موزوں ادارے کی تلاش

موزوں یونیورسٹی کی تلاش چیلنج سے بھر پور ہو سکتی ہے۔ امریکی یونیورسٹی کے عہدیداروں اورسابق بھارتی طلبہ سے جانیں کہ کس طرح آرزو مند طلبہ درست تعلیمی ادارے کی تلاش کر سکتے ہیں۔

پارومیتا پین

April 2022

موزوں ادارے کی تلاش

تصویر بشکریہ دیپالی شاہ/فُٹ ہِل اینڈ ڈی اِنزا کالیجیز

امریکی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کرتے وقت بین الاقوامی طلبہ کو بہت سے عوامل، مثال کے طور پر محل وقوع ، مالی اعانت ، کلاس کا حجم ، اساتذہ، کیمپس کی سرگرمیوں اور بھرتی وغیرہ کو مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ تاہم، بہت سے طلبہ جب یہ طے کرتے ہیں کہ انہیں درخواست کہاں دینی ہے تو وہ کسی ادارے کی درجہ بندی یا  اس کے برانڈ ویلیو پر بہت زیادہ توجہ مرکوز کرتے ہیں۔حالانکہ  درجہ بندی کسی ادارے کے مجموعی تعلیمی ماحول کا اندازہ لگانے کا ایک طریقہ ہو سکتی ہے، لیکن یہ بنیادی وجہ نہیں ہونی چاہیے۔

لہٰذا، اسکولوں کا انتخاب کرتے وقت طلبہ کو سب سے اہم عنصر کس چیز کو ذہن میں رکھنا چاہیے؟  برکلے میں  واقع کیلیفورنیا یونیورسیٹی (یو سی) میں عبوری سینئر اسسٹنٹ ڈائریکٹر،  انٹرنیشنل ٹیم منیجر کیمرون صدفی کہتے ہیں’’ میرے تجربے میں اس سوال کا صرف ایک ہی جواب ہے: موزوں کالج ، یا دوسرے لفظوں میں، اس بات کا پیمانہ کہ کوئی کالج یا یونیورسٹی آپ کی ضروریات اور خواہشات کو کتنا پورا کرتی ہے۔میں اکثر وبیشتر  دیکھتا ہوں کہ طلبہ یو سی برکلے کی درجہ بندیوں  کے بارے میں پرجوش ہوتے ہیں جو کہ ممتاز  ہوتی ہے۔ تاہم یونیورسٹی کے انفرادی ’موزوں  عوامل‘  آپ اور آپ کے کنبے کی ضروریات کی کس طرح تکمیل کرتے ہیں، اسکے مقابلے میں  درجہ بندی،  ادارے سے قطع نظر بہت زیادہ مطابقت کھو دیتی ہے۔‘‘

صدفی صلاح  دیتے ہیں کہ ان موزوں عوامل یعنی تعلیمی، سماجی، ماحولیاتی، مالیاتی اور پیشہ وارانہ سے متعلق سوالات پوچھنا ضروری ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’ آپ کی انفرادی ضروریات کے لیے ان عوامل کا موزوں  ہونا کسی بھی کالج یا یونیورسٹی میں آپ کی کامیابی کے لیے کسی بھی درجہ بندی سے نمایاں طور پر زیادہ  اہم ہو گا ۔اس لیے کالج یا یونیورسٹی کا انتخاب کرتے وقت یہ جاننا ضروری ہے کہ آپ کی انفرادی کامیابی کے لیے ان میں سے کون سے موزوں عوامل سب سے اہم ہیں۔ آپ خود  سے پوچھیں کہ آپ کو کیا ضرورت ہے اور کیا چاہتے ہیں۔ اپنے کنبے  سے پوچھیں کہ انہیں کیا ضرورت ہے اور آپ سے کیا امید ہے۔ ہر یونیورسٹی سے پوچھیں کہ وہ ان میں سے ہر ایک موزوں عوامل اور آپ اور آپ کے کنبے کے لیے سب سے اہم کے سلسلے میں کیا پیشکش کرتی ہے اور فراہم کر سکتی ہے۔‘‘

امریکہ  کا محکمہ تعلیم تقریباً چار ہزار ڈگری دینے والے تعلیمی اداروں کی فہرست بندی کرتا ہے اور ایک ایسی یونیورسٹی کی تلاش جو آرزومند طالب علم کی ضروریات کو پورا کرتی ہو بہت زیادہ ہو سکتی ہے۔ ورجینیا ٹیک میں بین الاقوامی داخلوں کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ٹائلر آکسلے کہتے ہیں کہ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ  امریکہ میں ملک کے مختلف حصوں میں مختلف قسم کی یونیورسٹیاں ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’یہاں بڑی ریسرچ یونیورسٹیاں یا چھوٹے پبلک اسکول ہیں جو بڑے شہروں اور چھوٹے قصبوں میں واقع ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا، میں طلبہ سے کہتا ہوں کہ وہ یونیورسٹی میں کیا تلاش کر رہے ہیں اس کا پتہ لگائیں  یا   یہ جاننے کی کوشش کریں کہ  وہ کیا چاہتے ہیں؟ اس سے ان اسکولوں کا پتہ لگانا آسان ہو جاتا ہے جن کے پاس ایسے پروگرام ہیں جو ان کے معیار پر پورے اترتے ہیں۔‘‘

دریافت   کے مختلف راستے

طلبہ اسکول یا ڈگری سے اپنی ضروریات معلوم کرنے کے لیے الگ الگ طریقے اختیار کر سکتے ہیں۔ ۲۰۰۹ء میں فلوریڈا یونیورسٹی سے ماحولیاتی سائنس اور پالیسی میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کرنے والے نمیش اپادھیائے کا کہنا ہے کہ  اسٹیٹمنٹ آف پرپس ( اظہار مقصد)  کا مسودہ تیار کرنے کے عمل نے انہیں اس بارے میں گہرائی سے سوچنے پر مجبور کیا کہ وہ کیا پڑھنا چاہتے ہیں اور وہ اس علم کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں جو انہیں اپنی  اعلیٰ تعلیم سے حاصل ہو گا ۔ اپادھیائے کہتے ہیں ’’ میرے ویزا انٹرویو میں بھی  مجھ سے یہی سوال پوچھا گیا تھا اور سوچ کی کچھ وضاحت ہونے سے  یقینی طور پر مدد ملتی  ہے۔‘‘

اطلاقی ریاضی اور معاشیات میں دوہری میجر کرنے والی گوری تلوار کی متعدد دلچسپیاں تھیں اور وہ ان سب کو حاصل کرنا چاہتی تھیں۔ ان کا داخلہ  برنارڈ کالج میں کرایا گیا تھا لیکن ان کے میجرز بنیادی طور پر نیویارک سٹی  کی کولمبیا یونیورسٹی میں ہوئے تھے ۔ وہ کہتی ہیں  کہ ان اداروں کو منتخب کرنے کی وجہ یہ تھی کہ ’’ان کے پاس واقعی مضبوط تعلیمی پروگرام تھے اور کیمپس میں زندگی بھی واقعی جاندار تھی۔ وہ بتاتی ہیں ’’میں بنیادی طور پر ریاضی اور رقص کی پڑھائی  کرنا  چاہتی تھی  اور بہت کم کالج ایسے تھے جو  ان دونوں میں واقعی اچھے تھے۔‘‘   تلوار، جن  کی پرورش وپرداخت ممبئی میں ہوئی، انہوں نے  یہ بھی واضح کر دیا  تھا کہ وہ کسی شہر کے  کالج جانا چاہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’’ مجھے  لوگوں کے ارد گرد رہنے، ہجوم کے آس پاس رہنے کی بہت عادت تھی۔ مجھے نہیں لگتا کہ ایک  دیہی کیمپس نے میرے لیے اتنا اچھا  کام کیا ہوگا۔‘‘

شہر پیشہ وارانہ فوائد بھی پیش کر سکتے ہیں۔ اوہائیو اسٹیٹ یونیورسٹی سے ماسٹر آف آرکیٹیکچر کی ڈگری حاصل کرنے والی ممبئی کی ایک پریکٹسنگ آرکیٹیکٹ اتیتا شیٹی کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی کا انتخاب ان کی اپنی تحقیق کے ساتھ ساتھ ان اداروں کے امتزاج پر مبنی تھا جن کی ان کے صلاح کاروں نے سفارش  کی تھی یا  جہاں سے انہوں نے  گریجویشن کیا تھا۔ وہ کہتی ہیں ’’بڑے شہروں میں یا ان کے آس پاس رہنے کا مطلب اکثر بہتر  ملازمت کے امکانات ہو سکتے ہیں۔‘‘

اپنی تحقیق کریں

متعدد  طلبہ ان یونیورسٹیوں کا پتہ لگانے  کے لیے گہری تحقیق کرتے ہیں  جس میں وہ درخواست دینا چاہتے ہیں۔۲۰۱۹ء میں یونیورسٹی آف میری لینڈ سے بزنس اینالیٹکس میں ماسٹر ڈگری حاصل کرنے والے ایشور شیشادری کہتے ہیں ’’ پہلا قدم واضح طور پریہ  سمجھنا تھا کہ میں گریجویٹ پروگرام سے کیا چاہتا ہوں۔ چونکہ میں نے ابتدائی طور پر پتہ لگانا شروع کر دیا تھا، اس لیے مجھے اس بارے میں تھوڑی سی وضاحت تھی کہ مجھے کیا پسند ہے اور کیا نہیں۔دوسرا مرحلہ یہ سمجھنا تھا  کہ  کسی خاص  یونیورسٹی کا پروگرام اس ڈھانچے  میں کیسےموزوں  بیٹھتا ہے۔ مثال کے طور پر، ایک مخصوص یونیورسٹی میں تجزیاتی پروگرام  کا رخ تکنیکی نمائش کی طرف زیادہ  ہو  سکتا ہے جبکہ اسی نام کا پروگرام مکمل طور پر  کہیں اور کاروبار پر مرکوز ہو سکتا ہے۔‘‘

شیشادری کی تحقیق میں کلاس روم کے تجربے اور مالی امداد سے لے کر جغرافیائی محل وقوع اور سابق طلبہ کے نتائج تک کے عوامل شامل تھے۔ وہ کہتے ہیں ’’ ایک بار جب داخلے کافیصلہ  ہو گیا اور میرے پاس اسکولوں کا ایک گروپ  تھا جس میں سے میں منتخب کر سکتا تھا، میں نے اس عمل کو دوبارہ دہرایا۔‘‘

 یونیورسٹی آف ساؤدرن  کیلیفورنیا ویٹربی انڈیا آفس کی ڈائریکٹر سدھا کمار کہتی ہیں’’ تحقیق کرنے میں وقت تو درکار ہو تا ہے لیکن  یہ  وقت کا اچھا استعمال ہے۔‘‘  تحقیقی عمل کے دوران طلبہ  یونیورسٹی کے بارے میں جو سوالات پوچھ سکتے ہیں ان میں یہ سوالات شامل  ہو سکتے ہیں: کیا یہ اس قسم کا کورس پیش کرتا ہے جس میں وہ دلچسپی رکھتے ہیں اور کیا اس سے انہیں اپنے اہداف  کے حصول  میں مدد ملے گی؟ کیا کورس ورک اتنا ہی عملی ہے یا نظریاتی جیسا کہ وہ چاہتے ہیں؟ کیا ادارے کے اساتذہ اپنے مضامین  میں قائد کی حیثیت رکھتے ہیں ؟کیا یونیورسٹی کے پاس صنعت کے ساتھ اس قسم کی شراکت داری  ہے جو وہ چاہیں گے؟ یونیورسٹی کا ماحول کیسا ہے؟ وہ کہتی ہیں’’ہر طالب علم کے لیے جو  عنصر ان کے نزدیک  سب سے اہم ہے، وہ الگ الگ ہو سکتے ہیں اور  انہیں ان یونیورسٹیوں میں درخواست دینی چاہیے جو ان کی ترجیحات پر پوری اترتی ہوں۔‘‘

درخواست دینے  کا عمل جتنا پیچیدہ اور طویل لگ سکتا  ہے، لاتعداد بین الاقوامی طلبہ نے کامیابی سے پتہ لگایا ہے اور انہیں ان یونیورسٹیوں میں قبول کیا گیا ہے جنہوں نے کامیاب کریئر شروع کرنے میں مدد کی ہے۔ جیسا کہ آکسلے کہتے ہیں ’’امریکہ کا  تعلیمی نظام اس قدر متنوع ہے کہ وہاں طلبہ کے لیے مواقع کی کمی نہیں ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ  کس قسم کی یونیورسٹیاں تلاش کر رہے ہیں  اور  انہیں موزوں یونیورسٹی ملنے جا رہی ہے۔‘‘

پارومیتا پین  رینو میں واقع یونیورسٹی آف نیواڈا میں گلوبل میڈیا اسٹڈیز کی معاون  پروفیسر ہیں۔


ٹَیگس

تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے