزادی

آج آمراپاری سو سے زائد خواتین کو روزگار فراہم کر رہی ہے جن کی ماہانہ آمدنی تین ہزار سے چار ہزار روپئے تک ہے۔ مُلّازور دے کر کہتی ہیں کہ اس معاشی آزادی نے خواتین کو بااختیار کیا ہے جس سے گھروں میں ان کی بات کو اہمیت دی جانے لگی ہے۔

گذشتہ برسوں میں آمراپاری نے اپنی مصنوعات میں اضافہ کیا ہے۔ مُلّا بتاتی ہیں ’’اب ہم کڑھائی کام والے بستے، ساڑیاں، ڈائریاں، فولڈرس، تکیوں اورتکیہ کے غلاف بھی بناتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں ہم نے روایتی آسامی لباس میکھیلا سادَور تیار کرنے کے لیے کپڑا بُننے کی مشینیں نصب کرائی ہیں۔‘‘

چار۔ چپوری میں پڑنے والے ایک گاؤں میں پلی بڑھی مُلّاکا سماجی کاروباری بننے کا یہ سفر انتہائی غیرمعمولی رہا ہے۔ وہ اپنی کامیابی کا سہرا اپنے گھر اور خاص طور پر اپنے والد کے سر باندھتی ہیں جنہوں نے مُلّاکو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے کالج میں داخل کرایا۔ وہ زور دے کر کہتی ہیں ’’تعلیم سے کئی دروازے کھل جاتے ہیں۔‘‘

رنجیتا بسواس کولکاتہ میں مقیم ایک صحافی ہیں۔ وہ فکشن کا ترجمہ کرنے کے علاوہ مختصر کہانیاں بھی لکھتی ہیں۔


اسپَین نیوز لیٹر کو میل پر مفت منگوانے کے لیے لنک میں دیے گئے فارم کو بھریں: https://bit.ly/SubscribeSPAN



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے