مقصد کے پیش نظر کام

فلبرائٹ ۔ نہرو ریسرچ اسکالر الیکزینڈر او نیل نےبھارت میں ماحولیاتی تحفظ کی کاوشوں کی مدد کرنے کا کام کیا ہے۔

سُپرنا مکھرجی

May 2019

مقصد کے پیش نظر کام

 

فُلبرائٹ ۔ نہرو ریسرچ اِسکالر الیکزینڈراو نیل نے انڈیا میں ماحولیاتی تحفظ کے لیے کی جار رہی کوششوں میں مدد پہنچانے کا کام کیا ہے۔

تصویر بشکریہ الیکزینڈر او نیل

امریکی وزارتِ خارجہ کا فُلبرائٹ پروگرام شرکاء کو بہت سے عصری چیلنج(جن میں معاشی ترقی سے لے کر ماحولیاتی پائداری شامل ہے)کا سامنا کرنے کے لیے تیا ر کرتا ہے۔اس پروگرام کا ۲۰۱۵ ء میں حصہ رہے  یو ایس فُلبرائٹ ۔ نہرو اسٹوڈنٹ ریسرچرالیکزینڈر او نیل فی الحال شمالی کیرولینا میں واقع ڈیوک یونیورسٹی میں انوائرونمینٹل مینجمینٹ اور  فاریسٹری سائنس کے گریجویٹ طالب علم ہیں۔ فُلبرائٹ ۔ نہرو ریسرچ اسالر کے طور پر انہوں نے انڈیا میں سکم ایسٹرن ہمالیاز میں حیاتیاتی ثقافتی تنوع کو دستاویزی شکل میں تیار کرنے کی کاوش میں مدد کی ہے۔ راجستھان کے قدرتی مناظر کو بحال کرنے اور طبی درختوں کے تحفظ کے لیے جاگرن جن وکاس سمیتی کی کاوشوں کی مدد کے لیے انہیں میری لینڈ یونیورسٹی کی  کالج پارک اِسکالرس کو۔کریکولر اسکالر شپ سے نوازا گیا ۔پیش ہیں ان سے انٹرویو کے اقتباسات۔

 اپنے بارے میں اور اپنے تعلیمی پس منظرکے متعلق کچھ بتائیں۔

میں ڈیوک ماسٹرس آف اِنوائرونمینٹل مینجمنٹ اور ماسٹرآف فاریسٹری ہوں اور میری دلچسپی سائنسی سفارت کاری میں ہے۔میری پرورش واشنگٹن ڈی۔سی میں ہوئی جہاں میں راک کریک پارک میں گھوما کرتا اور جھینگا مچھلی پکڑتا ، قلعے بناتا اور نباتاتی عجائبات جمع کرتا۔ واشنگٹن ڈی۔سی ایک نہایت ہی متنوع مقام ہے۔محض یہاں رہنے سے ہی میں ماحولیاتی رشتہ سے متعارف ہوا کہ لوگ کرۂ ارض سے اپنے تعلق کو کس طرح دیکھتے ہیں ۔ جارج ٹائون یونی ورسٹی میں جب میں انڈرگریجویٹ طالب علم تھا تو اس وقت مجھے ان رشتوں کو بہت باریکی سے سمجھنے کا موقع ملا۔ کنزرویشن جنیٹِکس سے مجھے علم ہوا کہ ماحول کا جینیات پر کیا اثر پڑتا ہے اورماحول جینیات کے اظہار پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے۔ اسی دوران میں انوارونمینٹل ہیومینٹیزسے بھی متعارف ہوا ۔ یہی چیز میرے کریئر کا محور ثابت ہوئی۔ مجھے محسوس ہونے لگا کہ تحفظ کی کاوشیں انسانوں سے بعید نہیں ہیں ۔ یعنی قدرتی نظام بغیر انسانی شمولیت کے بہتر نہیں ہو سکتے۔ ڈیوک یونی ورسٹی میں دوہرے ماسٹرس سے میں نے اپنی ماحولیاتی انتظام کی تفہیم کو عملی صورت دی ۔ میں امید کرتا ہوں کہ ایک دن امریکی وزارتِ خارجہ کی مدد سے سائنس کو پالیسی میں تبدیل کیا جاسکے گا۔

آپ کے خیال میں اس وقت دنیا کو کون سے ماحولیاتی خطرات درپیش ہیں؟ اور ان سے نمٹنے کے لیے کار آمد حکمت عملی کیا ہے؟

 جنگلات کی اندھا دھن کٹائی،بڑھتی ہوئی آبادی، ماحولیاتی تبدیلی، حیاتیاتی تنوع میں کمی اور آلودگی کثیر تعداد میں خبروں کی سرخیاں بنتی ہیں۔ان کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے اور ان کا کوئی فوری حل بھی نہیں ہے۔ میرے نزدیک پائدار مستقبل کے لیے بہت بڑا چیلنج ماحولیات سے تعلق قائم رکھنا ہے۔زمین پر آبادی کا پھیلاؤ بڑھ رہا ہے۔ لوگ شہروں کا رخ زیادہ کر رہے ہیں۔ ہم تکنیک کے غلام ہوتے جار ہے ہیں ۔ ان اسباب کی وجہ سے ہم قدرت سے دور ہوتے جار ہے ہیں ۔ جب تک ہمارا تعلق فطری نظام کے ساتھ گہرا نہیں ہوگا اس وقت تک ہمارے قائد ماحولیاتی پالیسی کے متعلق کیسے صحیح سے بتا پائیں گے؟

اس کا حل میرے نزدیک جنگلات کا تحفظ اور ان کی تنظیم ہے۔ جنگلات حیاتیاتی تنوع کے بنیادی ذخائرہیں۔ مگر تبدیل ہوتے ماحولیاتی نظام میں جنگلات کاربن کو علاحدہ کرنے میں ، آبی ذخائر کو برقرار رکھنے کے لیے اور قابل تجدید وسائل کو پورا کرنے کے لیے نہایت ضروری ہیں۔

 امریکی وزارتِ خارجہ میں بحیثیت اِنٹرن کام کرنے کے تجربہ کے بارے میں کچھ بتائیے۔

کیا ہی شاندار موقع تھا! ۲۰۱۸ء کی گرمیوں میں مجھے ایڈنا بیلی سوسمان فائونڈیشنکی جانب سے امریکی وزارتِ خارجہ کے  بیورو آف اوشنس اینڈ اِنٹرنیشنل سائنٹفک افئیرس میں کام کرنے کے لیے گریجویٹ اِسکالرشپ ملی۔وہاں میں نے  آفس آف اِنوائرونمینٹل اینڈ ٹرانس باؤنڈری اشوز میں کام کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ ماحولیاتی پروگرام گلوبل انوائرونمینٹل آؤٹ لُک ۶ (جی ای او ۶)رپورٹ تیار کرنے میں تعاون کیا۔ یہ رپورٹ دراصل ایک آزادارانہ جائزہ ہوتا ہے

 جس میں ماحولیات کی حالت اور پالیسی رسپانس کا جائزہ لیا جاتا ہے تاکہ عالمی تبدیلی پر کام کیا جا سکے۔میں نے عالمی ماحولیاتی سہولیات سے متعلق تجاویز بنانے میں مدد کی ۔ ان تجاویز میں جنوبی اور وسطی ایشیا ئی ممالک میں چل رہے پروگراموں پر توجہ دی گئی تھی۔

آپ ۱۶۔۲۰۱۵ء میں فُلبرائٹ ۔نہرو اسکالر تھے۔ اس فیلو شپ کے تحت آپ نے کس پروجیکٹ پر کام کیا ؟

فُلبرائٹ ۔نہرو اسکالر کے طور پر میں نے سکم میں حیاتیاتی اور ماحولیاتی تنوع کا مطالعہ کیا۔ میری توجہ کا مرکز مقدس مرطوب ارضیات تھیں اورمیری دلچسپی یہ بات جاننے میں تھی لوگ ماحولیاتی تبدیلی کو کس طرح دیکھتے اور اس کا سامناکس طرح کرتے ہیں۔اس پروگرام کے تحت میں نے اس امر پر بھی تحقیق کی کہ سکم کے لوگ جنگل کی لکڑی کے علاوہ دوسری اشیاء کا کھانے اور دوائوں میں کس طرح استعمال کرتے ہیں۔ہماری ٹیم نے پایا کہ گیارہ سو سے زائد اقسام کا استعمال ہوتا ہے اور ان میں کثیر تعداد ان کی ہے جو محفوظ علاقوں میں نہیں پائی جاتیں۔

حیاتیاتی۔ ثقافتی ادب نے پائدار ترقی اور ماحولیاتی تحفظ میں کس طرح مدد کی؟

سائنسدانوں کوماحولیاتی وسائل کا تحفظ کرنے کے لیے ثقافتی نظاموں کے تحت کام کرنا چاہئے،خاص کر جنوبی اور وسطی ایشیا جیسے علاقوں میں۔ ایسے ادب سے ہمیں اس بات کا بنیادی اندازہ ہوتا ہے کہ لوگ اپنے آپ کو ماحولیات کے تناظر میں کہاں دیکھتے ہیں۔ وہ روایتی معلومات پر انحصار کرتے ہیں جو پائدار نتائج کے لیے بے حد ضروری ہیں۔

بوٹینکل سروے آف انڈیا کے شمالی ہمالیائی خطے میں آرچڈ کے تحفظ کے سلسلے میں کی جارہی کاوشوں کے بارے میں بتائیں۔ 

بین الاقوامی یونین برائے تحفظ ِ قدرت میں میں نے کمیونٹی لیڈران اور جینیاتی ماہرین دونوں سے گفتگو کی تاکہ اِتھنو بوٹینکل پلانٹ(کسی مخصوص خطے میں پائے جانے والے مخصوص قسم کے پودوں اور ان کے استعمال کا مطالعہ)کے تحفظ کا اندازہ لگایا کیا جا سکے۔مجھے اندازہ ہو ا کہ کمیونٹی کا علم اور سائنس ایک دوسرے کے شانہ بہ شانہ چل سکتے ہیں اور پُر خطر اقسام کی سُرخ فہرست کے تحفظ میں بہت کار آمد ثابت ہو سکتے ہیں چوں کہ ان کا تعلق آرچڈ سے ہے ، لہٰذ ا  بوٹینکل سروے آف انڈیا  اور خاص کر سکم یونٹ میں ڈاکٹر ڈی کے اگروال ان اقدامات کی سربراہی کر رہے ہیں۔

راجستھان میں جاگرن جن وکاس سمیتی کے کام میں مدد کرنے کے لیے آپ کو کالج پارک اسکالرس کو کریکُلر اسکالر شپ بھی تفویض ہوئی۔ اس تنظیم کے ساتھ اپنے کام کے تعلق سے تفصیل سے بتائیں۔

جب میں نے راجستھان میں جاگرن جن سمیتی کے ساتھ کام کرنا شروع کیا تو پہلے پہل مجھے روایتی علم کے بارے میں معلومات ہوئیں۔’گنیوں کا خزانہ‘ پہل کے ذریعہ میں نے روایتی ڈاکٹروں کی بیجوں کا بینک قائم کرنے میں اور مقامی مسکن کو طبی درختوں کے استعمال کے ذریعہ بحال کرنے میں مدد کی۔ ہماری حکمت عملی یہ تھی کہ ہم کمیونٹی علم کو قدرتی مناظرکی بحالی سے جوڑ دیںتاکہ تھار صحرا میں حیاتیاتی اور ثقافتی تحفظ کو فروغ ملے۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے