صنفی مساوات کا فروغ

مغربی بنگال میں خواتین گو کہ زراعت میں مرکزی کردار ادا کرتی ہیں مگر اس کے باوجود وہ حاشیے پر ہیں۔ تکنیکی تربیت اوراراضی تک زیادہ رسائی نے ان کی پیداوار میں اضافہ بھی کیا ہے۔

برٹن بولاگ

September 2021

صنفی مساوات کا فروغ

نارائن پور گاؤں میں ایک خاتون کسان آلو کے بیجوں کی بوائی کرتے ہوئے۔ تصویر سُبرنا مَیترا /آئی ایل آر جی۔

بہت سارے ملکوں میں غذا کی پیداوار میں خواتین کی شراکت ۶۰ سے ۸۰ فی صد کے درمیان ہے۔ اس کے باوجود خواتین کاشت کار حاشیے پر رہتی ہیں  اور ان کے اپنے طبقات میں ہی بطور کاشت کار ان کا شمار نہیں ہوتا ہے۔

بہت ہی قلیل مقدار ایسی خواتین کی ہے جن کے پاس اپنی زرعی  اراضی ہو۔ خوردہ کاشت کاروں کو جو قرض دیاجاتا ہے اور جو تکنیکی تربیت فراہم کی جاتی ہے، اس سےخواتین کاشت کار وں کی ایک قلیل جماعت ہی استفادہ کرپاتی ہے۔

مغربی بنگال میں ایک پائلٹ پروجیکٹ کے ذریعہ اس صورت حال میں تبدیلی کی کوشش کی جارہی ہے۔ امریکہ کی کثیر ملکی مشروب اور ہلکی پھلکی غذائی اشیا بنانے والی کمپنی پیپسی کو اور امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) آلو کی کاشت کرنے والی  خواتین کاشت کاروں کوبااختیار بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اس پروجیکٹ  سے  وہ انہیں کاشت کاری کے لائق اراضی تک رسائی میں مدد کررہی ہیں۔  اس کے علاوہ وہ انہیں تربیت اور امداد بھی فراہم کر ہی ہیں۔ اور ساتھ ہی جن برادریوں میں وہ رہتی ہیں ،ان میں ان کو تسلیم کرنے اورصنفی مساوات کو فروغ بھی دے رہی ہیں۔

اس پروجیکٹ کا آغاز ۲۰۱۹ء میں ہوا تھا ۔ اس وقت سے اب تک اس اشتراک کی بدولت ایک ہزار  سے زائد خواتین کاشت کار اس سےبراہ راست اس سے  استفادہ کر چکی ہیں۔ حال آں کہ اس پروجیکٹ کی میعاد محض چار برس کی ہے یعنی ۲۰۲۳ء میں اس کا وقت پورا ہو جائے گا۔ مگر اس میں ایسےعناصر شامل کیے گئے ہیں جن سے طویل مدتی تبدیلی ضرور متوقع ہے۔

مثال کے طورپرپیپسی کو میدان میں کام کر رہے اپنے ماہرین زراعت کو جو تربیت فراہم کررہی ہے اس میں صنفی مسائل کوبھی شامل کیا گیا ہے۔ یہ ماہرین زراعت پابندی کے ساتھ دیہی علاقوں کا دورہ کرتے ہیں اور کاشت کاروں کوتربیت دیتے ہیں کہ کس طرح کمپنی کو فراہم کیے جانے والے آ لو ؤں کی کاشت میں اضافہ کیا جا سکتا ہے اور ان کے معیار کو بھی بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

اسی کے ساتھ ساتھ اس پروجیکٹ کے تحت بہت ساری خواتین کو ’’ کمیونٹی ماہرین زراعت‘‘ کی تربیت بھی دی جارہی ہے۔ ان کے توسط سے آلو کے مقامی کاشت کاروں کو صنفی تعصب سے چھٹکارا دلانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ آرتی بیسرا ایک نئی ماہر زراعت ہیں جنہوں نے اس پروگرام کے تحت تربیت حاصل کی ۔ وہ صراحت کرتی ہیں’’ میں یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوگئی کہ میں بھی یہ کر سکتی ہوں۔ شروع میں میرے شوہر کو میری صلاحیتوں پر کچھ شک تھا۔ مگر اب مرد اور خواتین دونوں کاشت کار میری صلاحیتوں کے قائل ہو گئے ہیں۔ میں بہت کچھ نیا سیکھ رہی ہوں جسے  میں اپنی ذات پر نافذ کرنے کی کوشش کر رہی ہوں۔میں  اپنی جیسی خواتین سے بھی مستقل رابطے میں  رہتی ہوں۔‘‘

اس پروجیکٹ کے تحت بہت سارے مردوں کی بھی شناخت کی گئی ہے جو کہ اپنی اپنی برادریوں کے چیمپئن ہیں۔ ان میں آلو جمع کرنے والے مرد اور آلو کی سپلائی چین میں موجود ذیلی کاروباری شامل ہیں جو خواتین کو بااختیار بنانے کی اہمیت کو نہ صرف سمجھتے ہیں بلکہ اس کے لیے کوشاں بھی ہیں۔ آلو جمع کرنے والی خواتین کو بااختیار بنانےکے علم بردار شیامل پال کہتے ہیں’’ مجھے پورا یقین ہے کہ خواتین زراعت کے لیے سب کچھ کر سکتی ہیں ۔

پیپسی کوکی امدادسے، خواتین کے ایک گروپ نے ایک ایکڑ زمین آلو کی کاشت کےلیے پٹہ پر دی اورخراب موسم کے باجودمالی فائدہ بھی حاصل کیا۔ اس ’ پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی ‘ تبدیلی نے یہاں کی پوری برادری کی توجہ اپنی جانب مبذول کی اور خواتین کے دیگر گروپوں پر بھی ظاہری اثرات مرتب کیے۔‘‘

ان مردوں اور برادریوں کے پیروی کرنے والوں نے خواتین کاشت کاروں تک اپنی پہنچ کی وسعت کو مزید وسیع کیا ہے اور دیگر برادریوں میں بھی خواتین کی کوششوں کو سراہنے اور ان کی کاشت کارکی حیثیت سے شناخت قائم کرنے میں کافی اہم کردار ادا کیا  ہے۔ انہوں نے خواتین کو اہل بنانے کی مہم کو بھی کافی بڑے پیمانے پر اپنے ہاتھ میں لی ہے۔ مثال کے طور پران کے پاس برادری سے تعلق رکھنے والی خواتین ماہر زراعت ہیں جو پروجیکٹ  کے تحت ہدف زدہ ۱۲ برادریوں سے بعید بھی کام میں مصروف ہیں۔

یو ایس ایڈ اور پیپسی کو دونوں کے پاس اشتراک کے لیے معقول وجوہات تھیں۔ یو ایس ایڈ کا ہدف ہے کہ عالمی سطح پر لاکھوں خواتین کو معاشی طور پر بااختیاربنایا جائے۔ پیپسی اس تھیوری کی جانچ کرنے میں دلچسپی رکھتی تھی جس سے خواتین کو سپلائی چین میں زیادہ علم حاصل کرنے اور ان کےذریعہ آلؤوں کی معیاری پیداوار اورمقداردونوں میں اضافہ کرنے میں مددگار ہو۔

slide 1
slide 1
slide 1

Image Slide 2
A woman farmer reads a pamphlet about household dialogues on gender norms facilitated by USAID and PepsiCo. Photo courtesy USAID
Image Slide 2
Shyamal Pal (left) supporting a women’s group to sign a white paper land leasing agreement with a local landlord. Photo: ILRG
Image Slide 2
The USAID-PepsiCo partnership helped women’s associations lease communal plots to grow PepsiCo potatoes. Photo: Landesa

previous arrowprevious arrow
next arrownext arrow

پیپسی کو بھارتی بازار کے لیے چِپس اور دیگر اسنَیکس بنانے کے لیے اعلیٰ معیار کے آلوؤں کی مستقل  ضرورت رہتی ہے۔ واضح رہے کہ پیپسی کو مختلف برانڈ بشمول’ لیز‘ کے بھارت میں فروخت کرتی ہے۔ کمپنی کا ہدف ہے کہ وہ ۲۰۳۰ء تک اپنی زرعی سپلائی چین میں مصروف ۲ لاکھ ۵۰ ہزار زندگیوں کو بہتر اور کمپنی کے اہم عنصر کو سو فی صد پائیدار بنائے۔

یو ایس ایڈ افسران بتاتے ہیں کہ انہوں نے مغربی بنگال میں پیپسی کو کے ساتھ کام شروع کرنے سے قبل مقامی سطح پر سامان کی فراہمی کے مسائل کا مطالعہ کیا۔ان مسائل میں صنفی تحفظات جیسے صنفی اصول اورتربیت تک رسائی شامل ہیں۔اس مطالعہ کا مقصد خواتین کاشت کاروں کو درپیش مخصوص مسائل کی نشاندہی کرنا تھا۔ ان مسائل میں زرعی توسیعی تربیت، زرعی اراضی کی ملکیت اورخدمات یا بینک سے قرضے اورکاشت کاری کے مسائل جیسے آبی قلت یا فصلوں کوکیڑے لگنا شامل ہیں۔

تربیت ان مسائل کو عبور کرنے پر مرکوز تھی۔ ایسے اقدامات کیےگئے جن سے خواتین کو ان تربیتی پروگراموں میں شرکت کرنے میں آسانی ہو۔ مثال کے طور پر اوقات اس طرح سے طے کیے گئے جب خواتین کو گھر کے کام کاج جیسے کھانا پکانا سے فراغت ہو اور بچوں کوگھر کے دیگر افراد سنبھال سکیں۔

خواتین کاشت کاروں کو زرعی توسیعی خدمات فراہم کرنے کے علاوہ پر وجیکٹ کے تحت کلاسیز کا بھی انعقاد کیا گیا جن میں کاروباری صلاحیت پیدا کرنے کے متعلق بتایا گیا۔ علاوہ ازیں ان کلاسوں میں ان کو جراثیم کش دواؤں کے استعمال کے وقت ذاتی تحفظی آلوں کے بارے میں بھی بتایا گیا۔ اس پروجیکٹ میں شریک ایک خاتون کاشت کار دیپیکا کول  انکشاف کرتی ہیں’’ میرے آس پاس کی خواتین اس پر بخوشی عمل کر رہی ہیں جو انہوں نے تربیت کے دوران سیکھا۔ان کو فصل کے بعد آلوؤں کو اچھی طرح جمع کرنا، جراثیم کش دواؤں کو چھڑکنا اور چھڑکاؤ آلے کی بہتر طور پر دیکھ بھال کرنے کے علاوہ بھی بہت کچھ آتا ہے۔ ہم مرد کاشت کاروں کے مساوی ہی کام کرتے ہیں۔ جب ہم تربیت کے دوران کوئی نئی بات سیکھتے ہیں تو ہم اسے اپنے گھر کے افراد کے ساتھ شیئر کرتے ہیں اوروہ فصل میں ان پر عمل کرنے میں ہماری مدد کرتے ہیں۔ ‘‘اور چونکہ روایتی طور پر خواتین کاشت کار اراضی کی ملکیت یا پھر اسے پٹہ پر اٹھانے کے سلسلہ میں کافی سخت مزاحمت کا سامنا کرتی ہیں، اس اشتراک نے خواتین کاشت کار انجمنوں کو اپنے نام سے اراضی کو پٹہ پر دینے میں مدد کی ہے۔

اس پر وجیکٹ نے دنیا بھر میں کاشت کاروں کو موسمی بحران سے نمٹنے میں بھی مدد کی ہے۔اس پروجیکٹ کے تحت کاشت کاروں کو زراعت کے پائیدار طریقوں مثلاً مخلوط کھاد، فصلوں کی باقیات کو جلانے میں تخفیف ، مٹی کی جانچ، کیڑوں پر ذمہ دارانہ طور پر قابو پانا اور آبی تحفظ کے ذریعہ آب پاشی کی تربیت دی جاتی ہے۔ اس تربیت کا مقصد کاشت کار برادریوں کوماحولیاتی تبدیلی سے پیدا شدہ منفی اثرات کو کم کرنے میں مدد کرنا بھی شامل ہے۔

افسران کا ماننا ہے کہ یہ اشتراک کافی کامیاب رہا ہے۔ خواتین کو معاشی طور بااختیار بنانے کے ثبوت مل رہے ہیں۔ جیسا کہ ظاہر ہے کہ بہت سارے کاشت کاروں نے خود کی تصویر، اعتماد، نقل و حرکت، علم اور ذرائع تک رسائی، آمدنی، قوت فیصلہ، گھر اور برادری کے افراد اور اجتماعی طور پر قبولیت  کا تجربہ کیا ہے۔ایک مقامی آلو کاشت کار پورنیما کوڑا بتاتی ہیں ’’ میں آزادانہ طور پر بذات خود آلو پوری کاشت کرتی ہوں۔ میں یہ فیصلہ خود ہی کرتی ہوں کہ کس اراضی پر کون سی قسم کا آلو بویا جائے گا۔ لیکن جب مجھے کاشت کاری کے متعلق ضرورت محسوس ہوتی ہے تو میں اپنے شوہر سے مشورہ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتی ۔ لیکن بہر حال آخری فیصلہ میرا ہی ہوتا ہے جس میں مزدور کورکھنے کا معاملہ بھی شامل ہے۔

در حقیقت ۲۰۲۰ء میں یو ایس ایڈ کے عالمی ترقیاتی اتحاد برائے  سرمایہ کار اشتراک ماڈل کے تحت یوایس ایڈ اور پیپسی کو نے ایک بڑا پانچ سالہ منصوبہ شروع کیا۔ اس کا مقصد اتر پردیش میں پیپسی کو کو آلو فراہم کر رہی خواتین کاشت کاروں کو بااختیار بنانا ہے۔ اس پرو جیکٹ میں تین دیگر ممالک پاکستان، ویتنام اور کولمبیا بھی شامل ہیں۔

 

برٹن بولاگ واشنگٹن ڈی سی میں مقیم ایک آزاد  پیشہ صحافی ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے