جنسی مساوات کے لیے گلوکاری 

فلبرائٹ۔ نہرو فیلو کرسچن جیمس کانگڑا وادی میں لوک گیتوں کی روایت کا مطالعہ کر رہے ہیں ۔ ان کی دلچسپی یہ جاننے میں بھی ہے کہ کس طرح ایک غیر سرکاری تنظیم ان گیتوں کے ذریعے جنسی مساوات کو فروغ دے رہی ہے۔

ہلیری ہوپیک

September 2023

جنسی مساوات کے لیے گلوکاری 

فلبرائٹ۔نہرو فیلو کرسچین جیمس ایک کمیونٹی ٹیلنٹ شو میں بولتے ہوئے۔ شو کا انعقاد جاگوری دیہی خیراتی ٹرسٹ نے ہماچل پردیش میں ناگروٹا بگوان کے قریب کیا۔(تصویر بشکریہ اَیڈی آئی میک نائٹ)

 ہماچل پردیش کی کانگڑا وادی لوک گیتوں کی اجتماعی گائیکی کے لیے مشہور ہے۔ یہ لوک گیت یہاں کی اکثر دیہی خواتین ایک پدرانہ نظام میں اپنے نقطہ نظر کو بیان کرنے کے لیے گاتی ہیں۔ امریکی فلبرائٹ ۔نہرو ریسرچ فیلو کرسچن جیمس نے  اس روایت کو اپنی پی ایچ ڈی تحقیق کے لیے چنا ہے۔ ان کے مقالہ کا موضوع ہے : ’’ ہماچل پردیش کے کانگڑا میں ترانے  کا بطور تانیثی ترقیاتی بیان استعمال۔‘‘ جیمس بلومِنگٹن میں واقع انڈیانا یونیورسٹی کے شعبہ لوک داستان اور  لوک موسیقی  سے پی ایچ ڈی کر رہے ہیں ۔

جاگوری دیہی خیراتی ٹرسٹ (جے آر سی ٹی) کانگڑا وادی میں واقع ایک غیر سرکاری تنظیم ہے جو لوک گیت کے ذریعے جنسی اور تولیدی صحت اور تعلیم تک رسائی میں حائل مسائل سے متعلق عوامی بیداری پیدا کرتی ہے۔ نیز وہ اس کے ذریعہ خطے میں خواتین  اور دوشیزاؤں کی آواز کو مضبوطی عطا کرتی ہے۔

جیمس کی تحقیق اس بات پر مرکوز ہے کہ کس طرح جے آر ٹی سی کے حقوق نسواں کے فروغ کے پروگرام موسیقی کا استعمال کرتے ہیں، خاص طور پر اجتماعی گائیکی کے ذریعے کس طرح کانگڑا وادی کی خواتین اور لڑکیوں کی زندگیوں کو بہتر بنایا جا رہا ہے۔

کانگڑا کی پکار

جیمس نے اوہائیو ومیں واقع اوبرلن کالج اینڈ کنزرویٹری میں بحیثیت انڈرگریجویٹ طالب علم ہندوستانی موسیقی اور بھکتی یوگ کا مطالعہ کیا تھا۔ ۲۰۱۴ ء میں فارغ التحصیل ہونے کے بعد جیمس کو اوبرلن شانسی فیلوشپ عطا ہوئی۔ اوبرلن شانسی دراصل امریکہ کا ایک دو سالہ تبادلہ پروگرام ہے جس کے تحت وظیفہ یافتہ شخص  کو کسی ایک ایشیائی ادارہ میں آپسی افہام و تفہیم اور احترام کے فروغ کے میدان میں کام کرنا ہوتا ہے۔ جیمس نے جے آر سی ٹی کا انتخاب کیا۔

جیمس کا واسطہ لوک موسیقی سے ۱۶۔۲۰۱۴ ءکے درمیان اس وقت پڑا تھا جب وہ جے آرسی ٹی سے بحیثیت انٹرن منسلک تھے۔ وہ کہتے ہیں ’’میں قدیم لوک گیتوں، انقلابی گیتوں اور بھارتی فلموں کے نغموں کا دلدادہ بن گیا۔ مجھے کانگڑا وادی میں جے آر سی ٹی ٹیم کے اراکین کے ساتھ ان میں شامل ہو کر گانے کا موقع بھی ملا۔ ان لوک گیتوں میں انسانی زندگی کے روزمرہ کے معمولات کو بیان کیا جاتا ہے۔ ان لوک گیتوں کے موضوعات میں کام کاج، رسم و رواج، جشن، سالگرہ، شادی بیاہ، نو مولود بچوں کا پہلا مُنڈن جیسے موضوعات بھی شامل ہیں۔‘‘

ہند نژاد امریکی لوک گیت کار کیرین نارائن کا حوالہ دیتے ہوئے جیمس کہتے ہیں ’’اجتماعی گائیکی درحقیقت روزمرہ کے معمولات، مایوسیوں اور ناکامیوں سے پرے ایک تصوراتی دنیا قائم کرنے کا کام کرتی ہے۔‘‘

سنے جانے کے لیے گانا 

جیمس کا ماننا ہے کہ اجتماعی گائیکی میں بعض ایسے موضوعات  بھی اٹھائے جاتے ہیں جن پر عام لوگ عموماً کھل کر گفتگو نہیں کر پاتے ہیں۔ شاعرہ اور جے آر سی ٹی کی شریک بانی (مرحومہ) کملا بھسین نے قدیم گانوں کی دھن پر نئے نغمے لکھے جن میں تانیثی پیغامات موجود ہیں۔  ۱۹۸۰ ءکی دہائی میں بھسین نے ایک پرانے گانے کی دھن پر نیا نغمہ لکھا جس کے بول تھے ’’توڑ توڑ کے بندھنوں کو۔‘‘ یہ در اصل ایک تانیثی گیت ہے جس میں خواتین پر ہو رہے جبر اور ظلم کو ختم کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔

ابھی حال ہی میں گلوکار موہت چوہان نے ایک لوک گیت ’’مورنی‘‘ (امّاں پُچڑی) گایا جو کہ کافی مقبول ہوا۔ اس گانے میں ایک بچی اپنی ماں سے کہہ رہی ہے کہ مورنی کی آواز سے اس کی نیند میں خلل پڑ رہا ہے۔ بھسین کے طریقہ کار کو اپناتے ہوئے جے آر سی ٹی ٹیم کے اراکین نے اس کے بولوں میں تبدیلی کر کے اس میں والدین سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کی ثانوی تعلیم کو ترجیح دیں۔

جیمس زور دے کر کہتے ہیں کہ اجتماعی طور پر گائے جانے والے لوک گیت نہ صرف جے آر سی ٹی کی فعالیت کا ایک ذریعہ ہیں  بلکہ اس میں شرکاء اور دیگر افراد آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر ایک برادری کی طرح رہتے ہیں اور اپنی آواز اٹھاتے ہیں۔

اپنے پی ایچ ڈی فیلڈ ورک کے واسطے جیمس جے آر سی ٹی ٹیم کے اراکین کے ساتھ اکثر شریک ہوتے ہیں۔ جیمس سے گانے  یا گٹار بجانے کی فرمائش کی جاتی ہے۔ وہ اسٹیج پر بھی کانگڑی گاؤں کے کسی  باشندہ  کے ساتھ نظر آتے ہیں۔

ہماچل کا سفر 

۲۰۱۴ ءسے ۲۰۱۶ ءتک جیمس نے جے آر سی ٹی کے ساتھ محض انٹرن شپ کی تھی۔ مگر یہی  ان کے لیے سنگ میل ثابت ہوئی اور ایک طویل اور خوش گوار سفر کی ضامن بھی۔ اسی دوران انہیں بھارتی موسیقی اور زبانوں سے عشق ہو گیا۔ گو کہ ۲۰۱۷ ء میں جیمس نے بلومِنگٹن میں واقع انڈیانا یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا مگر بہر حال ان کا دل کانگڑا وادی میں ہی اٹکا رہا اور وہ یہاں دوبارہ آنے کا منصوبہ بناتے رہے۔

جب ۲۰۲۰ ءمیں کووِڈ۔۱۹ عالمی وباء نے پوری دنیا کو اپنی زد میں لیا اس وقت بھی جیمس اپنی پی ایچ ڈی کا موضوع تبدیل کرنے کو تیار نہیں تھے۔ لہٰذا انہوں نے ہماچل پردیش میں نہیں قیام کرتے ہوئے بھی ہماچلی زبان سیکھی۔ انہوں نے ایسا ہماچل پردیش سے جڑے ہوئے محسوس کرنے کے لیے کیا۔ چھ برس بعد جب وہ اس خطے کی اجتماعی گائیکی پر اپنی تحقیق کو آگے بڑھانے کے لیے پھر سے کانگڑا وادی واپس آئے تو اس بار وہ ہندی، اردو، پنجابی زبانوں اور کانگڑی کی گدی اور پہاڑی بولیوں میں گفتگو کرنے کے اہل ہوچکے تھے۔

جیمس انکشاف کرتے ہیں کہ جے آر سی ٹی کی محنت رنگ لا رہی ہے کیوں کہ  کانگڑا وادی میں اب کثیر تعداد میں نوجوان لڑکیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ جیمس امید ظاہر کرتے ہیں کہ مستقبل میں وہ ہماچلی زبانوں کے احیاء میں مثبت کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ان کا ارادہ ہے کہ وہ  معاشرتی تبدیلی میں موسیقی اور متعلقہ فنون کے کردار کو سمجھنے کے لیے جے آر سی ٹی جیسی غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ کام کریں ۔

ہلیری ہوپیک  کیلیفورنیا کے اورِنڈا میں مقیم ایک آزاد پیشہ قلمکار ، ایک اخبار کی سابق ناشر اور نامہ نگار ہیں۔


اسپَین کے مضامین کو ای میل پر منگوانے کے لیے لنک میں دیے گئے فارم کو بھریں: https://bit.ly/SubscribeSPAN



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے