’ایموٹ الیکٹرک‘ پٹرول سے چلنے والی بائک کے لیے ایک موثر اور ماحولیاتی لحاظ سے محفوظ متبادل پیش کرتا ہے۔
July 2022
’ایموٹ الیکٹرک‘ کی سرج بائک اسمارٹ ڈیجیٹل انسٹرو مینٹیشن اور فور اسپیڈ گیئر باکس کا استعمال کرتی ہے۔ تصویر بشکریہ پرنو سِنگن پلّی۔
پرنو سِنگن پلّی نے اپنے الیکٹرک اسکوٹر سے مایوس ہو کر ۲۰۱۱ء میں الیکٹرک موٹر سائیکلوں پر کام کرنے کے لیے ایک اسٹارٹ اپ شروع کیا۔ اس وقت بھارت میں ای وی (برقی گاڑیاں) دستیاب تو تھیں لیکن وہ ابھی تک مقبول نہیں تھیں۔ نئی الیکٹرک ٹیکنالوجی نے ان لوگوں میں تشویش پیدا کردی جو الگ طرح سے گھومنے پھرنے کے عادی تھے۔ مصنوعات کی ترقی بھی ابتدائی مراحل میں تھی اور سرمایہ کاری کی کمی مسابقتی مصنوعات بنانے (اور نتیجے کے طور پر )ممکنہ خریداروں کی راہ میں حائل تھی۔
تاہم، سنگن پلّی کا موقف الگ تھا۔ وہ کہتے ہیں ’’میری سوچ یہ تھی کہ ان کے پاس جو وجہ تھی اور اس کا جو اثر تھا وہ مختلف تھا۔ مصنوعات کی خاکہ کشی کے پس منظر سے تعلق ہونے کی بنا پر مجھے لگا کہ اگر بازار میں کوئی اچھی چیز دستیاب ہو تو لوگ خوشی خوشی دو پہیوں والی برقی گاڑی خرید لیں گے۔‘‘
دس سال بعدان کی پیشین گوئی سچ ثابت ہوئی کیونکہ ان کا ا سٹارٹ اپ ’ایموٹ الیکٹرک‘ جوپہلےایموشن موٹرس‘ کے نام سے جانا جاتا تھا، اس نے نیکسس اسٹارٹ اپ ہب کے پروگرام سے ترقی کرتے ہوئے شناخت اور مالی مدد حاصل کی اور اپنے ای موٹر سائیکلوں کے لیے قومی اور بین الاقوامی ’پری ۔آرڈرز ‘حاصل کرنا شروع کر دیا۔
’ایموٹ الیکٹرک‘ نے ۱۰ برسوں میں اہم گہری معلومات حاصل کیں کیونکہ اس کی ٹیم نے اپنی الیکٹرک موٹر سائیکل پر تحقیق، ڈیزائن اور تجربہ کیا۔ یہی نہیں ،اسٹارٹ اپ نے پٹرول سے چلنے والی موٹرسائیکلوں کے لیے ایک کفایتی ، اعلیٰ کارکردگی اور آلودگی سے پاک متبادل تیار کرنے سے متعلق اپنی جستجو میں بڑے چیلنجوں پر بھی قابو پالیا۔
چیلنجز بمقابلہ مواقع
’ایموٹ الیکٹرک‘ نے عالمی سطح پر اہم کل پرزوں کی کمی کے جواب میں نہ صرف مکمل طور پر نئی ٹیکنالوجیز تیار کیں، بلکہ اس نے ۲۰۱۵ء کے ای-موٹرسائیکل ماڈل پر دوبارہ کام کر کے اسے ’سرج ‘ نامی گئیر والی الیکٹرک بائیک میں بھی بدل دیا ، جس کی نقاب کشائی ۲۰۲۱ءمیں کی گئی ۔
سنگن پلّی کے مطابق، گیئر باکس کا اضافہ لاگت کو کم کرنے کی ضرورت سے پیدا ہوا تھا۔ وہ کہتے ہیں ’’ اس بات پر غور کرتے ہوئے یہ متضاد معلوم ہوتا ہےکہ ہم ۳۰ نئے حصے شامل کر رہے ہیں۔ لیکن گیئر باکس بنیادی طور پر ایک لیور ہے اور اضافی گیئرز ہمیں نسبتاً اس چھوٹی موٹر سے بہت زیادہ کارکردگی حاصل کرنے میں مدد کرتے ہیں جو کم بجلی کھینچتی ہے اور ہمیں ایک چھوٹا کنٹرول یونٹ اور ایک چھوٹی بیٹری استعمال کرنے کی اجازت دیتی ہے‘‘۔ چونکہ یہ تین اجزاء گاڑی کی لاگت کا ۶۰ سے ۷۰فیصد بنتے ہیں، اس لیے اسے۵۰ فیصد تک کم کرنے سے اسٹارٹ اپ کے لیے لاگت میں ۲۵ فی صد کی کمی واقع ہوجاتی ہے۔
’سپلائی چین‘ کے مسلسل تبدیل ہوتے رہنے کی وجہ سے سنگن پلّی نے پایا کہ انہیں ایسے حصوں کو تبدیل کرنے کے لیے متعدد نئے ڈیزائن کرنے پڑیں گے جو وہ حاصل نہیں کر سکتے تھے۔ وہ کہتے ہیں ’’ مربوط سرکٹس کا حصول مشکل تھا اور ہم کھلے بازار میں ۱۰ گنا قیمت ادا کرنے کے متحمل نہیں تھے۔ ہم اپنے بہت سارے کل پرزوں کے ساتھ ’وہیک۔اے۔مول‘ نامی کھیل کھیل رہے تھے، پیسے کھو رہے تھے اور بازار کے موقع سے محروم ہو رہے تھے۔‘‘
سنگن پلّی کا کہنا ہے کہ اچھی خبر یہ ہے کہ گذشتہ دہائی کے دوران کئی ای وی کل پرزوں کی قیمت، بالخصوص بیٹری کی قیمت میں کمی آئی ہے اور ’ایموٹ الیکٹرک‘ کی اوّل دن سے ہی الیکٹرک گاڑیوں کے تئیں دلچسپی کے فوائد اب مل رہے ہیں۔ سنگن پلّی کہتے ہیں ’’ اخراج کے ضابطوں کو سخت کرنے سے پٹرول بائیک کی قیمت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ پیٹرول موٹرسائیکلوں کے ساتھ مسابقتی ہونے کے لیے ہمارے اخراجات کا نظم ونسق کرنا بہت ضروری ہے اور ۱۰ سال پہلے کے مقابلے اب بہتر مالی امداد نے
ہمارےکل پرزوں کے بجٹ کو بڑھانے میں مدد کی ہے۔‘‘ مزید برآں ، بھارت میں مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی طرف سے ای وی کی خریداری کے لیے بہت سی ترغیبات پیش کی جاتی ہیں۔ ان میں ای وی قرضوں کے لیے ٹیکس میں چھوٹ، رجسٹریشن سرٹیفکیٹ جاری کرنے یا تجدید کرنے کے لیے فیس سے چھوٹ اور الیکٹرک دو پہیہ گاڑیوں کے لیے ان کے لیتھیم آئن بیٹری پیک کے حجم کی بنیاد پر مالی امداد شامل ہیں۔ یہ مالی امداد ۵۰۰سے لے کر ۱۰ ہزار روپے فی کلو واٹ بیٹری صلاحیت تک ہیں اور اس سے ای وی بائیکس کی قیمت کو کم کرنے میں مدد ملی ہے۔
پروڈکٹ لائن
۲۰۱۵ء میں ’ایموٹ الیکٹرک‘ کو اپنے دو پہیوں والی ای وی کے ابتدائی پروٹو ٹائپ کے لیے ایک بار چارج کرکے سو کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ۸۰ کلومیٹر تک چلانے کی صلاحیت کی ضرورت تھی تاکہ وہ ۱۵۰ سی سی کی گیسولین سے چلنے والی موٹر سائیکل کا مقابلہ کر سکے۔ اس وقت کوئی گیئر باکس نہیں تھا، اسمارٹ آلات کو استعمال کرنے کا کوئی عمل نہیں تھا ۔ اگر کوئی چیز تھی تو بدلے جانے کے قابل بیٹری تھی۔
’ایموٹ الیکٹرک‘ کے ایک ورکشاپ میں کمپنی کے ذریعہ بنائی گئی بائک کے دو ماڈل۔ تصویر بشکریہ پرنو سِنگن پلّی۔
سنگن پلّی کہتے ہیں ’’ اب یہ اسمارٹ ڈیجیٹل آلات کے استعمال کی بدولت ۱۲۰ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی موٹر سائیکل بن چکی ہے جس کی بیٹری کو ایک بار چارج کرکے ۱۷۰ کلومیٹر تک (او ر اگر تین بیٹریاں استعمال کی جائیں تو ایک بار چار کرنے پر ۵۰۰ کلو میٹر تک چل سکتی ہیں)استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اور ایک چار اسپیڈ گیئر باکس ہے جو تیز رفتاری میں اپنے زمرے میں کسی بھی پٹرول موٹر سائیکل کو بہ آسانی شکست دےسکتا ہے۔‘‘
۲۰۲۱ء میں’ ایموٹ الیکٹرک‘، ’کوالکم ڈیزائن ان انڈیا چیلنج ‘کے ۱۱ فائنلسٹوں میں سے ایک تھی۔ اسٹارٹ اپ کو کوالکم کی طرف سے تکنیکی مدد اور تعاون بھی ملا۔ سنگن پلّی کہتے ہیں ’’ہماری موٹر سائیکل کو توانائی فراہم کرنے والے ’اسمارٹ انسٹرومنٹیشن کلسٹر ‘کے لیے ہمارے پاس ان کی مہارت اور رہنمائی تھی۔انہوں نے پرزوں کے حصول، ممکنہ گاہکوں اور سرمایہ کاروں کے تعارف اور دانشورانہ املاک کی تعمیر میں تکنیکی مدد بھی فراہم کی۔‘‘
۲۰۱۵ء میں ایک ماڈل سے’ ایموٹ الیکٹرک ‘ کے پاس اب دو متعلقہ مصنوعات ہیں جن میں سے ہر ایک کی دو اقسام دنیا بھر کے صارفین کے لیے دستیاب ہیں۔
ہلیری ہو پیک کیلیفورنیا کے اورِنڈا میں مقیم ایک آزاد پیشہ مصنفہ، اخبارات کی سابق ناشر اور نامہ نگار ہیں۔
تبصرہ