نیسار ،ناسا اور اسرو کے مابین مشاہدۂ ارض پر مبنی ایک مشترکہ مشن ہے جس کا مقصد زمین کی سطح میں ہونے والی تبدیلیوں کی پیمائش،قدرتی خطرات اور عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کا مطالعہ کرنا ہے۔
September 2020
ناسا کے ارتھ سائنس ڈىوىزن کى ڈائرىکٹر کرىن اىم سىنٹ جرمىن کہتى ہىں “ناسا اور اسرو کے درمىان اشتراک کى اىک شاندار تارىخ ہے۔اس کے نقوش خلائى عہد کے اوّلىن دور مىں ملتے ہىں جب ۱۹۶۰ ءکے عشرے مىں ناسا نے اسرو کے پىش رو (ہندوستانى قومى کمىٹى برائے خلائى تحقىق) کے ساتھ اشتراک کىا تھا جس سےسائنسى تحقىق والے ہند کے آواز کرنے والے راکٹ چھوڑے گئے تھے۔تبھى سے ناسا اور اسرو نے بشمول چاند مہم کئى مىدانوں مىں اشتراک کىا ہے۔’’
نىساردو خلائى اىجنسىوں کے درمىان تعاون کا اگلا قدم ہے۔سىنٹ جرمىن بتاتى ہىں“گو کہ اکثر بىن الاقوامى سائنسى سرگرمىوں مىں جن مىں ناسا شرکت کرتى ہے ان مىں ىا تو کوئى سربراہ کى حىثىت سے شرکت کرتا ہے ىا معاون کى حىثىت سے۔ مگر نىسار اىک استثنىٰ ہے۔ ناسا اور اسرو اس مىں برابر کے شرىک ہىں اور اس مىں بڑى قرابت کے ساتھ کام کر رہے ہىں۔ دونوں اىجنسىوں کى اس شراکت مىں خاصى حصے دارى ہے۔ىوںبھى وسىع پىمانہ والا اور بے حد پىچىدہ کوئى پروجىکٹ (جس طور پر ىہ مشن آپس مىں اىک دوسرے سے جڑا ہوا ہے)اسى وقت کامىابى سے ہمکنار ہو سکتا ہے جب شرىک اىجنسىاں پورى طرح سے پروجىکٹ اور اىک دوسرے کے لىے پابند ہوں۔’’
ناسا مشن کے لىے اىل بىنڈمصنوعى شگاف والارڈار،سائنسى اعداد و شمار کے لىے بلند درجہ مواصلاتى ذىلى نظام، جى پى اىس رىسىورس، اىک سالڈ اسٹىٹ رىکارڈر اور پے لوڈ ڈىٹا ذىلى نظام فراہم کررہى ہے،جب کہ اسرو خلائى راکٹ بس، اىس بىنڈ رڈار، لانچ گاڑى اور متعلقہ لانچ خدمات فراہم کر رہاہے۔
اسرو کے نىسار پروجىکٹ کے ڈائرىکٹر وى راجو ساگى بتاتے ہىں کہ اس رڈار نظام مىں پورے سىارہ سے ہر موسم مىں رات دن کسى بھى وقت ڈىٹا حاصل کرسکنے کى صلاحىت ہے۔ اس سے سائنسدانوں کو ماحولىاتى تبدىلى کے اثرات اور ماحولىاتى نظام کے دىگر ہنگاموں کے ساتھ ساتھ قدرتى خطرات کى بہتر تفہىم مىں بھى آسانى ہوگى۔
سىنٹ جرمىن سے اتفاق رکھتے ہوئے ساگى کا کہنا ہے کہ ىہ اىک مثالى اشتراک ہے۔ وہ بتاتے ہىں”اس کے باوجود کہ دونوں ٹىمىں نصف دنىا کے فاصلہ پر واقع ہىں مگر پھر بھى بہت اچھے طرىقے سے اىک دوسرے کے ساتھ کام کر رہى ہىں۔اىک دوسرے کے ٹائم زون کے اعتبار سے خود کو ڈھال رہى ہىں اور اىک دوسرے کے ساتھ ہر دستىاب مواصلاتى ذرائع ابلاغ ، اى مىل ، فون اور انٹرنىٹ سے قرىب قرىب روزانہ ہى رابطے مىں ہىں۔ ٹىموں کے اراکىن کو ىہ خوش کن احساس ہے کہ اس پروجىکٹ پر کام دن رات ہو رہا ہے۔ جب اىک ٹىم سونے جاتى ہے تودسرى ٹىم دنىا کے دوسرے کونے پر کام کررہى ہوتى ہے۔اس کے علاوہ اسرو کے اہلکاروں اور ناسا کى جىٹ پروپلشن لىبارىٹرى کے عہدے داروں کے مابىن کبھى کبھى باالمشافہ مىٹنگ بھى ہوتى رہتى ہے ۔اس سے گرمجوشى برقرار رہتى ہے اور ٹىمىں اس کا اىک دوسرے سے اظہار بھى کرتى رہتى ہىں ۔’’
ناسا کے جے پى اىل مىں کىلىفورنىا مىں مقىم نىسار مشن کے پروجىکٹ سائنٹسٹ پَول اے روزىن کہتے ہىں“مجھے ذاتى طور پر اس رشتہ سے ناقابل بىان خوشى کا احساس ہو رہا ہے۔ىہ نہاىت بلند نظر مہم ہے۔ ىہ غالباََ ہند اور امرىکہ کے درمىان اب تک کا سب سے بڑا خلائى اشتراک ہے۔“
ىہ اشتراک گذشتہ اىک عشرے سے جارى ہے۔ جے پى اىل نے کئى ممالک کے ساتھ اشتراک کى راہىں تلاش کىں مگر بات کچھ خاص نہىں بنى۔روزىن بتاتے ہىں”پھرہند سے تعلق کى وجہ سے جے پى اىل مىں کام کر رہے ہمارے اىک منىجر نے کہاکہ کىوں نہ آپ وہاں جائىں او ر دىکھىں کہ آىا وہ اس مىں دلچسپى رکھتے ہىں؟ چنانچہ دسمبر ۲۰۱۱ ء مىں خود ہى پہلى بار ہندوستان آىااور اپنے مشن کے بارے مىں اىک پرىزنٹىشن دىا۔مجھے جواب ملا کہ ہم تو بجا طور پر ىہى چاہ رہے تھے۔ تمام امور کى تفصىلات پر کام کرتے کرتے ۲سے۳ برس کا عرصہ لگ گىا۔بالآخر صدر اوباما اور وزىر اعظم نرىندر مودى کے درمىان ملاقات کے دوران معاہدہ پر مہرِتصدىق ثبت ہوئى۔“
روزىن کہتے ہىں کہ سىارہ نظام کا ادراک نہاىت اہم ہے۔ وہ اپنى بات ىوں جارى رکھتے ہىں”ہم زمىن پر رہتے ہىں تو ىہ سمجھتے ہىں کہ ہمىں زمىن کے متعلق سارا علم ہے۔لىکن درحقىقت اىسا نہىں ہے۔نىسار ہمىں رڈار کى آنکھوں سے اىک انوکھا منظر پىش کرے گا جس سے حرکت کرتى ہوئى زمىن کى حرکت پذىر تصوىر کشى ممکن ہو سکے گى۔ ىہ چىز بہت ولولہ انگىز ہونے والى ہے۔ ىہ اپنى نوعىت کا اىسا پہلا مشن ہے جس سے معاشرے کو کئى فائدہ پہنچنے والا ہے۔“
ڈىٹا کومتواتر جمع کرنے سے سائنسدانوں کو بھى فائدہ ہوگا۔ہنگامى حالات مىں کام کرنے والے اورتمام متعلقہ افراداپنے پروجىکٹس کے لىے نىسار کے اعدادو شمار سے مستفىد ہو سکىں گے۔ روزىن کہتے ہىں ” اب تک کى اپنى تارىخ مىں ناسا نے اپنى تمام مشىنوں سے مجموعى طور پر اتنا ڈىٹا حاصل نہىں کىا ہوگا جتنے اعداد و شمار اکىلے نیىسار فراہم کرے گا۔“
حالاں کہ کورونا وائرس عالمى وبا کى وجہ سے اس سلسلے مىں ہونے والى پىش رفت مىں کچھ سست رفتارى واقع ہوئى ہے مگر روزىن اس کے مستقبل کو لے کر کافى پر امىد ہىں۔وہ کہتے ہىں”بدقسمتى سےکووِڈ -۱۹ کى وجہ سے کام متاثر ہوا ہے مگر ہم کافى طوىل عرصہ سے اس مشن کا انتظار کر رہے تھے، تو مزىد اىک اور سال لگنے سے اس کى اہمىت مىں کمى واقع نہىں ہوگى۔“
کىنڈِس ىاکونو جنوبى کىلىفورنىا مىں مقىم قلمکار ہىں جو جرائد اور روزناموں کے لىے لکھتى ہىں۔
تبصرہ