کامیابی کی خاطرطبقات کی تعمیر

اعلیٰ تعلیم میں شمولیت کو فروغ دینے سے خوش آئند اور حوصلہ افزا ماحول کی تشکیل ہوتی ہے۔

ماریہ ٹی میڈیسن

July 2021

کامیابی کی خاطرطبقات کی تعمیر

ماریہ ٹی میڈیسن برینڈائس یونیورسٹی کے ہیلر اسکول فار سوشل پالیسی اینڈ مینجمنٹ میں غیر جانبداری، شمولیت اور تنوع کی ایسوسی ایٹ ڈین ہیں۔ تصویر بشکریہ برینڈیز یونیورسٹی

کامیابی کی خاطر طلبہ کے لیے مواقع کوبڑھاوا دینے میں اعلیٰ تعلیم کے کردار کا انحصار مختلف ثقافتوں کے احترام اور ستائش کو فروغ دینے کی ضرورت پر ہے جوساخت، نفسیات، طرزعمل کی تدریس، بنیادی ڈھانچہ اور سرگرمیوں کے ذریعہ ممکن ہوپاتاہے ۔

اخلاقی طور پراعلیٰ تعلیم کا اہم مقصد شمولیت پرمبنی آموزش کا ایسے ماحول تشکیل دینا ہے جو تعلیمی حصولیابی اور زندگی بھر کی کامیابی کے لیے مساوی مواقع فراہم کرے۔ کامیابی کی اس سطح کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں اس پر یقین رکھنا چاہیے کہ ہمارے تعلیمی ادارے کا معیار ویسا ہی ہوتا ہے جیسا ہمارے معاشرے کے افراد کا تجربہ ہوتا ہے۔ جیسا کہ شاعرجان ڈَن اپنی نظم میں معاشرے کی اہمیت کو نمایاں کرتے ہوئے کہتا ہے’’ کوئی بھی شخص جزیرے کی حیثیت نہیں رکھتا، وہ خود میں ایک جزیرہ نہیں ہوتا بلکہ ہر شخص اس براعظم کا ایک ٹکڑا ہے، وہ اس کا ایک حصہ ہے۔‘‘

۲۰۱۵ء میں برینڈائس یونیورسٹی کے تمام کیمپس کے طلبہ نے اپنےادارے سے مطالبہ کیا کہ وہ ساخت، نفسیات اور طرز عمل سے متعلق امتیازی سلوک کے مسائل کو حل کریں۔ انہوں نے اسکول کو درخواست دی تھی کہ میں جس عہدے( یعنی گریجویٹ طلبہ کے لیے برینڈائس ہیلر اسکول فار سوشل پالیسی اینڈ مینجمنٹ میں غیر جانبداری، شمولیت اور تنوع کے ایسوسی ایٹ ڈین کے عہدے) پر فائز ہوں اس کی تخلیق کی جانی چاہیے۔ میں اس ذمہ داری کے دائرہ کار میں تعلیم، تربیت، نصاب اور ثقافتی بیداری کی تقریبات اور کورسیز کے ذریعے معاشرے میں وابستگی اور شمولیت کو فروغ دینے کے لیے کام کرتی ہوں۔ ہم ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینے کی کوشش کررہے ہیں جوایک وسیع دنیا کے تنوع کا آئینہ دار ہو۔ ہم آب و ہوا کے جائزے، نصاب کے تعین قدر اور اساتذہ کی سرگرمیوں کی رپورٹ کے ذریعے اپنی پیش رفت پر نظر رکھتے ہیں۔ ہمارا فلسفہ یہ ہے کہ اسکول میں ہر ایک ای آئی ڈی کونسل کا رکن ہو۔ اسکول کے ہر تعلیمی پروگرام میں امتیازی سلوک کی انسداد کی تدریس، تحقیق اور پالیسی کو سیاق و سباق پر مرتب کرنے اورانہیں شامل کرنے کی خاطرمعمول کے مباحثے کو فروغ دینے کے لیے ایک مستقل نظام العمل کی ضرورت ہوتی ہے۔

تکثیری تعلیم کے ماحول کی تخلیق کا مطلب یہ ہے کہ نگرانی کی ایسی خدمات فراہم کی جائیں جو تمام طلبہ سے یہ کہے ’’ہم آپ کی مدد کے لیے ہیں، آپ کا تعلق ہم سے ہے اور آپ کی جھلک ہمارےاساتذہ، عملہ، محققین اورہماری نصاب میں ہرجگہ پائی جاتی ہے۔‘‘اس جامع ثقافت کی تشکیل کے اقدامات میں مندرجہ ذیل چیزیں شامل ہیں:

۱)معاشرے کی تعریف،

۲) پیغام رسانی کی نگرانی، خدمات اور حمایت،

۳) پورے کیمپس میں تمام ثقافتوں سے متعلق تربیت کا اہتمام جن میں متنوع بات چیت اورطرزگفتگوشامل ہوں،

۴) تعصب کو پہچاننا اور اسے کم کرنا اور تعصب پر رد عمل کے اظہار کا طریقہ سیکھنا،

اور

۵) نصابوں کو متنوع بنانا اورسیکھنے اورسکھانے کے اسلوب میں تنوع لانا ۔

معاشرے کی تعریف
دنیا بھرمیں معاشرے کی مختلف تعریفیں موجود ہیں۔ تعلیمی سال شروع ہونے سے پہلےثقافت اور معاشرے کی توضیحات کے اشتراک کے لیے لوگوں کو اوریئنٹیشن پروگرام میں یکجا کرنے سے باہمی افہام و تفہیم اور احترام میں وسعت آتی ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ میں سماجی اعدادوشمار کی سطح پر ایک تیز رفتار تبدیلی رونما ہورہی ہے جو بتاتی ہے کہ یونیورسٹی کے کلاس رومز میں کتنی زبانوں، ثقافتوں، نسلی / قبائلی جماعتوں اور مذہبوں کی نمائندگی ہورہی ہے۔ بعض لوگ معاشرے کی تعریف یوں کر سکتے ہیں ’’یہ ایسے لوگوں کا ادارہ ہے جس میں سب کے مشترکہ حقوق، مراعات یا مفادات ہو تے ہیں یاجس میں لوگ ایک ہی جگہ پر ایک ہی قسم کے قوانین اور اصول و ضوابط کے تحت رہتے ہیں۔‘‘ یہ حقیقت ہے کہ معاشرے کی مختلف تعریفوں کی سمجھ مختلف ثقافتوں کی افہام و تفہیم کو روز اول سے ہی فروغ دے سکتی ہے۔

پیغام رسانی کی نگرانی، خدمات اور حمایت
طلبہ کی تنظیم اور تمام اساتذہ، عملہ اور محققین میں کثرتِ تنوع کی شناخت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ طلبہ کو یونیورسٹی کے پوسٹروں، مجسموں، علامتوں اور مواصلات کے ذرائع میں بھی نمائندگی ملے گی اوران میں مختلف زبانیں بھی شامل ہوں گی۔ دیگر عناصر میں کھانے کی ڈشیں اور فنون لطیفہ سمیت مختلف ثقافتوں کا جشن منانے کی تقریبات شامل ہیں۔ ان میں خدمات فراہم کرنے والے بھی شامل ہیں، خاص طور پر وہ جو ذہنی اور جسمانی صحت سے متعلق خدمات فراہم کرتے ہیں اور جویا تو طلبہ کی تنظیم کی طرح متنوع ہوتے ہیں یاعالمی ثقافتوں میں تربیت یافتہ ہوتے ہیں۔

پورے کیمپس میں تمام ثقافتوں سے متعلق تربیت کا اہتمام جن میں متنوع بات چیت اور طرز گفتگو شامل ہوں
مختلف تربیتی پروگراموں میں اتحادیوں، سرپرستوں، محافظوں، مشیروں، اساتذہ، محققین، عملہ اور ساتھیوں سمیت معاشرے کے تمام افراد کو شامل کیا جانا چاہئے۔ پورے کیمپس میں منعقد کیے جانے والے تربیتی پروگراموں کے ذریعہ ہم لوگ کم درجے کی جارحیت اور منسوخی اورحملوں میں کمی لا سکتے ہیں اور طلبہ کے اس خیال کے جذبے میں کمی کے لیے جس کے تحت وہ سمجھتے ہیں کہ وہ کسی مخصوص ادارے کا رکن بننے کے لائق نہیں ہیں، ہم لوگ خود کو اور اپنی تنظیم کو معیار کے کنٹرول کےمرحلے سے گزار سکتے ہیں۔

مثال کے طور پر بعض امریکی یونیورسٹیوں میں نسل، رنگ، صنف، جنسی رجحان، مذہب، قومی طور پر نقطہ آغاز، نسب، عمر، جینیاتی معلومات، معذوری، محفوظ تجربہ کار طبقہ یا ذات جیسےقانونی طورسے محفوظ طبقاتی زمرے کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی ممانعت جیسے مباحثےشامل ہیں۔ واضح رہے کہ ایسے اداروں میں انتقامی کارروائی ممنوع ہے۔

ہراساں اور امتیازی سلوک کی دیگر اقسام کو اکثر’’سرکاری رپورٹنگ‘‘سے کمتر سطح کاخیال کیا جاتا ہے تاہم یہ کسی شخص کی صحت اور فلاح و بہبود کے لیے نقصان دہ ہوسکتی ہیں۔ ان میں قطعی یا لاشعوری تعصب بھی شامل ہے جہاں افراد روایتی عمل کو انجام دے سکتے ہیں جو انہیں بعض مخصوص غیر معروضی اور غیرمعلوم طریقوں سے برتاؤ اور فیصلہ سازی کی طرف راغب کرتے ہیں۔

تعصب کو پہچاننا، اسے کم کرنا اور تعصب پر ردعمل کے اظہار کا طریقہ سیکھنا
ایک پھلتے پھولتے معاشرے کی تشکیل کے لیے اس کے ارکان کو خود میں اور دوسروں میں تعصب کی شناخت کرنا سیکھنا چاہیے۔ عمر، صنف یا نسل،وقت کا دباؤ، ادراک کا بوجھ، بیک وقت کئی کاموں یا ذمہ داریوں کو انجام دینا، ابہام، احتساب کا فقدان، تھکان اور/یا تناؤ، یا ثقافت کو وسعت دینے کے ذرائع جیسے تعصبات پر ردعمل ظاہر کرنے کے لیے ہمارے دماغ کو تیار کیا گیا ہے۔ ہم کس طرح ایک دوسرے کے ساتھ سلوک کرتے ہیں، اس سے پورا معاشرہ اثر اندوز ہوتا ہے جس سے انفرادی صحت اور فلاح و بہبود پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔ مضبوط معاشرے کی تعمیر کے لیے ہمارا مقصد کثیر ثقافتی، ہم آہنگ، جامع اورمہذب مذاکرات اورتفاعل کو فروغ دینا ہے۔

کسی کو خود کے تعصب کو کم کرنے اور / یا تعصب کے تئیں رد عمل کے اظہار کرنے کا طریقہ سیکھنے کا مطلب مہذب مذاکرات اور روزمرہ کی صلاحیتوں کو تشکیل دینا ہے ۔ مذاکرات کا تعلق صرف الفاظ سے نہیں ہوتا بلکہ یہ ان پیغامات سے بھی ہوتا ہے جوبول کر نہیں بلکہ جسمانی حرکات و سکنات سے دوسروں تک پہنچائے جاتے ہیں۔

آپ اپنے نقطہ نظر کا اشتراک کریں، دوسروں کے نقطہ نظر کو سنیں، اختلافات کو محسوس کریں، ان کا احترام کریں اور ان کو سمجھنے کی کوشش کریں۔

اس کے علاوہ کسی کے رویے اوربرتاؤکا فیصلہ کرنے اور تشریح کرنے کی بجائے اس کا مشاہدہ کریں اور ان پر نظر رکھیں ۔

دوسروں کے نقطہ نظر کو تسلیم کریں اور دلچسپی کے ساتھ اس کے تعلق سے دریافت کریں۔ خیال رہے کہ تمام خیالات اور نقطہ نظر کا احترام ہو۔

دوسروں کے مفروضات کے بارے میں پوچھیں اور انہیں سمجھنے کی کوشش کریں۔ اپنے مفروضوں کو سمجھیں اوران کا اشتراک کریں۔

بحث اور دوسرے شخص کو غلط ثابت کرنے کی ضرورت کو معطل کریں۔ سیکھنے پر توجہ مرکوز کریں اور کوئی نتیجہ حاصل کرنے کی ضرورت کو تعطل پر رکھیں۔

تناؤ کو دور کرنے کے لیے افہام کی تشکیل نوکا سیکھنا بھی ضروری ہے۔ لہٰذا یہ وہ نہیں ہے جو آپ پوچھتے ہیں بلکہ اس کاتعلق اس سے ہےکہ آپ گفتگو کے دوران سوالات کیسے کرتے ہیں۔ ان میں معاشرے کے ارکان کو حقیقی طور پر متجسس ہونے، سنجیدگی سے سننے،خیال و فکر کرنے اور ردعمل سے قبل اس کوظاہرکرنے کی تعلیم دینا شامل ہیں۔ مثال کے طور پر کلاس روم مباحثے میں یہ سکھانا اہم ہے کہ متعصبانہ سوالات پوچھنے یا طلبہ کو ان کی اصل یا مفروضہ شناخت کی بنیاد پر الگ کرنے سے کیسے اجتناب کیا جائے۔ یہ اکثر کہا جاتا ہے کہ کسی معاشرے کوتشکیل دینا ہمت کا کام ہے خاص طور پر کلاس روم کے معاشرے کوجہاں نظریات اور مفروضات کو چیلنج کیا جاتا ہے۔ مختلف عقائد کے ساتھ مصروف ہونے کے لیے اور تناؤ کو منتشر کرنے کی خاطر بات چیت کو پھر سے ترتیب دینے کے لیے ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔

نصابوں کو متنوع بنانا اور سیکھنے اور سکھانے کے طریقے میں تنوع لانا
آئیے اب اسے سمجھنے کی کوشش کریں۔ متنوع نصاب سے پڑھانے کے لیے آپ کو کسی متنوع کلاس روم کی ضرورت نہیں ہے۔ مختلف نصابوں میں عالموں اور دانشوروں کی جھلک ملنی چاہیے جنہیں مختلف ثقافتوں کی بنیاد پر ہر نظم و ضبط سے متعلق ہماری ارتقائی تفہیم کو متاثر کرنا چاہیے۔

آخر میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک خوش آئند اور حوصلہ افزا ماحول پیدا کرنے کے لیے اعلیٰ تعلیم میں شمولیت کو فروغ دینے کے متعدد طریقے ہیں۔ اس کا آغاز ہر فرد کی جانب سے خود پر غور و فکر کرنے اور مختلف ثقافتوں اور شناختوں کے تئیں باہمی احترام کے لیے بہترین طریقوں کو اختیار کرنے سے ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ نقصانات کم کرنے اورپھلتے پھولتے معاشروں کو فروغ دینے کے لیے سماج کی پیش رفت کی نگرانی کرنااور اس سے باخبر رہنا بھی ضروی ہے ۔

 

ماریہ ٹی میڈیسن برینڈائسیونیورسٹی کے ہیلر اسکول فار سوشل پالیسی اینڈ مینجمنٹ میں غیر جانبداری، شمولیت اور تنوع کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔


ٹَیگس

تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے