شائستہ انسانی وسائل

فلبرائٹ۔ نہرو فیلو اروپ ورما کہتے ہیں کہ بیرون ملک ملازمت کرنے والوںکی کارکردگی کے جائزے کے دوران تنظیموں کو متعلقہ معاملات سے نمٹنے کی بھی ضرورت ہے۔

رنجیتا بسواس

November 2018

شائستہ انسانی وسائل

انسانی وسائل کے ماہر اروپ ورما لداخ میں پَینگونگ جھیل کے کنارے۔(تصویر بشکریہ اروپ ورما)

یہ بات اچھی طرح تسلیم کی جاتی ہے کہ بہت ساری دوسری چیزوں میں کسی تنظیم کی کارکردگی نمایاں طور پر انسانی عنصر پر منحصر کرتی ہے۔خوش باش افرادی قوت سے ایک ایسے ماحول کی تشکیل ہوتی ہے جو فرحت اور انبساط سے بھرا ہوتا ہے اور بہتر کارکردگی کے لیے سازگار ہوتا ہے۔ اس طور پر ان دنوں انسانی وسائل کا شعبہ کسی بھی ادارے کا بہت ہی اہم حصہ مانا جاتا ہے۔

انسانی وسائل کے امور کے ماہر اور ۱۸۔۲۰۱۷ءکے فُلبرائٹ یو ایس اسکالر اروپ ورما تقرری سے متعلق تنظیموں میں بیرون ملک میں ملازمت کرنے والوں کے معاملات میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں۔ ریاست جھارکھنڈ کے مشہور شہر جمشید پور سے ماسٹر ڈگری حاصل کرنے کے بعد ورما نے انڈ سٹریل ریلیشنس اینڈ ہیومن رسورسیز میں پی ایچ ڈی کی تعلیم کے لیے۱۹۹۶ ءمیں نیوجرسی کی رَٹگرس یونیورسٹی کا رخ کیا ۔ ورما اب شکاگو کی لویولا یونیورسٹی کے کوئن لَین اسکول آف بزنس میں پروفیسر کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

ورما جب نئی دہلی میں دو معروف تنظیموں کے شعبہ انسانی وسائل میں خدمات انجام دے رہے تھے ،تب ان کی اہم ذمہ داریوں میں سے ایک چیز ملازمین کی کارکردگی کے انتظام کا ایک نظام قائم کرنے میں مددکرنا بھی تھا۔وہ کہتے ہیں ”اس تجربے نے مجھے پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کرنے اور کارکردگی کے انتظام و انصرام یا کارکردگی کے جائزے میں مہارت حاصل کرنے کی تحریک دی۔ اور یہ تو حقیقت ہے کہ تمام کام کرنے والوں کو اپنے پیشے میں برقرار رہنے کے لیے اپنی کارکردگی کی معلومات کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘

آئی آئی ایم لکھنؤ کی ایما پر کروائے گئے پروجیکٹ (غیر ملکی کارکنوں کی کارکردگی کا جائزہ )میں ورمانے کارکردگی کا جائزہ اور بیرون ملک کام کرنے والوں کے مسائل سے متعلق اپنی تحقیق کو یکجا کردیا تھا۔وہ کہتے ہیں ” میں نے بڑے ہی شاندار طریقے سے فل برائٹ تجربے کا لطف اٹھایا اور اب میں خود کو فل برائٹ وظیفہ یافتہ کہلانے پر فخر محسوس کرتا ہوں۔‘‘

اپنی خصوصی مہارت کے بارے میں بات کرتے ہوئے ورما اپنی بات جاری رکھتے ہیں ”انسانی وسائل کے عمل میں ایک بہت ہی اہم چیز کارکردگی کا جائزہ بھی ہے کیوں کہ اس سے ہر ملازم کو یہ جاننے کا موقع ملتا ہے کہ وہ کس طرح اپنے کام کو انجام دے رہا ہے۔‘‘

آج کل کام کے شعبوں کی وسعت کی کوئی حد مقرر نہیں ۔ یہ پہلے کی بہ نسبت وسیع طور پر مختلف ہے۔ عالم گیریت کی وجہ سے ملکوں کے درمیان ذہین لوگوں کی آمد و رفت نمایاں طور پر بڑھ گئی ہے۔ اور اب تو لوگ باقاعدگی کے ساتھ ایک دوسرے ملک میں آنا جانا کرتے ہیں۔ اسی میں داخلی اور خارجی دونوں ہی طور پربیرون ملک کام کرنے والوں کی قدر و قیمت متعین کرنے کے لیے اور بہتر کارکردگی میں ان کے تعاون کے اندازے کے لیے سیاق و سباق کے حساب سے مناسب ماڈل تیار کرنے کی اہمیت پوشیدہ ہے۔

اپنے ذاتی تجربے سے ورمانے جانا کہ ملازمین کے درمیان بات چیت میں بھی ایک ہی طرح کے مسائل نمایاں ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں ان کا مشاہدہ دلچسپ ہے۔ وہ کہتے ہیں ”بیرون ملک کام کرنے والے یہ محسوس کرتے ہیں کہ صدر دفاتر کے افسران ان کے حالات کو نہیں سمجھتے ۔ جب کہ انسانی وسائل کے شعبے کا عملہ اور منیجر یہ شکایت کرتے ہیں کہ بیرون ملک کے کام کرنے والوں کے توقعات غیر متوقع ہوتے ہیں۔‘‘

بیرون ملک کام کرنے والے کسی فرد کے کام کی ذمہ داریاں اس کے اپنے ملک میں اسی عہدے پر کام کرنے والے کسی شخص کی ذمہ داریوں سے زیادہ مختلف نہیں ہو سکتیں ۔ حال آں کہ دونوں کے سیاق و سباق نمایاں طور پر الگ ہوتے ہیں۔ کسی نئے ثقافتی ماحول میں نئے ہم پیشہ افراد کے ساتھ کام سے متعلق کسی نئے ماحول میں ہونے سے لے کر رہنے سہنے اور بچوں کے اسکول کا انتظام کرنے اور نئی زبانوں اور نئے کھانوں سے نمٹنے جیسے کام کے علاوہ باہر کے مسائل سے نمٹنے تک بیرون ملک کام کرنے والے کسی فرد کواپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں اور غیر دفتری مطالبات کے درمیان اکثر توازن برقرار رکھنا پڑتا ہے۔ ورما کہتے ہیں ”چوں کہ یہ کافی اہم ہے کہ ادارے بیرون ملک کام کرنے والے کسی فرد کے کام کے زمینی حقائق پر غور کریں اور تعین ِ قدر میں اہم عوامل کے لیے اسے اس کے لائق بنائیں ۔ جہاں ادارے ان متعلقہ مسائل سے نمٹتے ہیں وہاں بیرون ملک کام کرنے والے افراد زیادہ توجہ سے کام کرنے والے اور اپنی ملازمتوں سے مطمئن نظرآنے والے ہوتے ہیں۔‘‘

ورما سے جب یہ پوچھا گیا کہ انسانی وسائل کے امور کے ماہر بننے سے لے کر اب تک انہوں نے ہند اور امریکہ میں کتنی تبدیلی محسوس کی تو انہوں نے کہا ”میں ۳۵ برسوں سے اس شعبے سے وابستہ ہوں ۔ میں نے یہاں طریق عمل کے حوالے سے بہت سی سست تبدیلیاں دیکھی ہیں ۔ گرچہ اس کے بنیادی فلسفے میں کوئی بدلاؤ نہیں ہوا ہے۔‘‘

ورما بتاتے ہیں کہ انسانی وسائل کی ٹیم کا ابتدائی کام ملازمین کے لیے بہتر ہونا اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ تنظیم ایسے حالا ت کی تشکیل کرے جو ہر ملازم کو اس کی بہترین کارکردگی میں مدد کرے ۔ ساتھ ساتھ اسے پیشہ ورانہ طور پر ترقی کا موقع بھی میسر ہو۔ وہ کہتے ہیں ’’ ستم ظریفی یہ ہے کہ منافع کے لیے بہت ساری تنظیمیں اپنے ملازمین کو کسی پہئے میں تبدیل کیے جا سکنے والے دندانے کی طرح دیکھتی ہیں جس سے حالات مزید پریشان کن بن جاتے ہیں ۔ ملازم بھی جان لیتا ہے کہ تنظیم میں اس کی حیثیت کم ترجیح والی ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ اپنے کام میں دلچسپی کم لینے لگتا ہے جس کے بدلے میں ادارہ ملازم کی کارکردگی میں کمی کے مدنظر ملازم کو ملنے والے انعام و اکرام میں کمی کر دیتا ہے۔ صورت حال کی یہ تبدیلی ملازم سے پوشیدہ نہیں رہتی اور وہ بس اسی حد تک کام کرتا ہے کہ اسے ملازمت سے نکالا نہ جائے۔‘‘

ورما محسوس کرتے ہیں کہ اس قسم کے واقعات کا سلسلہ دنیا بھر میں ہر قسم کے اداروں میں دہرایا جاتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس صورت حال سے آسانی کے ساتھ بچا جا سکتا ہے اگر ادارے اپنے ملازمین کی کارکردگی کا بندوبست درست طریقے سے کر لیں ۔ وہ کہتے ہیں ”مگر اس کی بجائے اداروں کا زور اکثر انسانی وسائل کے طریق عمل میں تکنیک کے استعمال پر رہتا ہے۔اس میں شک نہیں کہ تکنیک کے نئے زبردست اقدامات اداروں کو زیادہ کام کرنے اور منافع کمانے میں مدد کر سکتے ہیں لیکن ایسا اسی وقت ممکن ہے جب ان کا استعمال مناسب طور پر کیا جائے۔‘‘

مختلف ممالک اور مختلف صنعتوں کے ۵۰ سے بھی زیادہ اداروں کے ملازمین سے انٹرویو کی بنیاد پر ورما اپنے تجربے کا اشتراک کرتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں ”زیادہ تر ادارے بیرون ملک سے کام کرنے آنے والوں کا تعین ِ قدر ہنگامی حالات کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ ان کے پاس اب تک سیا ق و سباق کے حساب سے تعین ِ قدر کے مناسب ماڈل موجود نہیں ہیں ۔ ایسے ادارے بہت کم ہیں جو بیرون ملک سے کام کے لیے آنے والوں کا تعینِ قدر سنجیدگی سے کرتے ہیں جس کے نتیجے میں انہیں بیرون ملک سے آنے والے افراد اور ان کے منتظمین سے موزوں ردعمل ملتا ہے۔ میں پُر اعتماد ہوں کہ میں جس ماڈل پر کام کر رہا ہوں وہ اس خلا کو پُر کر دے گا۔‘‘

رنجیتا بسواس کولکاتہ میں مقیم ایک صحافی ہیں۔ و ہ افسانوی ادب کا ترجمہ کرنے کے علاوہ مختصر کہانیاں بھی لکھتی ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے