زبانوں کے ذریعے علمیت کا قیام

روما پٹیل امریکی حکومت کے زبانوں پر مرکوز پروگراموں کے توسط سے بھارت میں ہندی کی تعلیم حاصل کرکے اپنے فن کی تحقیقی صلاحیتوں کی تعمیر کر رہی ہیں۔

گری راج اگروال

September 2023

زبانوں کے ذریعے علمیت کا قیام

روما پٹیل(مرکز میں) جے پور میں اپنے میزبان خانوادے کے ساتھ جہاں واقع امیریکن انسٹی ٹیوٹ آف انڈین اسٹڈیز سے انہوں نے ہندی کی پڑھائی کی۔

روما پٹیل نیویارک  سٹی  کے فنونِ لطیفہ کے ایک نیلامی گھر میں کام کر رہی تھیں جب انہیں بھارتی آرٹ کے مطالعہ اور اس کی مہارت کے حصول میں دلچسپی پیدا ہوئی۔

ایک آرٹ نیلامی  گھر میں کام کر رہی تھیں جب انہیں  ہندوستانی  آرٹ کے مطالعہ اور مہارت حاصل کرنے میں دلچسپی پیدا  ہوئی ۔ انہوں نے گذشتہ موسم خزاں میں نیو یارک سٹی کی کولمبیا یونیورسٹی میں جنوبی ایشیائی آرٹ  میں مہارت کے ساتھ جدید اور عصری آرٹ میں ماسٹر ڈگری کے لیے داخلہ لیا تھا۔ وہ بتاتی ہیں ’’  میں نے کولمبیا کو متعدد وجوہات جیسے  خصوصی پروگرام، ساؤتھ ایشیا  انسٹی ٹیوٹ کے ساتھ ساتھ لینگویج کے مضبوط پروگرام  کی بنا پر منتخب کیا۔‘‘

تاہم ، پٹیل جو کہ بھارتی  امریکی ہیں انہیں ’’ بھارت کے سلسلے میں وظائف اور آرٹ  کی تاریخی پڑھائی  پر زبان کے ذریعہ عائد کردہ حدود کا جلد ہی احساس ہو گیا۔‘‘ ہندی کے علم کے بغیر، وہ اپنی تحقیق کے لیے جو معلومات حاصل کر سکتی تھیں ، وہ ڈرامائی طور پر کم ہو گئی تھی۔

وہ کہتی ہیں ’’مجھے اپنی جوانی کے دوران بھارت  کا دورہ کرنا یاد ہے اور میں اپنے ارد گرد ہونے والی گفتگو، سڑکوں پر نشانات ،یہاں تک کہ فلموں کو سمجھنے سے قاصر  تھی۔جب میں بڑی ہو رہی تھی تو گجراتی پڑھنے کے باوجود، ہندی مجھے فطری طور پر نہیں آتی تھی  اور نہ ہی میرے پاس اسے سیکھنے یا اس کے استعمال  کی مشق   کرنے کی جگہ تھی۔‘‘

پٹیل نے کولمبیا یونیورسٹی کے مشرق وسطیٰ، جنوبی ایشیائی اور افریقی مطالعات کے شعبہ میں ہندی اردو پروگرام کے سینئر لیکچرر اور کوآرڈینیٹر راکیش رنجن سے رابطہ کیا۔پٹیل نے  ان  کے مشورے پر  امریکی محکمہ خارجہ کے کریٹیکل لینگویج اسکالرشپ (سی ایل سی ) پروگرام میں ایک اعلیٰ درجے کی ابتدائی طالبہ کے طور پر درخواست دی۔ رنجن نے انہیں  امریکی محکمہ تعلیم کے ذریعے فارن لینگویج اینڈ ایریا اسٹڈیز (ایف ایل اے ایس ) فیلوشپ پروگرام کے بارے میں بھی مطلع  کیا۔ پٹیل کہتی  ہیں ’’مجھے دونوں ایوارڈحاصل کرنے کا اعزاز حاصل ہوا اور جے پور میں امریکن انسٹی ٹیوٹ آف انڈین اسٹڈیز (اے آئی آئی ایس ) میں سی ایل ایس پروگرام کے ساتھ ہندی کی تعلیم کا آغاز دو ماہ کے لیے مکمل ایمرسن  پروگرام میں کیا۔‘‘اگست ۲۰۲۳ءمیں سی ایل ایس  کورس  ختم ہوا۔ اب وہ ایف ایل اے ایس  پروگرام شروع کریں  گی اور کولمبیا میں رنجن کے  ماتحت پورے تعلیمی سال کے لیےتعلیم حاصل کریں  گی۔

پٹیل یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں ’’ ہندی ایک ناقابل یقین حد تک پیچیدہ زبان ہے  اور بعض اوقات اسے بولنے سے زیادہ خاموش رہنا آسان  لگتا ہے۔ جب میں ابتدائی طور پر حوصلہ شکنی کا شکار تھی، میرے کورسز شروع ہونے کے بعد مجھے یہ احساس ہوا   کہ میری گرامر پہلے غلط تھی، میں نے  بطور خود کڑی محنت  کرنا جا ری رکھا۔‘‘ اے آئی آئی ایس   میں ان  کے اساتذہ مددگار اور صبر کرنے والے تھے۔ ’’ضرورت پڑنے پر  وہ اس بات کو یقینی بنانے کے  لیے  جلدی کرتے  تھے کہ مجھے  محسوس ہو کہ میں نے صحیح ڈھنگ سے   بات کی ہے اور  مجھے سمجھایا  گیا ہے۔ جیسے جیسے موسم گرما  کی ایّام گزرتے گئے میرے اندر سے اپنی بات چیت صلاحیت کے بارے میں سوچنے کا خوف جاتا رہا۔  میں نے اکثر اپنے آپ کو اپنی ہندی  کی مشق کرنے  کے لیے کھلے عام عوام کے ساتھ بات چیت شروع کرتے ہوئے پایا۔‘‘

پٹیل کہتی ہیں کہ اے آئی آئی ایس  طلبہ کو  بھارت  کے سلسلے میں تاریخ  پڑھنے کے لیے جو مدد فراہم کرتا ہے وہ ناقابل یقین حد تک اہم ہے کیونکہ وہاں بہت ساری تحقیق موجود ہے جو زیر التواء ہے۔ وہ کہتی ہیں ’’ ہندی  پڑھنے   والے امریکی طلبہ کی حمایت میں  وہ امریکی طلبہ کے لیے فوری تحقیق میں مشغول ہونے کے مزید مواقع پیدا کرتے ہیں۔‘‘   گرچہ انہوں نے امریکہ  میں گجراتی اور ہسپانوی کی تعلیم حاصل کی تھی، لیکن وہ کبھی بھی کسی ایسے پروگرام میں نہیں  رہیں   جس میں زبان کی تعلیم  کو مہارت کی بنیاد پر ذیلی حصوں میں تقسیم کیا گیا ہو۔ وہ کہتی ہیں ’’حالانکہ   اعلیٰ درجے کی ابتدائی کلاس میں کچھ طلبہ بہتر قارئین تھے، وہیں،  دوسروں کے پاس بات چیت کی مضبوط صلاحیتیں تھیں۔ چھوٹے گروپوں کے لیے ہنر پر مبنی  کلاسوں کے ذریعے  ہم انفرادی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے جس سے یہ یقینی  ہوا کہ   ہم ہر لحاظ سے  اپنی زبان  کی پڑھائی  میں  ترقی کر سکیں  ۔‘‘

پٹیل کا  ماننا  ہے کہ نہ صرف ہندوستانیوں کے ساتھ جڑنے کےلیے  بلکہ امریکہ میں رہنے والے ہندوستانیوں کی وسیع آبادی کے ساتھ تبادلہ خیال کرنے کے لیے  بھی ہندی کی تعلیم حاصل کرنا ضروری ہے۔   وہ مزید کہتی ہیں ’’ نیویارک میں رہتے ہوئے، ہندی ہر جگہ ہے۔ لوگ کولمبیا میں  ٹرین میں، سڑک پر   روزانہ ہندی بولتے ہیں۔ ‘‘پٹیل امریکہ میں جب گھر پر ہوتی ہیں تو  وہ  فلمیں دیکھتی ہیں، مختصر کہانیاں پڑھتی ہیں اور ہندی کی مشق کرنے کے لیے اپنے  کنبے  کے ساتھ کیری اوکے سیشن کرتی ہیں۔ جب بھی وہ بھارت میں اپنے کنبے کے ارکان کو فون کرتی ہیں یا امریکہ میں ہندی بولنے والوں سے ملتی ہیں  تو ان کا مقصد ہندی  میں بات چیت کرنا بھی ہوتا ہے۔

پٹیل کے پاس ہندی سیکھنے یا اسے  بھارت میں روزمرہ کی زندگی میں استعمال کرنے سے متعلق متعدد کہانیاں ہیں۔ وہ یاد کرتی ہیں کہ کس طرح ایک بار  جودھ پور سے جے پور جانے والی ٹرین میں انہیں  اور ان  کے دوست کو احساس ہوا کہ وہ راجستھان کے ایک رکن  پارلیمنٹ کے سامنے   بیٹھے ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’’ کچھ گھنٹوں تک  ہم نے اپنے متعلقہ  کنبوں  اور پرورش کے ساتھ ساتھ سیاست اور راجستھان کے موجودہ مسائل کے بارے میں بات کی۔ ہم نہ صرف ہندی میں بات چیت کرنے کے  اہل تھے، بلکہ ہم اپنی گفتگو سے راجستھان میں زندگی کے بارے میں  معنی خیز  بصیرت حاصل کرنے میں کامیاب  تھے۔‘‘ پٹیل نے متعدد آرٹ گیلری کے افتتاحی پروگراموں ، میوزیکل کنسرٹس اور تقریبات میں بھی شرکت کی اور تاریخی مقامات کا دورہ کیا۔ وہ کہتی ہیں’’میں  نے مقامی فنکاروں، مورخین اور کیوریٹروں سے ملاقات کی جنہوں نے اپنے نقطہ نظر اور بصیرت میرے ساتھ شیئر کیں جس سے ہندوستانی فن، ثقافت اور تاریخ کے بارے میں میرے تاثرات کو اس طرح تقویت ملی کہ میں نیویارک کے ایک کلاس روم میں آرٹ کی تاریخ کی پڑھائی  نہیں کر سکتی تھی۔میں نے  پایا  کہ ہندی  پڑھنے   کا میرا تجربہ براہ راست اس ملک کے بارے میں مزید جاننے کی میری صلاحیت سے جڑا ہوا ہے جہاں میں نے زندگی بھر  دورہ کیا ہے۔‘‘


اسپَین نیوزلیٹر اپنے میل پر منگوانے کے لیے لنک میں دیے گئے فارم کو بھریں: https://bit.ly/SubscribeSPAN


ٹَیگس

تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے