بھارت اور امریکہ کے مابین عسکری شراکت داری سے اس اہم عشرے میں ماحولیاتی اقدام کے لیے فوری پیش رفت ہوسکتی ہے۔
May 2021
صدر جو بائیڈن اپریل ۲۰۲۱ء میں ماحولیات سے متعلق ورچوئل چوٹی کانفرنس میں لیڈران سے خطاب کرتے ہوئے۔ تصویر از ایوان وُکّی © اے پی امیجیز
صدر جو بائیڈن کے ماحولیاتی اقدامات کثیر جہتی ماحولیاتی بحران کے ساتھ ساتھ اس پر فوری توجہ دینے کا اعتراف ہیں جس میں ماحولیاتی انصاف اور روایتی ایندھن کے بےخانماں محنت کشوں کے لیے ملازمت کی فراہمی جیسے تفریقی لیکن مرکزی امور پر تفصیلی دھیان دیا گیا ہے۔ بصیرت والے یہ اقدامات زمین کی سطح پر حدت کا منظرنامہ بدل سکتے ہیں ، بشرطیکہ ان کا اطلاق قومی اور عالمی دونوں سطحوں پر کیا جائے۔ قومی عمل آوری کے لیےیہ پروگرام دسیوں بڑی سرکاری ایجنسیوں پر محیط ہے۔ عالمی عمل آوری کو اہل بنانے کے لیے یہ عالمی آب وہوا سے متعلق ایک اولوالعزم پہل شروع کر رہا ہےجس میں یو ایس۔ انڈیا کلائمیٹ اورکلین انرجی ایجنڈا ۲۰۳۰ پارٹنرشپ کے قیام سمیت کئی ہدف بند عالمی پروگرام شامل ہیں ۔
میں خاص طور پر خوشی اور راحت محسوس کر رہا ہوں کہ بائیڈن کا ماحولیاتی منصوبہ اپنے کئی اولوالعزم اہداف کے لیے سال 2030 کو ایک ہدف بند تاریخ کے طور پر اہمیت دیتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ۲۰۳۰ ء اتنا بدنام کیوں ہے؟
اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ میں نے ۲۰۱۸ءمیں یہ پیش گوئی کی تھی کہ ۲۰۳۰ءتک کرہ ارض کی حدت میں ۱ اعشاریہ ۵ ڈگری سیلسیس سے تجاوز کرنے کا کم از کم ۵۰ فی صد امکان ہے۔ ۱ اعشاریہ ۵ ڈگری سیلسیس کی حدت خطرناک حدت کا آغاز ہے۔ ایسی حدت کس کے لیے خطرناک ہے؟ سبھی کے لیے ، خاص طور پر دنیاکے غریب ترین عوام کے لیے۔ جیسے کووڈ ۔۱۹پوری دنیا میں پھیل چکا ہے ، آب و ہوا میں خلل ۲۰۳۰ءکے بعد ہماری خواب گاہوں تک پہنچ جائے گا۔ حرارت پھیلانے والی گیسوں کے اخراج کا ۵۰ فی صد یا اس سے زیادہ کا ذمہ دار دنیا کے ایک ارب امیر ترین افراد ہیں۔ جب کہ اس اخراج کی ۵ فی صد ذمہ داری تین ارب غریب ترین افراد پر عائد ہوتی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ طبعی طور پر غریب ترین تین ارب افراد میں گرمی کی لہروں ، خشک سالی ، سیلاب ، آگ ، فصلوں کے نظام کی ناکامی اور جراثیم اور پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے پھیلنے سے خود کو بچانے کی محدود صلاحیتیں ہیں جو اب اور بھی بدتر ہوتی جا رہی ہیں اور اس وقت اور بھی بدتر ہو جائیں گی جب کرہ ارض کی حدت آئندہ ۹ سالوں میں ۱ اعشاریہ ۵ ڈگری سیلسیس سے تجاوز کر جائے گی۔ اس صورت حال کے پیدا ہونے میں ۳برس کم بھی لگ سکتے ہیں اور ۳برس زیادہ بھی۔ در حقیقت ، ہم جس عوام الناس کی بات کر رہے ہیں ان میں سے بیشتر کے پاس سستے روایتی ایندھنوں تک رسائی نہیں ہے ، جس کی وجہ سے آب و ہوا میں خلل ہمارے زمانے کا سب سے بڑا اخلاقی چیلنج بن گیا ہے۔ لیکن آب و ہوا میں خلل سے متعلق ماحولیاتی انصاف موجودہ صورت حال میں آٓگے بڑھنے کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے اور یہ دوسروں کے درمیان شمسی اور قابل تجدید بایو ماس ایندھنوں کے ذریعہ چلائی جا رہی تقسیم شدہ نینو گرڈس اور مائیکرو گرڈس کے ساتھ تین ارب آبادی کو سستی اور صاف توانائی تک رسائی کے قابل بناتا ہے۔ یوں بھی غریب ترین لوگوں میں سے بہت سے لوگ لینڈ لائنوں کا استعمال کیے بغیر سیل فون استعمال کرنے لگے ۔
پچھلی بار میں ۱۹۸۷ءمیں ماحولیاتی کارروائی کے بارے میں اتنا پرجوش اس وقت تھا جب ریفریجرنٹ کے طور پر استعمال ہونے والے کلوروفلوورو کاربن (سی ایف سی) کو مرحلہ وار طریقے سے ہٹانے کے لیے بین الاقوامی مونٹریال پروٹوکول کو نافذ کیا گیا تھا۔ اس سے بارہ سال پہلے ۱۹۷۵ء میں میں نے یہ دکھایا تھا کہ سی ایف سیز زمین پر پیدا ہونے والی حدت کی گرفت کرنے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ (سی او ٹو) کے مقابلے ۱۰ہزارگنا زیادہ طاقتور تھیں۔ مونٹریال پروٹوکول کے تحت مضر گیسوں کے اخراج کا جو مطالبہ کیا گیا تھا وہ ان کی ماحول کو گرم کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ انٹارکٹک میں موجود اوزون سوراخ پر پڑنے والے ان کے اثرات کی وجہ سے تھا۔ اگر اب تک کلورو فلورو کاربن کو ترک نہیں کیا جاتا تو اس بات کا خدشہ تھا کہ زمین کی حدت ۱ اعشاریہ ۵ ڈگری سیلسیس کی خطرناک حد کو اب تک عبور کر لیتی۔ اوزون اور سی ایف سی کے ماحولیاتی اثرات کے مابین خوش قسمت اتفاق کی وجہ سے آب و ہوا کے بحران کو حادثاتی طور پر ٹال دیا گیا۔ لیکن اب ایسے خوش قسمت مواقع کا انتظار کرنے کا وقت نہیں ہے۔
آب و ہوا میں تبدیلی پر اگرقابو نہیں پایا گیا تو چند عشروں میں لوگوں اور ماحولیاتی نظام کے لیے یہ ایک ناقابل تسخیر بحران بن جائے گی۔ روایتی ایندھن (کوئلہ ، پٹرولیم اور قدرتی گیس) حرارت کی گرفت کرنے والی گیسوں کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ روایتی ایندھن بھی فضائی آلودگی (پی ایم ٹو پوائنٹ فائو ذرات اور زمینی سطح کے اوزون) کے سب سے طاقتور ذرائع ہیں جن سے ہر سال امراض قلب، فالج ، پھیپھڑوں سے متعلق بیماریاں اور پھیپھڑوں کے کینسر سے قریب ۵ سے ۱۰ ملین افراد ہلاک ہوتے ہیں۔ ۲۰۱۳ءمیں فضائی آلودگی سے عالمی صحت اور فلاح و بہبود کے نقصانات کا تخمینہ ۵اعشاریہ ۱ ٹریلین ڈالر تھا جو عالمی جی ڈی پی کا قریب ۷ فی صد ہے۔ بھارت میں فضائی آلودگی سے متعلق اموات ہر سال ۲ اعشاریہ ۵ملین قبل از وقت ہونے والی اموات کے برابر ہیں جن میں ایک لاکھ چودہ ہزارشیر خوار بچوں کی اموات شامل ہیں۔ آخر میں ، فضائی آلودگی نے فصلوں کی پیداوار کو نمایاں طور پر کم کیا ۔ اس سے گندم میں ۳۶ فی صد اور چاول میں ۱۰ فی صد سے زیادہ کی کمی واقع ہوئی۔ بھارت کے ساتھ ساتھ دیگر جنوب ایشیائی ممالک کے لیے بھی ، فضائی آلودگی کو کم کرنے کی غرض سے کاربن ڈائی آکسائیڈکے اخراج کو کم کرنے میں یکساں ترجیح دی جانی چاہئے۔ خوش قسمتی سے فضائی آلودگی کے مسئلے کو حل کرنے میں ماحولیاتی تبدیلی کے مسئلے کا ایک بڑا حصہ حل کرنے کا باہمی فائدہ ہے ، کیوں کہ روایتی ایندھن دونوں ہی مسائل کا سب سے اہم سبب ہیں۔
ان حالات کے پیش نظر سوال پیدا ہوتا ہے کہ بھارت ہی کو ماحولیاتی مسئلے کو حل کرنے میں پیش قدمی کیوں کرنی چاہئے؟عالمی حدت سے متعلق اعداد و شمار واضح طور پر یہ ظاہر کرتے ہیں کہ گرم ہوا بھی زیادہ مرطوب ہوتی ہے۔ میں نے سیٹلائٹ ڈیٹا کا استعمال کرکے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ درجہ حرارت میں ایک ڈگری اضافہ رطوبت میں ۷ فی صد یا اس سے زیادہ اضافے کا سبب بنتا ہے۔ حدت اوررطوبت کے مابین یہی ربط ہے جو بھارت جیسے گرم ممالک میں ماحولیاتی تبدیلی کو ایک سخت تجربہ بناتا ہے ۔ چونکہ یہ حدت کو مرطوب گرمی کی لہروں اورانتہائی مانسون کی بارشوں کے واقعات میں تین گنا اضافے جیسے زندگی، زراعت اور املاک پر تباہ کن اثرات کے ساتھ موسم کی نئی انتہاوں کے ساتھ جوڑتا ہے۔ دوسری طرف ، فضائی آلودگی کے ذریعہ سورج کی زمین کی سطح تک پہنچنے والی روشنی میں کمی سے مانسون کی مجموعی گردش میں کمی آئی ہے جس کی وجہ سے دھان ، گندم اور دیگر فصلوں کی پیداوار میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ ایک بار پھر ، عالمی حدت اور بلیک کاربن کاجل کے ذریعہ سورج کی روشنی کی گرفت کے امتزاج سے سیلاب کے ساتھ ہمالیہ کے برفانی تودے پگھلنے سے پہاڑی طبقات پر تباہ کن اثرات پڑ رہے ہیں۔ اس طرح کی انتہاوں کےصحت عامہ پر پڑنے والے اثرات بھی وسیع ہوتے ہیں ، لیکن سان ڈیاگو میں واقع یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کی نیورو سائنسداں ڈاکٹر جیوتی مشرا کے ایک حالیہ مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس کے ذہنی صحت پرپڑنے والے اثرات بھی اتنے ہی شدید ہوسکتے ہیں۔
ماحولیاتی بحران کے حل کے لیے ہمیں روایتی ایندھنوں کو فرسودہ ٹیکنالوجی قرار دینے اور توانائی کے ذرائع سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے جو حرارت کی گرفت کرنے والی گیسوں اور بلیک کاربن کاجل کو خارج نہیں کرتے ہیں۔ چونکہ کہیں بھی اخراج ہر جگہ عالمی حدت ہے ، لہذا ماحولیاتی بحران کے حل کے لیے ہر جگہ اور سیارے پر ہر فرد ، امیر یا غریب ، سبھی کے لیے صاف توانائی تک رسائی کی ضرورت ہے۔ یہ بالکل کووڈ۔۱۹کے علاج کی طرح ہے جس میں ہر ایک کوٹیکہ لگانے کی ضرورت ہوتی ہے۔
بائیڈن کے ماحولیاتی منصوبے کے مطابق ، امریکہ ۲۰۳۰ء تک ۲۰۰۵ء تک ہوئے اپنے کاربن ڈائی آکسائیڈ کےاخراج کو نصف کردے گا اور ۲۰۵۰ء تک ماحول میں کاربن کے اخراج کو ہر ممکنہ حد تک کم کردے گا۔اس منصوبے سے کاربن کی گرفت کرنے والی چار دیگر گیسوں جیسے میتھین، نچلے ماحول میں اوزون، سیاہ کاربن کاجل اور کلوروفلورو کاربن کے اخراج میں فطری طور پر کمی آجائے گی۔ ہائڈرو فلورو کاربن کو قلیل المدتی ماحولیاتی آلودگی (ایس ایل سی پی) پھیلانے والی گیس بھی کہتے ہیں۔ یہ ایک عمدہ حکمت عملی ہے۔ آئندہ دو عشروں کے دوران حدت کی شرح کو نصف کرنے کا واحد قابل اعتماد طریقہ ایس ایل سی پی میں تخفیف کرنا ہے۔ ایس ایل سی پیز کے ساتھ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو کم کرنے کے اقدامات کو ضم کرکے ، امریکہ اور بھارت ایک عسکری شراکت داری قائم کرسکتے ہیں۔
میں امریکہ۔ بھارت کے درمیان آب و ہوا اور صاف توانائی ایجنڈا ۲۰۳۰ کی شراکت داری کے تئیں اپنی خواہش کی فہرست کے ساتھ اپنی بات ختم کرتا ہوں۔ ذیل میں دی گئی فہرست میں عالمی ضروریات کےساتھ مقامی ضرورتوں کو شامل کیا گیا ہے جہاں بھارت اور بقیہ جنوبی ایشیا میں فوائد پہلے مقامی سطح پر حاصل ہوتے ہیں۔
۱) کھانا پکانے ، گرم کرنے اور روشنی کے بندوبست کے لیے توانائی کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بھارت کی دیہی آبادی کو روایتی ایندھن سے پاک صاف ستھری توانائی تک رسائی فراہم کریں۔ اس سے نہ صرف حرارت کی گرفت کرنے والی آلودگیوں کے اخراج میں کمی ہوگی بلکہ دہلی جیسے انتہائی آلودہ شہروں سمیت ملک بھر میں مجموعی طور پر فضائی آلودگی کو ایک تہائی تک کم کرنے میں مدد بھی ملے گی۔
۲) زرعی فضلے کو جلانا بند کریں۔ اس کے بجائے زرخیز مٹی کے لیے توانائی اورکھاد فیڈ اسٹاک کے لیے قابل تجدید بایو ماس ایندھن تیار کرنے کے لیے فصل کی باقیات کا استعمال کریں۔ اس پہل سے ایس ایل سی پیز کے اخراج میں کمی آئے گی اور نومبر اور دسمبر کے دوران شمالی اور وسطی بھارت میں آلودگی قریب قریب نصف تک کم ہوجائے گی۔
۳) ۲۰۳۰ءتک ڈیزل ایندھن کو مرحلہ وار ہٹائیں۔ ڈیزل جلنے سے پیدا ہونے والا ایک ٹن سیاہ کاربن کاجل ۲ہزار ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ جیسی حرارت پھیلانے کے بقدر اثر رکھتا ہے۔ مذکورہ چیزوں کو قومی سطح پر عملی جامہ پہنانے اور بقیہ جنوبی ایشیا میں ان کے نفاذ کو فروغ دینے سے بھارت ایک ملین سے زیادہ افراد کی قبل از وقت اموات کو روک سکتا ہے جس میں ایک لاکھ سے زیادہ شیر خوار بچوں کی اموات بھی شامل ہیں۔ اس سے ہمالیائی تودوں کے پگھلنے کی شرح میں قریب نصف کمی آ سکتی ہے۔ بھارت عالمی حدت میں کمی کے لیے اپنا کردارادا کرے یعنی سو ملین ٹن سے لے کر ۱۸سو ملین ٹن تک کاربن ڈائی آکسائڈ کے اخراج میں کمی کرے۔ اس کے علاوہ گندم کی پیداوار میں ۳۵فی صد اور چاول کی پیداوار میں ۱۰فی صد اضافہ کرے۔
۴) زمین کے بہتر بندوبست کے ذریعہ اور اضافہ شدہ موسم زدگی نامی ایک منفرد عمل کے توسط سے ہوا سے ماحولیاتی کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کی مٹی کی قدرتی صلاحیت کو تیز کریں۔ یہ دونوں اقدامات بھارت کی ہوا سے ۳۰۰ ملین ٹن سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ نکال سکتے ہیں اور اسے مٹی میں محفوظ رکھ سکتے ہیں ،اس طرح چاول اور گندم کی فصلوں کی پیداوار میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس سلسلے میں یونیورسٹی آف کیلیفورنیا اور کارنیل یونیورسٹی کے محققین کے کنزورٹیم کے ذریعہ پروفیسر بنجامن ہولٹن کی سربراہی میں اہم پروجیکٹ پر عمل درآمد جاری ہے۔
۵) جلد ہی بھارت اور تمام ممالک کو دوہری ذمہ داری نبھانی ہوگی جس میں شامل ہیں: الف) تیز رفتار والی حدت کے طریقے کو اپنانا اور ب) فضائی آلودگی کا باعث بننے والی آلودگیوں کے اخراج کو کم کرنا۔ ان میں آلودگی پھیلانے والی اور حدت کی گرفت کرنے والی گیس شامل ہیں۔ یہ دوہری ذمہ داری انجام دی جا سکتی ہے اور دی جائے گی ، کیونکہ ایسا نہیں ہونے کی صورت میں ہماری بقا کو خطرہ لاحق ہے۔ ہائی اسکول اور کالج کے طلبہ کو تعلیم دینے کے لیے آب و ہوا سے متعلق بڑے پیمانے والا ایک تعلیمی پروگرام بھی بہت اہم ہے۔ ہم نے کیلیفورنیا یونیورسٹی میں اس طرح کا ایک ایجوکیشن پروٹوکول تیار کیا ہے جسے بھارتی طلبہ کے لیے موزوں بنایا جاسکتا ہے۔
بھارت دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں جدید اور قابل تجدید توانائی کی وزارت موجود ہے۔ یہ منفرد وزارت ، اگر اس وزارت کے ساتھ تال میل قائم کر سکے جو فضائی آلودگی کی ضابطہ بندی ، اقوام متحدہ کے آب و ہوا اور صاف ہوا اتحاد ، امریکہ۔ بھارت آب و ہوا اور صاف توانائی ایجنڈا ۲۰۳۰ کی شراکت داری کی نگرانی کرے اوربڑے بھارتی فاونڈیشن کے ساتھ سرکاری۔ نجی شراکت داری کرسکےتو پوری انسانیت کی خاطراس کے وجود کو دررپیش خطرے کو روکنے کے لیے بھارت کو عالمی رہنما وں کی صف میں لا کھڑا کیا جا سکتا ہے۔
ویر بھدرن راما ناتھن سان ڈیاگو میں واقع یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں ایڈوارڈ فرائیمین پریزیڈینشیل پروفیسر آف کلائیمیٹ سسٹین ابیلیٹی ہیں۔ ان کی حالیہ کتابوں میں ”آلودگی میں تخفیف :موسمیاتی تبدیلی سے متعلق حل“ اور ”عوامی صحت، کرہ ارض کی صحت اور ہماری ذمہ داری“ شامل ہیں۔
تبصرہ