انڈیانا یونیورسٹی کی ایسوسی ایٹ پروفیسر شاہ زین زیڈ عطّاری اپنی تحقیق میں اس چیز پر بات کرتی ہیں کہ و ہ کون سے تعصبات اور اثرات ہیں جو وسائل اور نظام خاص طور سے توانائی اور پانی کے استعمال کے بارے میں لوگوں کی رائے اوران کے فیصلے کو ایک شکل فراہم کرتے ہیں؟
November 2018
شاہ زین عطّاری ٹیڈ ایکس بلومِنگٹن میں ماحولیاتی تبدیلی اور توانائی کی حفاظت کے موضوع پر بات کرتے ہوئے۔(تصویر بشکریہ اِنڈیانا یونیورسٹی، بلومِنگٹن)
شاہ زین زیڈعطّاری ریاست اِنڈیانا کے شہر بلو مِنگٹن میں واقع اِنڈیانا یونیورسٹی کے اسکول آف پبلک اینڈ انوائرونمینٹل افیئرس میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں ۔ انہوں نے ۲۰۰۹ ء میں ریاست پین سلوانیا کی کارنیگی میلن یونیورسٹی سے سول اینڈ انوائرونمینٹل انجینئرنگ اور انجینئرنگ اینڈ پبلک پالیسی میں مشترکہ طور پر پی ایچ ڈی کی ۔ ان کی تحقیقی اور تدریسی دلچسپیاں علم آگاہی اور ماحولیاتی سائنس کے تقاطع میں پنہاں ہیں جو انسانی سلوک اور وسائل کے استعمال پر کیے جانے والے ان کے کام میں جھلکتی ہیں۔ ان کی تحریریں ججمینٹ اینڈ ڈسیزن میکنگ ،گلوبل انوائرونمینٹل چیلنج اور پروسیڈینگس آف دی نیشنل اکیڈمکس آف سائنسیز جیسے مختلف رسائل میں شائع ہو چکی ہیں۔ ان کی تحقیق دی نیویارک ٹائمس اور دی اکانامسٹ میں بھی شائع ہو چکی ہے۔
حال ہی میں ۲۰۱۸ ء کے اینڈریو کارنیگی فیلو کے لیے پروفیسر عطّاری کے نام کا اعلان کیا گیا۔ یہ ان تحقیق کاروں، صحافیوں، دانشوروں اور مصنفوں کو دیا جانے والا ایک ممتاز اعزاز ہے جو سائنس، قانون، ٹیکنالوجی، تجارت اور عوامی پالیسی کے شعبے میںنمایاں خدمات انجام دیتے ہیں۔۳۱ وظیفہ یافتگان میں سے ایک عطّاری بھی ہیں جن کا انتخاب قریب ۳۰۰ امیدواروں میں سے کیا گیا ۔ ان کا انتخاب ان کے پروجیکٹ موٹیویٹنگ کلائمیٹ چینج سولیوشنس بائی فیوزنگ فیکٹس اینڈ فیلنگس کی بنیاد پر کیا گیا ۔ وہ اِنڈیانا یونیورسٹی کی پری پیئرڈ فار انوارئرونمینٹل چینج مہم کا بھی حصہ ہیں۔ پیش ہیں ان سے لیے گئے انٹرویو کے اقتباسات ۔
آج کے ماحولیات سے متعلق اہم سروکار کیا ہیں؟
ہمیں بہت سارے ماحولیاتی مسائل کا سامنا ہے لیکن آب و ہوا کی تبدیلی سب سے بڑے اور سنجیدہ مسائل میں سے ایک ہے ۔ آب و ہوا کی تبدیلی بہت سارے ماحولیاتی اور معاشرتی مسائل کوجنم دینے کاباعث بنے گی ۔ اس کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ ہمارا موسم زیادہ گرم ہو جائے گا بلکہ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ہمیں شدید موسم ، سمندری سطح میں اضافہ، گرم لہریں،نسلوں کاخاتمہ، سمندر کی آلودگی، جنگلوں میں آگ اور اس طرح کے بہت سارے مسائل سے نمٹنے کے لیے تیار رہنا ہوگا ۔
انفرادی سطح پر لوگ ان ماحولیاتی سروکاروں سے کیسے نمٹتے ہیں؟
انفرادی طور پرماحولیاتی مسائل سے لوگ مختلف طریقوں سے نمٹتے ہیں۔ بہت سارے لوگ جو یہ خیال کرتے ہیں کہ آب و ہوا کی تبدیلی ایک مسئلہ ہے ، وہ شاید یہ نہیں جانتے کہ وہ خود اس مسئلے کے حل کے لیے کیا کرسکتے ہیں ۔ ایسا ہو سکتا ہے کہ وہ یہ خیال کریں کہ ان کا کام سمندر میں ایک بوند کی مانند ہوگااور نتیجے کے طور پر کسی نمایاں تبدیلی کا باعث نہیں بنے گا ۔ ہمیں ان طریقوں کی شناخت کی بھی ضرورت ہے جن کے ذریعے یہ تمام بوندیں اکٹھا ہوں اور لوگوں کو اپنا رویہ تبدیل کرنے کی اور ایسی پالیسیوں کی حمایت کی ترغیب دیں جو توانائی کے استعمال اور ماحولیات کے تحفظ کے ہمارے طریقوں میں تبدیلی لاسکیں۔ کاربن ڈائی آکسائڈ کے اخراج پر جرمانہ عائد کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ ہمیں آلودگی سے متعلق اپنی ذمہ داری کا احساس ہو اور ہم منظم طریقے سے ان اخراج کوکم کرنا شروع کریں اور اسے صفر تک محدود کر دیں۔
ماحولیاتی اورشناسا سائنس کے شعبوں کے بارے میں بتائیں۔
علم و تحقیق کی دنیا میں یہ ایک پھلتا پھولتا شعبہ ہے جس نے چند دہائیوں کے دوران نفسیات ، عمرانیا ت ، بشریات ، علم آگاہی اور معاشیات کا پس منظر رکھنے والے ماہرین کی وجہ سے ترقی کی ہے۔ اس شعبے میں ہم تحقیق سے متعلق جو سوالات پوچھتے ہیں اور جو جوابات ہمیں ملتے ہیں وہ انتہائی حد تک بین موضوعاتی ہوتے ہیں۔ اور جن سوالات پر میں نے اپنے کریئر میں توجہ دی ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں : لوگ کس طرح اس بات کا پتہ لگاتے ہیں کہ مختلف اَیپلائنسیز(گھریلو استعمال کی اشیاءخاص کر بجلی یا گیس سے چلنے والی چیزیں جیسے ٹوسٹر ، ریفریجریٹر وغیرہ )کتنی توانائی اور کتنا پانی استعمال کرتے ہیں؟لوگ کیسے سمجھتے ہیں کہ پانی کا نظام کس طرح کام کرتا ہے؟ہم رویے میں تبدیلی کو کس طرح تحریک دیتے ہیں؟ اور لوگ کس طرح اپنی عادتوں کو تبدیل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں؟
حال ہی میں آپ کے نام کا اعلان ۲۰۱۸ء کے اینڈریو کارنیگی فیلو کے لیے کیا گیا۔ کیا آپ بتائیں گی کہ آپ کے تحقیقی پروجیکٹ کے مقاصد کیا ہیں؟
اینڈریو کارنیگی فیلو کے طور پر میرا مقصد ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق عمل کو تحریک دینے کے لیے ۳ تحقیقی چیلنجوں کے ذریعے اہم مسائل کے حل کی شناخت ہے۔ میں نے ان کی منصوبہ بندی یوں کی ہے:
۱۔ توانائی کے نظام میں کاربن اخراج کم کرنے کے لیے ماحولیاتی مسائل کے سیاسی طور پر ممکن حل کی ایک تفصیلی لائبریری تیار کرنا اوراسے مرتب کرنا۔
۲۔ ان نفسیاتی مشکلات کی شناخت کرنا جو ان مسائل کے حل کے لیے عوامی حمایت کو محدود کرتے ہیں۔ عادتوں اور پالیسیوں سے متعلق موثر تجربات کو بروئے کار لاناجو نو آموزوں کو عمل کا ایک واضح راستہ دکھائے ۔
۳۔ یہ معلوم کرنا کہ کہانیوں اور دیگر داستانوں کا استعمال کرکے جذباتی اور ادراکی سہولیات فراہم کرتے ہوئے ان تجربات کے ذریعے رویوں میں نمایاں تبدیلی کو اور لوگوں کے مثبت جذبے کو کس طرح فروغ دیا جائے۔ کہانیاں لوگوں کو تحریک دے سکتی ہیں،لہٰذا میں معلوم کرنا چاہتی ہوں کہ ہمارے ماحول کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ہم لوگ کہانیوں کا استعمال کس طرح کر سکتے ہیں۔
سائنس کی دنیا میں خواتین کے ابھرتے کردار کو آپ کس طرح دیکھتی ہیں؟
سائنس اورعلم کی دنیا میں ہمیں حقیقی صنفی مساوات کی ضرورت ہے اور یہ حقیقت ہے کہ ہم لوگ اس سے کوسوں دور ہیں۔ اس کے پیچھے بہت سارے پیچیدہ عوامل کار فرما ہیں جسے ایک معاشرے کے طور پر ہمیں حل کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہم نے کچھ تبدیلیاں دیکھنا شروع کی ہیں لیکن مساوات کے لیے ابھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے ۔ یہ تبدیلی کیسے لائی جائے اس کے لیے میری نظر میں مرداور خواتین دونوں کومشاورت کی ضرورت ہے۔ اس کا آغا ز ایسے کیا جا سکتا ہے کہ بچوں والی خواتین پر جرمانہ عائد نہ کیا جائے اور خواتین کوتحقیق اورسائنس کے شعبے میں عورتوں کے خلاف جارحانہ عزائم سے متعلق بولنے اورسننے کی سہولت فراہم کی جائے۔
میری خوش قسمتی رہی کہ مجھے زندگی میں بعض حیرت انگیز مرد وخواتین مشیر ملے جنہوں نے کالج کے زمانے سے لے کر پروفیسر بننے تک مجھے عمدہ مشوروں سے نوازا۔ مجھے ایک بہت اچھے خاندان میں پرورش پانے کا بھی شرف حاصل ہوا ہے جہاں تحقیق اور علمی زندگی کے میرے فیصلوں کی ہمیشہ حمایت کی گئی، حال آں کہ میری پڑھائی ہمارے ثقافتی رسم و رواج کے خلاف تھی۔ ایسے والدین کا ہونا جو اپنے بچوں کے تجسس کو ان کے بچپن ہی میں فروغ دیتے ہیں ،انتہائی اہم ہے اوریہ ایک بڑی نعمت بھی ہے۔ میں اسی لیے اپنی کامیابی کا سہرا اپنے والدین کے سر باندھتی ہوں۔
نتاشا ملاس نیو یارک سٹی میں مقیم ایک آزاد پیشہ قلمکارہیں۔
تبصرہ