فلبرائٹ کے ۴۰ سال

بھارت میں فلبرائٹ پروگرام کی ۴۰ ویں سالگرہ کی تقریبات میں ایک یادگاری اشاعت کا اجراء بھی شامل ہے جس میں متعدد بھارتی شرکاء کی یادیں شامل ہیں۔ اسپَین پیش کرتا ہے بعض اقتباسات ۔

تحریر:مینا سانیال

February 1990

فلبرائٹ کے ۴۰ سال

بائیں: چترا نائک(دائیں)،۱۹۵۳؛ سب سے اوپر مرکز میں: گریش کرناڈ اپنی فیملی کے ساتھ؛ نیچے وسط میں: ایس وی چٹّی بابو(مرکز میں)، ۱۹۶۶؛ دائیں : پربھاکر مچاوے، ۱۹۶۰۔ تصاویر بشکریہ یو ایس ای ایف آئی ۔

یونائٹیڈ  اسٹیٹس ایجوکیشنل فاؤنڈیشن ان انڈیا (یو ایس ای ایف آئی)۱۹۵۰ءسے امریکہ اوربھارت  کے درمیان علمی تبادلے کا  ایک اہم مرکزِ توجہ  بن گیا ہے، جس نے ہمارے دونوں ممالک کے لوگوں کے درمیان امداد باہمی ، دوستی اور افہام و تفہیم کے خصوصی رشتے  قائم کیے ہیں۔

یو ایس ای ایف آئی کا قیام بھارت  میں فلبرائٹ پروگرام کو چلانے کے لیے۲ فروری ۱۹۵۰ء کو وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور امریکی سفیر لوائے ڈبلیو ہینڈرسن کے ذریعہ ایک معاہدہ پر دستخط کرنے سے عمل میں آیا تھا۔ پروگرام کا بنیادی مقصد ’’تعلیمی رابطوں کے ذریعے علم اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے وسیع تر  تبادلے کے ذریعے ریاستہائے متحدہ امریکہ اور بھارت  کے عوام  کے درمیان باہمی افہام و تفہیم کو فروغ دینا ہے۔‘‘

ابتدائی برسوں  میں فاؤنڈیشن کی کامیابی اس کی اوّلین  ڈائریکٹر  افسانوی شہرت کی مالکہ اولائو ریڈک کی غیر معمولی  کوششوں  کا مرہون منت  تھی۔ بھارت ۔امریکہ  کے درمیان تبادلہ پروگرام  کی پیش رفت کی علمبردار ریڈک متعدد تعلیمی اور علمی اقدامات سے وابستہ تھیں، جن میں ۱۹۶۴ء میں حیدرآباد میں امریکن اسٹڈیز ریسرچ سینٹر کا قیام بھی شامل تھا۔ ۱۹۵۱ء میں جب وہ فاؤنڈیشن کی باگ ڈور سنبھالنے یہاں پہنچیں  تو وہ بھارت کے لیے اجنبی نہیں تھیں۔ ۱۹۲۰ء  کی دہائی کے اوائل میں اور پھر ۱۹۳۰ء کی دہائی کے آخر میں انہوں نے لکھنؤ میں واقع ازابیلا تھوبرن کالج میں معاشیات کی تدریس کی تھی۔ انہوں  نے ۱۹۴۰ء کی دہائی کے وسط میں امریکی  محکمہ خارجہ کے ساتھ  کام کیا تھا۔بھارت کے دوران قیام انہوں نے کچھ وقت  نئی دہلی میں  بھی گزارا تھا۔ اس طرح جب انہوں نے  فاؤنڈیشن کی باگ ڈور سنبھالی تو انہیں بھارت کے بارے میں پہلے سے علم تھااور  کالج کے کلاس رومز کے علاوہ ان کے پاس وسیع انتظامی تجربہ  بھی تھا۔

ممتاز ڈائریکٹروں کی طویل فہرست ریڈک سے لے کر  موجودہ ڈائریکٹر شاردا نائک تک جاری ہے۔ ۱۹۷۳ءمیں چارلس بووے، جنہوں نے دو سال تک ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دیں، نے پہلے بھارتی  ڈائریکٹر سی ایس  راما کرشنن کو چارج سونپا اور  اسے’’ ایک طویل عرصے سے زیر التواء عمل‘‘ قرار دیا۔ بووے نے کہا ’’ میرا  یو ایس  ای ایف آئی میں سب سے قابل ذکر کارنامہ فاؤنڈیشن کو اہل بھارتی ہاتھوں میں منتقل کرنے کی صدارت کرنا تھا۔یہ ایک ایسا قدم تھا  جس کا نتیجہ بعد میں بہت اچھا نکلا۔‘‘

گذشتہ برسوں میں  بھارت  میں فلبرائٹ پروگرام نے ۷۵۰۰ سے زیادہ امداد یافتگان کو فیضیاب کیا  ہے جن میں سے تقریباً نصف ہندوستانی اور آدھے امریکی ہیں۔ بہت سے بھارتی فلبرائٹ امداد یافتگان واپس  جا کر  اپنے ملک میں اہمیت کے حامل عہدوں پر فائز ہو چکے ہیں۔ مثال کے طور پر،  ۱۹۸۵ء میں، ۲۷بھارتی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر فلبرائٹ المنائی  تھے۔انڈیا کا فلبرائٹ پروگرام دنیا کے سب سے بڑے پروگراموں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا  دور رس پروگرام ہے جو امریکی سینیٹ کے رکن  جے ولیم فلبرائٹ کی وسیع النظری کی بدولت ممکن ہوا ۔ دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر فلبرائٹ کی کفالت سے ہوئی قانون سازی نے  دنیا بھر کے گوداموں میں بے کار پڑی امریکی فاضل املاک کی طرف توجہ مبذول کرائی  تاکہ اقوام کے درمیان وسیع تر تفہیم کی ضرورت کو پورا کیا  جا سکے۔ انہوں نے طلبہ، محققین اور پروفیسروں کے بین الاقوامی تبادلے کے ذریعے بین ثقافتی تعلیم کو مختلف ثقافتوں اور معاشروں کے درمیان فاصلے کو ختم کرنے کے طریقے کے طور پر دیکھا۔

یکم اگست  ۱۹۴۶ءکو قانون کی شکل لے لینے کے بعد  فلبرائٹ ایکٹ نے ریاستہائے متحدہ  امریکہ کے پاس موجود غیر ملکی زر مبادلہ کو مطالعہ، تدریس، لیکچر یا جدید تحقیق کے مقاصد کے لیے  ریاستہائے متحدہ امریکہ  اور اس میں شامل ممالک کے درمیان تعلیمی تبادلے کی مالی اعانت کے لیےاستعمال کرنے کی اجازت دی۔ خیال پسند آیا  اور پروگرام مسلسل  فروغ پاتا گیا۔ آج دنیا بھر میں ۴۰ ممالک کے امریکہ کے ساتھ باضابطہ تبادلے کے معاہدے ہیں اور بہت سے دوسرے امریکی اطلاعاتی خدمات کے ثقافتی دفاتر کے ذریعے پروگرام میں شرکت کرتے ہیں۔

۱۹۸۷ء میں دنیا بھر میں ۲۰۸۵۹افراد نے اس پروگرام میں حصہ لیا۔ اس سال پروگرام میں امریکہ کا تعاون  ۱۴۷ ملین ڈالر تھا۔ تیزی سے دیگر  حکومتیں تبادلہ پروگرام کے فوائد کو تسلیم کرنے میں امریکی تعاون کا مقابلہ کر رہی ہیں۔

اگر آج طلبہ اور اسکالرس زیادہ آسانی اورکثرت  کے ساتھ پوری دنیا  کا رخ کرتے  ہیں تو یہ فلبرائٹ پروگرام کی بدولت ہے۔ حالانکہ، تبادلوں  کی مالی اعانت کے لیے حکومتی پیسے کی خاطر خواہ رقم فراہم کرتے ہوئے پروگرام نے ریاستہائے متحدہ امریکہ میں غیرجانبدار بورڈ آف فارن اسکالرشپس اور زیادہ تر  حصہ لینے والے ممالک میں دو قومی بنیادوں یا کمیشنوں کو اپنے کام کاج کا  ذمہ دار  بنا کر سیاسی تحفظات کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کا خیال رکھا ہے۔

دنیا بھر میں فلبرائٹ امداد یافتگان و قابلیت کی بنیاد پر مسابقتی طور پر منتخب کیا جاتا ہے اور  وہ حکومتی نمائندوں کے طور پر نہیں بلکہ نجی شخص کے طور پر سفر کرتے ہیں۔ زیادہ تر امداد یافتگان خاطر خواہ  تعلیمی کام کو پورا کرنے اور اپنے میزبان ملک اور اس کے معاشرے سے واقف ہونے کے لیے کافی عرصہ تک رہتے ہیں۔ مختلف ممالک کے عوام  کے درمیان پائیدار روابط کا نتیجہ ہماری دنیا میں مختلف ثقافتوں اور طرز زندگی کے بارے میں زیادہ سے زیادہ تفہیم اورستائش  کا باعث بنتا ہے۔

 

جے ڈبلیو فلبرائٹ، سابق امریکی سینیٹر

مجھے آپ کو اور انڈیا فلبرائٹ کمیشن کےارکان  کو اس کی  ۴۰ ویں سالگرہ پرتہنیت  اور مبارکباد بھیجتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے۔ جنگی قرضوں کے توازن کے ساتھ ایجوکیشنل فاؤنڈیشن کے قیام  نے پروگرام کو استحکام اور وقار بخشا جس نے اس کی اثر انگیزی  میں اپنا تعاون پیش  کیا۔ مزید برآں، یہ جنگ کے ملبے کو مستقبل میں امن قائم کرنے کی تعمیری کوشش میں تبدیل کرنے کا ایک علامتی عمل تھا۔اعلیٰ جوہری تکنیک کے اس دَور میں بنیادی چیلنج انسانی رشتوں  کے میدان میں نفسیات اور تعلیم میں سے ایک ہے۔ ہمیں ہمدردی اور عام فہم، عقل اور تخلیقی تخیل اور ثقافتوں کے درمیان ہمدردی اور افہام و تفہیم کی انسانی صفات کو اپنانا چاہیے۔ ان صفات کی آبیاری تمام حقیقی معلمین کی بلند ترین آواز  ہے،  ایک ایسی آواز جس کے تئیں یو ایس  ایجوکیشنل فاؤنڈیشن  ان انڈیا اور اس کے سابق طلبہ عہدبستہ  ہیں۔

 

ڈبلیو رابرٹ ہومس، یو ایس ای ایف آئی  ڈائریکٹر، ۱۹۷۱۔۱۹۶۷

یہ یاد دلاتے ہوئے واقعی خوشی ہو رہی  ہے کہ یونائیٹڈ اسٹیٹس ایجوکیشنل فاؤنڈیشن  ان انڈیا کے  جلد ہی ۴۰ سال پورے ہونے والے ہیں ۔ نئی دہلی میں ہمارے چار سال کئی لحاظ سے ہماری زندگی کے سب سے خوشگوار اور سب سے زیادہ نتیجہ خیز تھے۔ دوستی، خاص طور پربھارتیوں اور امریکیوں کی علمی برادری میں، درجنوں بھارتی یونیورسٹیوں سے شناسائی اور بالعموم بھارت اور خاص طور پر دہلی کے بھرپور ثقافتی تانے بانے میں بنے ہوئے ہونے کا اعزاز تجزیے سے پرے ہے۔ اس سے ہمیں بہت اطمینان ملتا ہے کہ فاؤنڈیشن کی خدمات ہند۔امریکی تعلقات کو مسلسل  تقویت بخش رہی ہیں اور یہ کہ ’’فلبرائٹ اسکالر‘‘ اب بھی ایک اعزازی لقب ہے۔

 

جان کینتھ گَیلبریتھ

بھارت  میں سابق سفیر، ہارورڈ یونیورسٹی، کیمبرج، مسا چیوسٹس

بھارت کے ساتھ میری وابستگی سے متعلق کوئی ایسی سرگرمی نہیں ہے جس نے مجھے زیادہ خوشی دی ہو اور کوئی ملاقات فکری طور پر ان مواقع سے زیادہ قابل قبول اور فائدہ مند نہیں رہی جب میں نے  فاؤنڈیشن ایوارڈز حاصل کرنے والوں سے ملاقات کی ہے۔ اس اہم موقع پر میری مبارکباد۔

 

ایس پی رائے چودھری، ۵۲۔۱۹۵۰

چیئرمین، انٹرنیشنل یونین آف فاریسٹری ریسرچ آرگنائزیشن، نئی دہلی

میں نے اپنی پیشگی تربیت  کے لیے راک فیلر انسٹی ٹیوٹ (اب یونیورسٹی) کا انتخاب کیا کیونکہ وہاں نصف درجن سے زیادہ نوبل انعام یافتگان  کام کر رہے تھے، جن میں پروفیسر ڈبلیو ایم اسٹینلے تھے  جو ہمارے محکمہ سے وابستہ تھے۔ یہ ایک انوکھا تجربہ تھا ۔ مجھے کئی سائنسدانوں سے وابستہ ہونے کا موقع ملا۔

 

ایم ایس  راجن،۵۲۔۱۹۵۰

بین الاقوامی تنظیم کے پروفیسر ایمریٹس، اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز، جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی

فلبرائٹ/اسمتھ/منڈٹ گرانٹس جس کی وجہ سے میں  کولمبیا یونیورسٹی میں دو سال تک تعلیم حاصل کر سکا، انتظامی امور (جو  ۱۹۵۰ء میں انڈین کونسل آف ورلڈ افیئرز میں میرے پاس تھا) سے میرے کریئرکی خواہش کو یکسر علمی امور میں  تبدیل کر دیا، جس کے لیے میں ہمیشہ ممنون رہوں گا۔  بین الاقوامی امور میں ان دو سالوں کے مطالعے/تحقیق نے میرے لیے بہت کچھ کی بنیاد رکھی جو کہ ایک معلم  کے طور پر میرے بعد کی عملی زندگی میں ہوا۔

 

ایم ایس  گور، ۵۳۔۱۹۵۱

سابق ڈائریکٹر، ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز، بمبئی

مجھے جو چیز قیمتی معلوم ہوئی وہ تھی مخصوص درسی کتابوں کا پابند ہوئے بغیر اپنے طور پر کام کرنے کی آزادی۔ یہ بھارتی یونیورسٹیوں میں تدریس کے انداز سے مختلف تھا۔ اس نے مجھے اپنے طور پر، بڑے پیمانے پر پڑھنے پر مجبور کیا۔ یہ میرے لیے ایک نیا تجربہ تھا  ۔ اور ظاہر ہے کہ اس سے تشویشات بھی وابستہ تھیں۔

 

سیتانشو مکرجی، ۵۵۔۱۹۵۳

سابق وائس چانسلر، کلیانی یونیورسٹی، کلیانی

کیا یہ ایک شاندار خیال نہیں تھا جس نے سینیٹر فلبرائٹ کو جنگ کے اضافی فنڈ کو تعلیمی تبادلے کے ایک آلے میں تبدیل کرنے کے لیے قانون سازی شروع کرنے پر مجبور کیا جس نے سینکڑوں اسکالرز کو ایک دوسرے کے ملک کا دورہ کرنے اور بھرپور فوائد حاصل کرنے کے قابل بنایا؟ فلبرائٹ ایوارڈ یافتگان  کی قدیم ترین نسل میں سے ایک کے طور پر میں یو ایس ای ایف آئی کے ڈائریکٹر اور عملے کی ستائش  کرتا ہوں جو اس اعتماد پر ایمانداری سے عمل کر رہے ہیں۔

 

چترا نائک، ۵۴۔۱۹۵۳

اعزازی ڈائریکٹر، ریاستی وسائل مرکز برائے غیر رسمی تعلیم، پونہ

کولمبیا یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنا دلچسپ تھا۔ میں نے دیہی تعلیم کے انتظام کا انتخاب کیا تھا اور اسی کے مطابق اپنے کورسز کا انتخاب کیا تھا۔ ڈاکٹر جیروم برونر (دیہی سماجیات)، ڈاکٹرسلون ویلینڈ (اسکول اور کمیونٹی)، ڈاکٹر سائر (دیہی تعلیم) اور ڈاکٹر کلارک (تعلیم کی معاشیات) کے ذریعہ دیے گئے سیمینار مجھے آج بھی یاد ہیں ۔ کولمبیا کا ماحول پر سکون اور دوستانہ تھا۔

 

پربھاکر مچاوے، ۶۱۔۱۹۵۹

ایڈیٹر، چوتھا سنسار، اندور

میں نے یونیورسٹی آف وِسکونسن کے شعبہ بھارتی مطالعات  میں چار کورسز پڑھائے، دو بھارتی ادب پر، ایک قدیم بھارتی ثقافت پر اور ایک مہاتما گاندھی پر۔ میں ڈھائی سال تک امریکہ میں رہا اور ایک ساحل سے دوسرے  ساحل کا سفر کیا۔ وہ کینیڈی کی انتخابی مہم کے دن تھے۔ نہرو امریکہ گئے اور مجھے نیویارک میں ملاقات کے لیے بلایا۔

اس دور دراز ملک میں چار چیزوں نے مجھے بہت متاثر کیا۔ تکنیکی ترقی اورمشینوں اور آلات  پر انحصار کے باوجود دوسری ثقافتوں کے لیے تجسس، نقطہ نظر کی تازگی، انفرادی رائے کی آزادی اور ایک عظیم انسان دوست لہر…. شکاگو کے رام کرشن سینٹر میں میری ملاقات ایک امریکی نوجوان سے ہوئی جس نے وویکانند کی  تمام تحریریں پڑھی تھیں۔ برکلے میں، جہاں میں نے قرون وسطیٰ کی شاعری میں بھکتی پر ایک سیمینار پڑھا، میں نے محسوس کیا کہ طلبہ کی دلچسپیاں حیرت انگیز طور پر مختلف تھیں۔بھارتی مجسمہ سازی میں شِو، تُکارام کی انسانیت، سورداس کی موسیقی، کبیر کی زبان، ٹیگور پر سنت شاعروں کا اثر۔ اس تجربے نے مجھے بہت تقویت بخشی۔

 

اے گنم، ۶۷۔۱۹۶۳

وائس چانسلر، مدراس یونیورسٹی، مدراس

فلبرائٹ سالوں نے میرے اعتماد کی سطح اور اہلیت  میں، میری خواہش  اور رویے میں، میری ذاتی ثقافت اور اقدار میں تبدیلی لائی۔ میں ان برسوں  کے ہر لمحے کو ان تمام برسوں  میں محفوظ کرتا  رہا ہوں اور آئندہ  برسوں  میں بھی کرتا رہوں گا۔

 

ڈی ایم ننجُنڈپّا، ۶۴۔۱۹۶۳

وائس چانسلر، بنگلور یونیورسٹی، بنگلور

یونیورسٹی/حکومت/صنعت کے تبادلے کا ہارورڈ ماڈل، اس کی اسکالرشپ کی روایت، اس کی ثقافت اور اپنے خیالات کو برقرار رکھنے کی آزادی میرے عزم میں مسلسل پرجوش اور رہنمائی کرنے والے عوامل رہے ہیں تاکہ بھارتی معاشرہ میں  محض ’’شامل‘‘ ہونے والا کی بجائے معاشرہ ’ ساز‘ بن سکوں۔وظائف کے  لیے  مجھے لازمی طور پر امریکی حکومت کا شکریہ ادا کرنا چاہیےجس کی بنا پر میں  ہارورڈ یونیورسٹی جا سکا۔ ایک مشترک اعتماد  جو دونوں ملکوں کو باندھتا ہے، اس  نے مجھے ہارورڈ یونیورسٹی سے جکڑ لیا، جس کا لوگو’’ویریٹاس‘‘ (سچائی) میرے ضمیر کا محافظ رہا ہے۔

 

نمائی سدن بوس، ۶۷۔۱۹۶۶

سابق وائس چانسلر، وشو بھارتی، شانتی نکیتن

گھر کے دورے جو میرے لیے منعقد کیے گئے تھے، فلبرائٹر کے طور پر میرے پہلے امریکی  دورے کےسب سے زیادہ فائدہ مند اور دیرپا فائدے ثابت ہوئے۔ امریکی عوام کے ساتھ جذباتی تعلق بڑھ گیا۔ میں نے محسوس کیا کہ مجھے ان کی عائلی زندگی، ان کے دماغ، ان کی فطری گرمجوشی اور سادگی کی گہری سمجھ ہے۔ یہ امریکہ اس سے بالکل مختلف تھا جو عام طور پر  کوئی شخص درسی کتابوں، رسالوں یا فلموں سے سیکھتا ہے۔

 

ایس وی  چٹی بابو،۶۷۔۱۹۶۶

سابق وائس چانسلر،  مدورائی۔کامراج یونیورسٹی، مدورائی  اور انامالائی یونیورسٹی، انامالائی نگر

اس دلکش  ملک میں اپنے قیام کے دوران میں نے محسوس کیا کہ امریکی تعلیم عروج پر  ہے اور مقدار اور معیار کے  غیر معمولی  مسائل کا غیر معمولی  حل تلاش کیا گیا ہے۔ سائنس کے سیلاب، سماجی اور اخلاقی اقدار کی ناگزیریاں اور عالمی منظر نامے میں نمایاں تبدیلیاں تعلیمی نظام پر اس قدر دباؤ ڈال رہی تھیں کہ تعلیمی اداروں کو، سرکاری اور نجی دونوں کو لازمی طور پر سینکڑوں اختراعی تعلیمی تجربات ، تنظیم کے طریقے، نئے تکنیکی آلات اور استاد کےرول  کے نئے تصورات کے ساتھ جواب دینا پڑا۔ یہ واقعی میرے لیے ایک دلچسپ اور فکر انگیز  تجربہ تھا۔

 

ہنومان سنگھ، ۸۶۔۱۹۸۵

ایسوسی ایٹ پروفیسر، شعبہ لائف سائنسز، منی پور یونیورسٹی، امپھال

میری تحقیق کا میدان  فش بایوکیمسٹری ہے اور امریکہ میں مجھے اپنی تحقیق کے لیے مچھلی جمع کرنے کا بہت اچھا تجربہ تھا۔ بھارت میں  مجھے ہمیشہ یہ اعزاز حاصل ہوا کہ لیباریٹری اٹینڈنٹ مقامی ماہی گیروں کے ذریعے ہماری مچھلی کی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ تاہم، جب میں امریکہ پہنچا تو مجھے بتایا گیا کہ مجھے اپنے تجربات کے لیے سمندر سے مچھلیاں  خود پکڑنی ہوں گی۔ اس نے مجھے ایک پریشان کن  پوزیشن میں ڈال دیا۔کیونکہ مجھے مچھلی پکڑنے کے جال یا لائنوں کو سنبھالنے کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ تاہم میں نے چیلنج قبول کیا اور چند دیگر ساتھیوں کے ہمراہ ماہی گیری کی کشتی میں کھلے سمندر میں نکلا اور سبھی  کو حیران کرتے ہوئے اپنی ٹریننگ کے  پہلے دن سیزن کی سب سے بڑی مچھلی (جس پر ہم کام کر رہے تھے) پکڑ لیا!

 

گریش کرناڈ، ۸۸۔۱۹۸۷

ڈرامہ نگار، ہدایت کار، اداکار اور چیئرمین، سنگیت ناٹک اکیڈمی، نئی دہلی

شکاگو یونیورسٹی کے جنوبی ایشیائی زبانوں اور تہذیبوں کے شعبے  میں فلبرائٹ اسکالر ان ریزیڈنس ہونے کے موقع نے مجھے بھرت کے ’’ناٹیہ شاسترا‘‘کو تفصیل سے پڑھنے ، کلاسیکی ہندوستانی  تھیٹر اور شاعری کے بارے میں اپنے خیالات کو واضح کرنے کا اہل بنایا اور اس کی خاطر  میں نے دو سہ ماہیوں کے لیےاس موضوع پر  کورس دیا،  ایڈ ڈماک جیسے ریسرچ طلبہ اور اساتذہ کے ساتھ گھنٹوں گپ شپ میں گزارا، اے کے  رامانوجن کے ساتھ بھارتی ادب پر ​​کورس دیا،  ہارورڈ کے سینٹرفار اسٹڈی آف ورلڈ ریلیجنز سمیت مختلف سیمیناروں میں تقریریں کیں، ڈیڈالس کے لیےبھارتی تھیٹر پر ایک مقالہ لکھا، ریجنسٹائن لائبریری (یقینی طور پر سب سے شاندار لائبریری جس میں میں نے قدم رکھا ہے) کو گھنٹوں کھنگالا، سی ایم نعیم سے سیکھا ،  شکاگو کے بین الاقوامی تھیٹر فیسٹیول میں شرکت کی ، کنڑ میں ایک انتہائی طویل  ڈرامہ لکھا، اس کا انگریزی میں ترجمہ کیا، اسے یونیورسٹی کے تھیٹر میں طلبہ کے ساتھ پیش کیا  اور بالآخر  تقریباً ہر شام گھر میں اپنے کنبے کے ساتھ  ۱۰ مہینوں تک گزارا۔ یہ تمام وہ چیزیں تھیں جن کی اجازت میرا پیشہ مجھے بھارت  میں نہیں دیتا!

 

ڈی وَینکٹیش ورالو، ۸۹۔۱۹۸۸

لیکچرر، اے ایس آر سی ، عثمانیہ یونیورسٹی کیمپس، حیدرآباد

میں نے ایلی ویزل، ساؤل بیلو، ناتھن گلیزر، ولیمس فلپس، نارمن پوڈورٹز، نوم چومسکی، وائنے  سی بوتھس، مارشل اسکلین، رابرٹ بوسٹین، ڈیوڈ پرکنز کے انٹرویوز ریکارڈ کیے ہیں…. میں ایک ناشر  کی تلاش میں ہوں۔ برانڈیس میں میرا فلبرائٹ سال انتہائی نتیجہ خیز رہا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر ملاقاتوں کا اہتمام  میرے اساتذہ نے وہاں کیا تھا۔

 

ماضی کی خبر، مستقبل پر نظر

شاردا نائک

بھارت  میں فلبرائٹ ایکسچینج پروگرام کی چار دہائیوں میں یو ایس  ای ایف آئی  کے کام کی نوعیت میں بہت سی تبدیلیاں آئی ہیں۔ ان تبدیلیوں نے بھارت  اور امریکہ دونوں میں ماہرین تعلیم کے وسیع تر خدشات پر ہمارے ردعمل کو ظاہر کیا ہے۔ جنگ کے بعد کی دنیا میں مضبوط انسانی تعلقات استوار کرنے کی ضرورت نے سینیٹر فلبرائٹ کو تعلیمی تبادلے کے پروگرام کی تجویز پیش کرنے کی ترغیب دی جو ان کے ہی نام سے موسوم ہے۔  لیکن یہ پروگرام ان ممالک کے رنگ، شکل اور شناخت کو لے کر بڑھتا گیا جنہوں نے امریکہ کے ساتھ ان تعلیمی روابط کو فروغ دیا۔ آگے کی منصوبہ بندی میں جانس کی طرح ہم پیچھے دیکھتے ہیں اور تسلیم کرتے ہیں کہ معاشرے کو متاثر کرنے والی قوتوں نے اس ابھرتے  ہوئے درخت میں نئی ​​ٹہنیاں پھوٹنے کا حوصلہ دیا ہے۔

فلبرائٹ اسکالرز کی دو نسلوں نے تدریس اور تحقیق کی بنیادیں  رکھی ہیں۔ آج فلبرائٹ پروگرام میں حصہ لینے والے ماہرین تعلیم کو اپنے پیش روؤں سے کہیں زیادہ معلومات تک رسائی حاصل ہے اور وہ اپنے تعلیمی تجربے کو ایک مختلف جہت دینے کی تلاش میں امریکہ جاتے ہیں۔بھارت  کی ضروریات ملک کی ترقی میں نئی ​​ترجیحات کی طرف منتقل ہو گئی ہیں اور یو ایس ای ایف آئی  کو ان کے تئیں  حساس ہونا چاہیے۔ تاہم، بھارت  اور امریکہ دونوں میں سماجی تحفظات کا ادراک ہمارے لیے ضروری ہے۔ معاشرے کی ہلچل کو پہچاننے کی ضرورت اب بھی اہم ہے۔ یہ جاننے کے لیے کہ ماضی کی تاریخ اور روایت نے ہمیں کس طرح تشکیل دیا ہے اور یہ سمجھنے کے لیے کہ حال ہمارے آنے والے کل کو کس طرح ڈھالنے کی کوشش کر رہا ہے ؛ نہ صرف یہ جاننے کے لیے کہ بھارت  اور امریکہ میں لوگ کیسے رہتے ہیں، بلکہ یہ بھی کہ وہ کیا بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اس مضمون کی اشاعت پہلے پہل  فروری ۱۹۹۰ء میں عمل میں آئی۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے