بین الاقوامی طلبہ کو ایک ایسی نئی دنیا میں تلاش وجستجو انجام دینی ہو گی جس کا تعین صحت عامہ کے تشویشات، سماجی طور پر فاصلہ برقرار رکھنے اور رکاوٹوں کے زیر سایہ کیا جائے گا۔
July 2020
ہیورفورڈ کالج جیسے اداروں کے لیے مقصد پہلے جیسا ہی ہے یعنی دانشورانہ طور پر متجسس طلبہ کے ساتھ رابطہ،طبقات کی فکر کرنے والے نوجوان اور ان جیسے لوگوں کو ہیورفورڈ جیسے اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع فراہم کرنا۔ تصاویر بشکریہ پیٹرک مونٹیرو/ہیورفورڈ کالج
کورونا وائرس وبائی مرض نے کالج داخلوں کی دنیا سمیت سب کچھ بدل ڈالاہے۔ ایسے میں یہ سوال اہم ہے کہ عالمی معیار کے امریکی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کی خواہش رکھنے والے طلبہ کا مستقبل کیا ہو گا؟
امریکی یونیورسٹیوں کے داخلہ افسران جانتے ہیں کہ وبائی مرض کس طرح ڈرامائی انداز میں آرزومند طلبہ کی زندگیوں پر اثر انداز ہورہا ہے۔ لہٰذا ان اداروں میں داخلے کے لیے ذمہ دار ٹیمیں درخواست دہندگان کی عرضیوں کی نہ صرف ان کے اسکولوں، ان کی برادریوں اور مجموعی طور پر درخواستوں کے تناظر میں، بلکہ معاشرے کو لرزا دینے والے دنیا بھر میں ہونے والے واقعات کے تناظر میں بھی جانچ کرتی ہیں۔
امریکی ریاست پین سلوانیا کے ہَیورفورڈ کالج میں بین الاقوامی داخلوں کی ڈائریکٹر اور داخلوں کی سینئر ایسو سی ایٹ ڈائریکٹر کیتھلین ابیلس کہتی ہیں ”کورونا نے داخلے کے لیے زیر غور لائے جانے والے بعض نئے زاویوں کا اضافہ کیا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ کورونا وبا کے نتیجے میں دنیا بھر کے بہت سارے طلبہ کی اسکولی تعلیم میں خلل پڑا ہے۔ ہم ان معلومات کا استعمال کریں گے جنہیں طلبہ اور ان کے اسکول مخصوص اسکولوں اور طبقات میں کورونا کے مقامی اثرات کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے فراہم کریں گے۔‘‘
اس اہم پس منظر کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے ابیلس خاص طور پر اس کا ذکر کرتی ہیں کہ طلبہ صرف اس پر دھیان نہ دیں کہ انہوں نے کیاکیا ہے، بلکہ انہیں کو اپنی حصولیابیوں کا جواز بھی پیش کرنا ہوگا۔ وہ کہتی ہیں ”ہم جانتے ہیں کہ بہت سارے طلبہ کے گرمیوں کے منصوبے جیسے ملازمت، انٹرن شپ، سمر کورسز اور سفر کورونا کے سبب منسوخ یا ملتوی کر دیے گئے۔میں طلبہ سے یہ غور کرنے کو کہوں گی کہ جن تجربات سے وہ گزرے وہ کیسے تھے اور وہ کیسے اپنا وقت گزارنا چاہتے تھے۔ خیال رہے کہ طلبہ کو کسی مخصوص تجربے کی بنیاد پر ہیور فورڈ میں داخلہ نہیں دیا جاتا بلکہ ان کے تجربات سے متعلق احساسات اور دنیا میں ان کے مقام کی وجہ سے دیا جاتا ہے۔ دروں بینی اسی لیے اس عمل میں از حد اہمیت کی حامل چیز ہے۔‘‘
وبا کے دوران اور مستقبل کے مد نظر امریکی یونیورسٹیوں کی داخلہ ٹیمیں آرزو مند طلبہ کو جاننے کے تخلیقی طریقے تلاش کرتی رہیں گی اور ایسے طلبہ کو چنیں گی جن کو داخلہ دیا جائے گا۔ ابیلس کہتی ہیں ”حالا ں کہ اس برس اگست میں مجھے انڈیا کا دورہ کرنے کی خوشی نہیں مل سکی جیسا کہ پچھلے چار برسوں کے دوران ملی مگر ہمارے اہداف وہی ہیں۔ یعنی فکری اعتبار سے متجسس، طبقات کی جانب مائل نوجوانوں کو جوڑنا اور انہیں ہیور فورڈجیسے ادارے میں تعلیم حاصل کرنے کے بارے میں غور کرنے کا موقع فراہم کرنا۔‘‘
غیر یقینی صورت حال میں جستجو
وبائی مرض کی وجہ سے پیدا ہونے والے انتشار کے پیش نظر امریکہ میں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں درخواست دینے والے طلبہ کو اپنی تحقیق اضافی طور پر اور جلد شروع کر دینی چاہئے اور نئے قواعد و ضوابط، پالیسیوں، وائرس پھیل جانے، لاک ڈاؤن اور ملک میں دیگر غیر متوقع تبدیلیوں کی وجہ سے ضروریات، ڈیڈ لائن اور غیر متوقع تبدیلیوں پر قریبی نظر رکھنی چاہیے۔
آسٹِن کی یونیورسٹی آف ٹیکساس میں داخلوں کے ایکزیکٹو ڈائریکٹر میگوئل واسیلیوسکی مشورہ دیتے ہیں ”معیاری ٹیسٹ کو فہرست بند کیجیے، ان کے پاس کافی وقت ہوتا ہے کہ وہ درخواست دینے کی آخری تاریخ سے قبل اچھا نمبر حاصل کرنے کے لیے امتحان کی تاریخ کو از سر نو مقرر کر سکتے ہیں۔اپنے سرکاری تعلیمی دستاویزات اور ریکارڈ جلد حاصل کریں اور یقینی بنائیں کہ اس کی کئی کاپیاں آپ کے پاس ہوں تاکہ بوقت ضرورت کام آئیں۔ جن اداروں کے لیے آپ درخواست دے رہے ہیں ان سے متعلق معلومات اور طریقہ کار کے بارے میں جانیں کیوں کہ ہر ادارے کا مطالبہ جداگانہ ہو سکتا ہے۔
دھیان رکھیں کہ انتہائی مکمل منصوبہ بندی کے باوجود درخواستوں کا عمل عالمی واقعات سے اب بھی متاثر ہوسکتا ہے۔واسیلیوسکی کہتے ہیں ”ہم اپنے ان درخواست دہندگان کے ساتھ براہ راست طور پررابطے میں ہیں تاکہ کورونا کی وجہ سے کسی ضروری کام کی تکمیل میں دشواری کا سامناکررہے طلبہ کی مدد کر سکیں۔ حالات مسلسل بد ل رہے ہیں اور ہم بین الاقوامی درخواست دہندگان کو درپیش مشکلات کو دور کرنے کے لیے ان کا ازسرنو جائزہ لے رہے ہیں اور داخلے سے متعلق ضروریات کی تکمیل کے لیے متبادل طریقے تلاش کر رہے ہیں۔‘‘
کوروناوائرس کی وجہ سے پیدا شدہ حقائق کے مد نظر بہت سارے سوالات سفر اور امگریشن سے متعلق ہی ہوتے ہیں۔ واسیلیوسکی کہتے ہیں ”تعلیمی اداروں اور درخواست دہندگان کے مابین مضبوط اور مستقل بات چیت ان غیر یقینی حالات میں انتہائی اہم ہیں۔داخلہ افسران موجودہ واقعات کا باریک بینی کے ساتھ جائزہ لیتے رہیں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ہمارے بین الاقوامی درخواست دہندگان کو امریکہ میں پہلے کی طرح ہی تعلیم کے مواقع ملتے رہیں۔‘‘
ایک پُر امید مستقبل
اگرچہ وبائی مرض کے دوران کالج میں درخواست دینے کا عمل دشوار گزار ہو سکتا ہے مگر واسیلیوسکی طلبہ کو یاد دلاتے ہیں امید مؤثر چیز ہے اور یہاں بھرپور مدد ستیاب ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں ”آگے بہت ساری غیر یقینی صورتحال پیش آئے گی لیکن ہم درخواست دہندگان اور طلبہ کی اس عمل میں راہنمائی کے لیے حاضر ہیں۔ بہت سارے کالج اور یونیورسٹیاں کا ستمبر میں کھلنے کا منصوبہ ہے۔بین الاقوامی طلبہ کو آ ن لائن تعلیم شروع کرنے یا جاری رکھنے کے لیے تعلیمی اداروں کو بہت منصوبہ بندی کرنی پڑتی ہے۔ آنے والا تعلیمی سمسٹر پچھلے سمسٹروں سے مختلف تو ہوگا مگر یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ اعلیٰ تعلیم عام طور پر چار سالہ تجربہ ہے۔ لہٰذا طلبہ کو کالج کے روایتی اطوار کا تجربہ کرنے کے بہت سارے مواقع ملیں گے۔‘‘
وہ آگے کہتے ہیں ”بین الاقوامی طلبہ جس طرح کیمپس میں آنا چاہتے ہیں، ہم بھی اسی طرح انہیں یہاں دیکھنے کے خواہشمند ہیں۔اور ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش بھی کر رہے ہیں۔بس آپ سے یہ گذارش ہے کہ امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے کے اپنے منصوبوں سے دست بردار نہ ہوں۔‘‘
مائیکل گیلنٹ، گیلنٹ میوزک کے بانی اور سی ای اوہیں، وہ نیویارک سٹی میں رہتے ہیں۔
تبصرہ