شہروں کے لیے یہ لازمی ہے کہ وہ حسب حال حکمت عملی اپنائیں جو مقامی ضرورتوں سے ہم آہنگ ہوں تاکہ موسمیاتی بحران سے نمٹا جا سکے۔
May 2021
عوامی نقل و حمل کے ذرائع ذاتی گاڑیوں میں کاربن کے کم اخراج والی گیسوں کے متبادل کا استعمال کرکے ماحولیات مضر گیسوں کے اخراج کو کم کر سکتے ہیں ۔ تصویر بشکریہ راجیش کمار سنگھ ©اے پی امیجیز
اگرچہ شہر کرہٴ ارض کے صرف دو فی صد حصے پر قائم ہیں مگر ان میں مقیم باشندے دنیا کی دو تہائی سے زیادہ توانائی کا استعمال کر تے ہیں اور شہر کاربن ڈائی آکسائڈ کے ۷۰ فی صد سے زیادہ اخراج کے لیے ذمہ دار ہیں۔ یہ بات سی ۴۰ سٹیز کلائیمیٹ لیڈرشپ گروپ کے حوالے سے سامنے آئی ہے جو دنیا بھر کے ۹۷بڑے شہروں ( اس میں پانچ بھارتی شہر بھی شامل ہیں) کا ایک گروپ ہے اور جس کا صدر دفتر نیویارک میں ہے۔ یہ گروپ آب وہوا کی تبدیلیوں پر پائیدار کارروائی کی حمایت کرتا ہے۔
جیسے جیسے آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا ہے، بڑے شہروں کی گھنی آبادی والے علاقوں کا دوسرے علاقوں کے مقابلے زیادہ متاثر ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔ مزید برآں، چونکہ دنیا کے بہت سارے بڑے شہر سرساحل واقع ہیں، اس لیے شہری علاقوں کو بڑھتی ہوئی سمندری سطحوں اور تباہ کن ساحلی طوفانوں کے زبردست خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو کہ دونوں آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات کا نتیجہ ہیں۔ برکلے میں واقع کیلیفورنیا یونیورسٹی میں شہری خاکہ کشی میں فل برائٹ۔ نہرو ماسٹر فیلو اور ورلڈ ریسورسیز انسٹی ٹیوٹ انڈیا میں پائیدار شہروں: شہری نقل وحمل اور سڑک تحفظ پروگرام میں منیجر روہت وجے تاک کہتے ہیں ’’ شہر نہ صرف آب و ہوا کی تبدیلی کی بنیادی وجہ ہیں بلکہ وہ سب سے زیادہ متاثر بھی ہیں۔‘‘
تاک مزید کہتے ہیں ’’حالاں کہ نئے شہروں کی منصوبہ بندی موسمیاتی تبدیلیوں کے پیش نظر کی جا سکتی ہے مگر یہ دھیان رکھنا ہوگا کہ آباد شہروں میں ہی چیلیجز زیادہ پیچیدہ ہیں۔ دنیا کی نصف سے زیادہ آبادی ایسے شہری علاقوں میں رہتی ہے جو کاربن ڈائی آکسائڈ کے قریب قریب ۷۵ فی صد اخراج کے ذمہ دار ہیں۔ اس چیلنج کو کم کرنے کے لیے شہروں کو توانائی کی طلب کو کم کرنے، سبز توانائی کے متبادل تیار کرنے اور مزید پائیدار طرز زندگی کی حمایت کرتے ہوئے ماحولیات مخالف گیسوں کے اخراج کو محدود کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
کولمبیا یونیورسیٹی میں پوسٹ ڈوکٹورل فل برائٹ۔ نہرو انوائرونمنٹ لیڈرشپ فیلو شالنی شرما، جو اب حیدرآباد میں سنشودھن ای۔ ویسٹ ایکسچینج میں سی ای او ہیں، کہتی ہیں کہ ایسی پالیسیاں جن کا ہدف مخصوص صنعتیں ہیں کافی مؤثر ثابت ہوئی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’’بھارت میں حکومت نے یہ ہدایت جاری کی ہے کہ تعمیراتی شعبہ کم از کم ۳۰ فی صد قابل تجدید توانائی استعمال کرے۔ یہ ایک عمدہ حکمت عملی رہی ہے، کیوں کہ اس کی وجہ سے اس شعبے سے ۳۰فی صد ماحولیات مخالف گیسوں کے اخراج کو کم کیا جاسکتا ہے۔‘‘
جب کہ تاک کا کہنا ہے کہ شہروں کو بھی اس حقیقت کے پیش نظر کہ موسمیاتی تبدیلی رونما ہو چکی ہے، اس کے اعتبار سے حکمت عملی وضع کرنی ہوگی۔ وہ کہتے ہیں’’ موجودہ یا متوقع ماحولیاتی تبدیلیوں سے بہتر طور پر نمٹنے کی غرض سے شہروں کو تیار کرنے کے لیے حالات کے مطابق حکمت عملیوں کو نافذ کرنا ضروری ہے جو کسی جگہ کے لیے مخصوص ہوں اور جو مقامی حالات سے نمٹ سکیں۔ حالات کے مطابق حکمت عملیاں شہروں کو ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کے اعتبار سے موافق بنانے میں معاون ہوتی ہیں اور اس طرح ان کی شدت اور سنگینی کو محدود کیا جا سکتا ہے۔‘‘
شرما کہتی ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے شہر حالات کے مطابق بہت سی حکمت عملیوں کو اختیار کرسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر’’شہر قابل تجدید توانائی کا استعمال کر سکتے ہیں، عمارتوں کی تجدیدکاری کر سکتے ہیں، سی این جی اورحیاتیاتی ایندھنوں کا استعمال کرسکتے ہیں، عوامی نقل وحمل کے استعمال میں اضافہ کرسکتے ہیں، فضلہ کے شعبے سے اخراج کو کم کرسکتے ہیں، شہر بھر میں شہریوں کے لیے آن لائن خدمات کا قیام کرسکتے ہیں اور شہری جنگلات کو ترقی دینےکے علاوہ آکسیجن پارکوں اور ٹھنڈی چھتوں کا منصوبہ بناسکتے ہیں۔ صنعتوں سے اخراج کو ختم کر سکتے ہیں اور دیگر چیزوں کے علاوہ اشیاء اور خدمات کی فراہمی کے عمل میں ہونے والے کاربن کے اخراج کو بھی کم کرنے پر توجہ دے سکتے ہیں۔ ‘‘
ہمارے پاس برباد کرنے کے لیے وقت نہیں ہے کیوں کہ سی ۴۰نیٹ ورک کی رپورٹ میں ۷۰فی صد شہر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو پہلے سے ہی محسوس کر رہے ہیں۔ بہت سارے ماہرین کا خیال ہے کہ اگر درجہ حرارت کو۲ ڈگری سیلسیس سے کم سطح پر محدود کرنا ہے تو مضر گیسوں کے اخراج کو ڈرامائی انداز میں کم کرنا ہوگا ۔ یہ وہ ہدف ہے جسے ۲۰۱۶ء کے پیرس معاہدے میں طے کیا گیا ، جس میں موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے اور اس کے اثرات کو اپنانے کے لیے ۱۹۰سے زائد ممالک کے وعدے بھی شامل ہیں۔
اگرچہ آب و ہوا کی تبدیلی ایک عالمی ظاہرہ ہے، لیکن تاک اور دیگر ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ شہر کی حکومت کی سطح پر عالمی حدت سے نمٹنے کے مواقع سب سے زیادہ ہوسکتے ہیں۔ مقامی حکومتوں کے اکثر اپنے کاروباروں، رہائشیوں اور اداروں کے ساتھ قریبی تعلقات ہوتے ہیں جس سے نئی پالیسیوں کو زیادہ تیزی سے اور فیصلہ کن طریقے سے نافذ کیا جاسکتا ہے۔
تاک کا خیال ہے’’ نچلی سطح سے اوپر کی جانب کام کرنے کے طریق کار پر عمل آوری کی ضرورت ہے۔ چونکہ ماحولیات کے لیے مضر گیسوں کا اخراج کچھ خاص شہروں میں مرکوز ہوتا ہے، لہذا ہاٹ اسپاٹ کی حیثیت سے ان کے ساتھ برتاؤ کرنے اور تخفیف کی پالیسیاں نافذ کرنے سے تبدیلی کا مظاہرہ کرنے، نگرانی اور اندازہ لگانے میں بہت بڑا فرق پیدا ہو سکتا ہے جو علاقائی اور قومی سطح پر حکومتوں کی ان کی کوششوں کو موثر انداز میں انجام دینے میں رہنمائی کرسکتا ہے۔‘‘
تاک اور شرما اس بات پر متفق ہیں کہ انتہائی سخت موسم کے حالیہ واقعات سے آب و ہوا کی تبدیلی کا اعتراف کرنے میں تیزی آئی ہے اور اخراج کے بندوبست کے لیے نئی راہ اپنانے کی ضرورت کو تسلیم کیا جانے لگاہے۔ تاک کے بقول ’’ فوری خطرات کے مقابلہ میں آب و ہوا میں تبدیلی اکثر بڑے پیمانے پر ہوتی ہے اوریہ سست عمل ہوتا ہے۔ تاہم، سیلاب، مٹی کے تودے گرنے اور انتہائی گرمی جیسے شدید موسمی واقعات کی کثرت اور ان کے تباہ کن اثرات نے آگاہی میں اضافہ کیا ہے اور ترقی پذیر دنیا کے ساتھ ساتھ ترقی یافتہ دنیا کے سائنسدانوں اور حکومتوں کو موسمیاتی ہنگامی صورتحال کا اعلان کرنے اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے بارے میں آگاہی بڑھانے پر مجبور کردیا ہے۔‘‘
حالاں کہ عالمی حدت کے چیلنجز پریشان کن معلوم ہوسکتے ہیں، لیکن تاک کا ماننا ہے کہ مسئلے کی جڑ اور اس کا حل دونوں ایک ہی جگہ ہیں جو رجائیت پسندی کے متقاضی ہیں۔ ان کے بقول ’’موسمیاتی تبدیلی زیادہ تر انسانی وجہ سے ماحولیات مخالف گیسوں کے اخراج کا نتیجہ ہے اور انسانی طرز عمل کو متاثر کرنے سے اس کو کم کیا جاسکتا ہے۔‘‘
اسٹیو فاکس کیلیفورنیا کے وِنچورا میں مقیم ایک آزاد پیشہ قلمکار،ایک اخبار کے سابق ناشر اور نامہ نگارہیں۔
تبصرہ