سابق طلبہ کے انٹرویو امریکی یونیورسٹی کے داخلہ جاتی عمل کا ایک اہم حصہ ہیں ۔ ان سے کسی ادارے کے لیے صحیح امیدوار کی تلاش میں بھی مدد ملتی ہے ۔
July 2019
ایم آئی ٹی کے فارغ التحصیل انٹرویووَر اور نئی دہلی کے امریکی سفارت خانہ کے شعبہ عوامی امور میں ثقافتی امور کے معاون افسر یوجین بے۔تصویر از ہیمنت بھٹناگر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکی یونیورسٹیوں میں داخلہ جاتی عمل کافی سخت ہے، نہ صرف خواہش مند طلبہ کے لیے بلکہ اداروں کے لیے بھی۔ ہر سال درخواست دہندگان کی بڑی اور بڑھتی تعداد کو دیکھتے ہوئے داخلہ جاتی عمل سے منسلک افسران کو تمام درخواست دہندگان سے ملنا اور ان کا جائزہ لینا مشکل ہوتا ہے۔ لیکن اداروں کے پاس سابق طلبہ کا ایک وفادار گروپ ہوتا ہے جو خواہش مند طلبہ سے ملاقات کرکے بخوشی اس دشوار گزار عمل کا حصہ بن جاتا ہے۔
ایسے ہی ایک طالب علم یوجین بے ہیں جنہیں انٹرویو کرنے کا قریب قریب ایک دہائی طویل تجربہ ہے ۔ انہوں نے مساچیوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) سے نیوکلیائی انجینئرنگ میں ڈاکٹریٹ کے ساتھ تکنیک اور پالیسی میں ماسٹر ڈگری لی۔ فی الحال وہ نئی دہلی کے امریکی سفارت خانہ کے عوامی امور کے سیکشن میں ثقافتی امور کے معاون افسر کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ پیش ہیں ان سے انٹرویوکے اقتباسات۔
کیا آپ ہمیں ایم آئی ٹی کے ایک سابق انٹرویووَر کی حیثیت سے اپنے رول کے بارے میں بتا سکتے ہیں؟
میں نے ایم آئی ٹی میں جو شاندار تعلیم حاصل کی ہے اس کی وجہ سے میں اس ادارے کو بدلے میں کچھ دینے کے طریقے تلاش کر رہا تھا۔ ان میں سے ایک طریقہ یہ تھا کہ میں تعلیمی مشیر کی حیثیت سے اس سے وابستگی اختیار کرلوں ۔ تعلیمی مشیر سابق طلبہ کے عالمی نیٹ ورک کا حصہ ہوتے ہیں جو درخواستوں کے جائزے میں ایم آئی ٹی داخلہ دفتر کی مدد کرتے ہیں ۔ میں قریب قریب ۱۰ برس سے یہ کام کررہا ہوں ۔ میں نے بیجنگ میں اس کی شروعات کی ، کوریا میں اسے جاری رکھا اور اب بھارت میں بھی یہی کرنے کا خواہش مند ہوں۔
تعلیمی مشیر کا کا م انڈر گریجویٹ داخلہ جاتی عمل پر مرکوز ہے۔ طلبہ کے درخواست پیکج میں عام طور پر ہائی اسکول سے ان کی تحریری یا ریکارڈ کی ہوئی نقول ، ان کے معیاری ٹیسٹ اسکور، سفارشی خطوط ، ایوارڈس اور منظوریاں وغیر ہ شامل ہوتی ہیں ۔ یہ تمام چیزیں بہت مقداری اور توضیحی نوعیت کی ہوتی ہیں مگر جیسا کہ ایم آئی ٹی اور کئی دیگر ادارے سمجھتے ہیں ، ایک طرح کا ذاتی ربط و تعلق یہ اندازہ کرنے کے لیے اہم ہے کہ طالب علم ادارے کے لیے موزوں ہوگا یا نہیں۔ ادارے خواہش مند طلبہ سے رابطہ کرنے کے لیے دنیا بھر میں موجود اپنے سابق طلبہ کے نیٹ ورک کا استعمال کرتے ہیں ۔ سابق طلبہ خواہش مند طلبہ کو بتاتے ہیں کہ کوئی مخصوص ادارہ کتنا عظیم ہے ۔ وہ اس بارے میں اپنے تجربات شیئر کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے زمانے میں کیا کیا اور سوالات کا جواب دیتے ہیں جس سے خواہش مند طلبہ کو یہ طے کرنے میں مدد ملتی ہے کہ کیا کوئی مخصوص ادارہ ان کے لیے واقعی موزوں ہے۔ سابق طلبہ کے انٹرویو کسی طالب علم کے پس منظر ، اس کی دلچسپی ، جنون اور اس کی ترغیبی سطح سے متعلق کچھ اضافی امکانات حاصل کرنے کا ایک راستہ فراہم کرتے ہیں ۔
وہ بعض کیا خصوصیات ہیں جنہیں انٹرویو کرنے والے ممکنہ امیدواروں میں دیکھنا پسند کرتے ہیں ؟
میرا خیال ہے کہ ہرتعلیمی ادارے کا اپنا ایک معیار اور طلبہ کا جائزہ لینے کا اپنا طریقہ ہوتا ہے۔ یونیورسٹیاں عام طور پر ایسے امیدواروں کو تلاش کرتی ہیں جو دانشوری کے لحاظ سے پُرجوش ہوں، خود سے پہل کرنے والے ہوں، دانش مندی کے اعتبار سے متجسس ہوں۔ کوئی ایسا شخص جس نے بالغ نظری کا مظاہرہ کیا ہو، اچھی طرح سے بات کرتا ہو، لفظی طور پر اور زبانی طور پر…کوئی ایسا شخص جو مختلف تعلیمی موضوعات میں مضبوط ہو۔
جیسا کہ کہا گیا، میں ان طلبہ کی تلاش میں رہتا ہوں جنہوں نے یہ ظاہر کیا ہے کہ ان کے پاس مطالعہ کے میدان کے لیے جس میں ان کی دلچسپی ہے، بہت زیادہ جنون ہے۔ مجھے یہ جاننے میں دلچسپی ہے کہ ان کی کسی مخصوص میدان میں دلچسپی کیسے پیدا ہوئی اورانہوں نے اپنے جنون کے مظاہرے کے لیے ایسا کیا کیا ہے جو مجھے ’یہ پسند ہے‘ جیسے کسی عام جملے سے بالاتر ہے۔
دوسری چیز جو ہم دیکھتے ہیں وہ ایسے طلبہ ہیں جو ادارہ کے لیے اچھے ہیں، آسانی سے گھل مل جاتے ہیں۔ ہم کبھی کبھی کسی ایسے شخص کی تلاش میں رہتے ہیں جس کی خوبی ناقابل بیان اور ناقابل فہم ہوتی ہے،وہ ذہین ہوتا ہے۔ جب آپ کسی سے ملتے ہیں تو اس سے بات چیت کے محض پانچ منٹ کے اندر ہی آپ اس کی دانش مندی اور جوش وجذبہ دیکھ کر حیرت میں پڑ جاتے ہیں۔ آپ محسوس کرتے ہیں کہ یہ شخص میرے مادر علمی میں بڑے پیمانہ پر اپنی شراکت داری نبھائے گا۔
تعلیمی مشیروں کو مثالوں اور کہانیوں کے ذریعہ ان صفات کو بیان کرنے کی ضرورت ہے۔ میں طلبہ کو جاننے کے لیے انٹرویو کے طریقہ کار کا استعمال کرتا کہ وہ آج جیسے ہیں ، ویسے کیوں ہیں؟ ان کے مفادات کی تشکیل کس نے کی ؟اس کی زندگی کے واقعات کیا ہیں؟ مطالعہ کے ایک خصوصی شعبہ کو اختیار کرنے کے لیے کس چیز نے ان کی حوصلہ افزائی کی؟ میرے کچھ سوالات ہیں جو میں پوچھتا ہوں۔ لیکن بات چیت حقیقت میں اس سمت میں چلی جاتی ہے جہاں طلبہ اسے لے جاناچاہتے ہیں۔ میں توصرف اس عمل کا حصہ بن جاتا ہوں، اور ساتھ ساتھ چلتا ہوں۔
کیا ایک کامیاب انٹرویو کے لیے آپ کے پاس کوئی مشورہ ہے؟
پہلی بات تو یہ کہ تیاری کریں۔ میرا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ ایک آئینے میں دیکھیں اور لائنیں پڑھیں۔ اس چیز سے آپ کا انٹرویو کرنے والے پر بہت کچھ واضح ہو جاتا ہے۔ میرا مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ سے کچھ سنجیدہ سوالات پوچھنے کے لیے کچھ وقت گزاریں۔ جیسے یہ کہ میں اس ادارے میں کیوں جانا چاہتا ہوں؟ ایسا کیا ہے جو میرے اندر اس اسکول کے تئیں دلچسپی پیدا کرتاہے۔ اگر مجھے وہ موقع دیا گیا تو میں کیا کروں گا؟ کیا کئی دیگر عظیم یونیورسٹیوں کے مقابلہ میں اس ادارہ کے بارے میں کچھ خاص ہے؟
دوسری بات جو میں کہنا چاہوں گا وہ یہ کہ طلبہ کو خود کے ساتھ ایماندار ہونا چاہیے۔ جب کوئی شخص کسی ایسی چیز کے بارے میں بات کرنا شروع کرتاہے جس کے بارے میں وہ پوری طرح سے جذباتی ہوتا ہے تو آپ کو اس بارے میں بات کرنے کے لیے اسے اکسانا نہیں پڑتا ۔ حقیقی دلچسپی اور جنون کا پتہ اس شخص سے بات چیت کے دوران ہی چل جاتا ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ آپ کو ادارے کے بارے میں سب کچھ جاننا ہو گا۔ میں یہ سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں کہ کیا کسی طالب علم میں کسی چیز کے بارے میں گہرا جنون ہے، چاہے وہ سماجی، معاشی، سیاسی، مذہبی، تعلیمی یا سائنسی موضوعات سے ہو۔ہم سمجھنا چاہتے ہیں کہ وہ جنون کیا ہے۔ اور یہ کہ آپ کے بارے میں ایسا کیا ہے جو منفرد یا مختلف ہے۔
اس کے علاوہ انٹرویو کے لیے وقت پر پہنچیں، قابل احترام بنیںاور انٹرویو کے لیے مناسب کپڑے زیب تن کریں۔ اور آخر میں، اور یہ سب سے مشکل حصہ ہے کہ مذاق کرنے کی کوشش کریں۔ مجھے پتہ ہے کہ درخواست دینے کا عمل تناؤ سے بھرا ایک وقت ہے اور ایک سابق طلبہ کے ساتھ انٹرویو کے لیے فون کال کا وصول ہونا بھی جذباتی معلوم پڑ سکتا ہے۔ لیکن آپ فوراً وہاں جائیں،اچھی طرح انٹرویو دیں اور ان مراحل سے لطف اندوز ہوں۔
تبصرہ