اس مضمون میں ستار نواز رِشبھ رِکھی رام شرما نے ستار سے اپنے تعلق اور امریکہ میں اپنی ستار نوازی کے بارے میں بات کی ہے۔
September 2023
ستار نواز اور موسیقی تخلیق کار رِشب رِکھی رام شرما نے ہندوستانی کلاسیکی موسیقی پر مبنی موسیقی کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے جسے انہوں نے ’دماغی صحت کے لیے ستار‘ نام دیا ہے۔ (تصویر بشکریہ مِتسُن سونی)
موسیقی کا استعمال علاج کے لیے ہو سکتا ہے۔ اور اگر آپ نے رِشبھ رِکھی رام شرما کے ’’ستار برائے دماغی صحت‘‘ سیشن میں شرکت کی ہے تو آپ اس سے ضرور اتفاق کریں گے۔ ستارنواز اور موسیقی کے تخلیق کار رِشبھ نے بتایا کہ انہوں نے روایتی ہند وستانی کلاسیکی موسیقی کا استعمال کرتے ہوئے ’’ ستار برائے دماغی صحت‘‘ سیشن کا خیال پالا تھا جسے دل و دماغ کے لیے ایک شاندار تجربے کے طور پر پیش کیا گیا۔
رِشبھ کا تعلق موسیقی کے آلات تیار کرنے والے خاندان سے ہے۔ یہ کاروبار ان کے دادا نے ۱۹۲۰ء میں غیر منقسم بھارت کے شہرلاہور میں شروع کیا تھا۔ انہوں نے ۱۰ سال کی عمر میں اس کا لمس محسوس کیا ۔ پھر یوں ہوا کہ وہ پنڈت روی شنکر کے سب سے چھوٹے شاگرد بن گئے ۔ ۲۰۲۲ءمیں انہوں نے امریکی صدر کی جانب سے منعقد دیوالی کی سالانہ تقریب میں ستار بجایا اوربعد ازاں صدر کے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر اپنی جگہ بنائی۔ رِشبھ نے سٹی یونیورسٹی آف نیو یارک کے کوئنس کالج سے موسیقی کی تخلیق اور معاشیات میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی ہے۔ پیش ہے ان سے لیے گئے انٹریو کے اقتباسات ۔
آپ نے ستار کب اور کیوں سیکھنا شروع کیا؟ اس میں کیا خاص ہے اور یہ مغربی آلات سے کس طرح مختلف ہے؟
میرے والد مجھے ستار چھونے بھی نہیں دیا کرتے تھے کیونکہ اسے نظم و ضبط اور احترام کا ایک آلہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن میرے گٹار بجانے کے بارے میں ان کا خیال مختلف تھا۔ آخر کار انہوں نے مجھے ایک مرمت شدہ ستار پر ہاتھ آزمانے کی اجازت دے دی۔ میں نے حال ہی میں ستار بجانا شروع کیا اور بہت کم عرصے میں بنیادی نوعیت کی معلومات حاصل کر لیں۔ ستار کے بارے میں جو چیز مجھے سب سے زیادہ پسند آئی وہ پائیدار موافقت اور امتزاج کی اس کی صلاحیت ہے۔ یہ مجھے موسیقی کے کسی بھی دوسرے آلہ کے مقابلے میں موسیقی کے ذریعے خود کو بہتر طریقے سے ظاہر کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
کس چیز نے آپ کو امریکہ میں ہندوستانی کلاسیکی موسیقی پر کام کرنے کی ترغیب دی؟
امریکہ میں ایک بڑی آبادی ہے جو ستارکو پسند کرتی ہے۔ میرے والد اکثر امریکہ میں کلاسیکی موسیقی اور موسیقی کے آلات کو تیار کیے جانے پر لیکچر اور نمائش کا انعقاد کیا کرتے تھے۔ آخر کار ہم اپنے خاندانی کاروبار کو وسعت دینے کے لیے وہاں جا بسے۔ میں نے نیویارک میں ایک اسکول شروع کیا جہاں میں ہر ہفتے تقریباً ۱۲ سے ۱۴طلبہ کو پڑھاتا ہوں۔ ہم لوگ نیو یارک میں ستاراور تانپورہ جیسے موسیقی کے آلات کے ساتھ ساتھ بنیادی طور پر تمام طرح کے ہندوستانی کلاسیکی آلات تیار کرتے ہیں۔ اس فن کو سکھانا، اس کا مظاہرہ کرنا اور موسیقی میں رچے بسے رہنا وہ چیز ہے جو ہم (ایک خاندان کے طور پر) یہاں انجام دے رہے ہیں۔ میں امریکہ میں اس فن کو اور اس کی ثقافت کو پھیلانا چاہتا ہوں اور اس وراثت کو آگے لے جانے کے لیے اپنے ملک اور اس کی حیرت انگیز ثقافت کی نمائندگی کرنا چاہتا ہوں۔ یہی میرا مقصد ہے۔
’ستار برائے دماغی صحت‘ کیا چیز ہے؟
یہ میری ایک پہل ہے جس کا مقصد ذہنی صحت کو فروغ دینا، بیداری پیدا کرنا اور ذہنی صحت سے متعلق بیماری کو بدنامی سے بچا نے کی خاطر اپنی ذہنی صحت سے متعلق جدوجہد کے بارے میں بات کرکے گفتگو کے درمیان حائل رکاوٹوں کو دور کرناہے ۔ ہم لوگوں کو مختلف سرگرمیوں کی سہولت بھی فراہم کرتے ہیں جہاں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں۔ کبھی کبھی کسی اجنبی کے ساتھ بات چیت کرنا اور تجربات کا اشتراک کرنا آسان سا لگتا ہے۔
آپ اپنی کلاسیکی تربیت میں جدید موسیقی کے عناصر کا امتزاج کرتے ہیں۔ سامعین کا اس پر کیا ردعمل رہا ہے؟
مجھے سوشل میڈیا پر خاص طور پر میری ’ستار برائے دماغی صحت‘ نامی ویڈیوز اور مواد کے لیے بہت زیادہ پیار اور تعریفیں ملتی ہیں۔ اس کے تعلق سے ردعمل بہت حیرت انگیز رہا ہے اور ہمارے ناظرین کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے. یہ ۵۰ لوگوں کے ساتھ شروع ہوا تھا جو بڑھ کر ۲۵۰ہو گیا ۔ اب ہماری تعداد تقریباً ۶۰۰ تک پہنچ چکی ہے جو ایک بہت اچھا احساس ہے۔آپ واقعی دیکھ سکتے ہیں کہ ’ستار برائے دماغی صحت‘ مستقبل کی بڑی چیز بنتی جارہی ہے اور یہ حیرت انگیز محسوس ہوتا ہے۔
کیا آپ ہمیں مغربی موسیقاروں کے ساتھ اپنے تعاون کے بارے میں بتا سکتے ہیں؟
اب تک میں اپنی اصل موسیقی پر کام کر رہا ہوں لیکن اس بار جب میں بھارت آیا تو مجھے انگریزی جاز فیوژن ڈَرَمر یوسف ڈیز کے ساتھ اشتراک کا موقع ملا۔ وہ ایک حیرت انگیز فنکار ہیں۔ وہ ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کے شوقین اور ستار اور پنڈت روی شنکر کے بہت بڑے مداح ہیں۔ ہم کچھ نغموں پر کام کر رہے ہیں اور میں ان کے بارے میں بہت پرجوش ہوں۔ میں اپنے توسیعی ڈرامے (ای پی) پر بھی کام کر رہا ہوں جس کا نام ’ستار اینڈ چِل‘ہے جو لو- فائی صنف اور ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کو ایک بہت ہی دلچسپ شکل کا امتزاج دیتا ہے ۔ ای پی کے نغموں میں سے ایک ’وہاٹ یو ڈوئنگ ٹونائٹ ‘ہے۔ مجھے اصناف کا امتزاج پسند ہے اورمیں ستار کو ان شعبوں تک لے جانے کی کوشش کررہا ہوں جن تک ان کی رسائی نہیں ہوئی ہے۔
موسیقی کو ثقافتوں کے درمیان رابطہ قائم کرنے اور امریکہ اور بھارت کے درمیان ثقافتی سفیر کے طور پر دیکھے جانے کے بارے میں آپ کے کیا خیالات ہیں؟
مجھے یقین ہے کہ موسیقی کی کسی بھی صنف کے زندہ رہنے کا واحد طریقہ اشتراک ہے۔ یہ چیزوں کو دریافت کرنے کے لیے آپ کوایک نیا افق فراہم کرتا ہے۔ ایک ثقافتی سفیر کے طور پر یہ میری ذمہ داری ہے کہ میں فن کی شکل کو ہر ممکن حد تک خالص رکھوں، موسیقی کی دیگر ثقافتوں کا احترام کروں اور کچھ تازہ اور خوبصورت تخلیق کے لیے ان کا آپس میں امتزاج کرلوں۔
اسپَین نیوز لیٹر کو اپنے میل پر منگوانے کے لیے لنک میں دیے گئے فارم کو بھریں: https://bit.ly/SubscribeSPAN
تبصرہ