پُر اثر جدت کی راہ

’ڈیولپمنٹ انووویشن وینچرس ‘ ان خیالات کی مالی اعانت اورحمایت کرتا ہے جو اعلیٰ سماجی اثرات کے حامل ہوتے ہیں اور بڑے پیمانے پر،کم لاگت والے موثر عالمی منصوبوں میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔

پرومیتا پین

August 2022

پُر اثر جدت  کی راہ

پرتھم(جو ڈی آئی وی گرانٹ پانے والوں میں سے ایک ہے)نے ایک ایسا طریقہ اختیار کیا جسے درست سطح کی تدریس کہا گیا۔ اس سے پرائمری اسکول کے طلبہ کو اپنے سیکھنے کی سطح کے اعتبار سے تدریسی اعانت بہم پہنچتی ہے۔(تصویر بشکریہ پرتھم ایجوکیشن فاؤنڈیشن)

ایسی نوجوان آبادی میں خیالات اور جدت کی کوئی کمی نہیں ہو سکتی جس نے تاریخی طور پر تبدیلی کی مشعل جلانے والوں اور مفکرین کو پیدا کیا ہو۔  لیکن ان چند خیالات  کی نشاندہی کرنا مشکل ہے جو سائنسی ثبوتوں کی مضبوط بنیاد پر کھڑے ہوتے ہیں ،جن  کے پاس ایک ایسا نظام ہوتا ہے جو اعلیٰ سماجی تبدیلی کا باعث بن  سکتا ہے اور بڑی آبادی  تک پہنچنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔

’ڈیولپمنٹ  انووویشن وینچرس‘(ڈی آئی وی ) امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ )  کے  ایسے آزاد اختراعی پروگراموں میں سے ایک ہے جو پیچیدہ ترقیاتی دشواریوں میں پیش رفت کے لیے سرمایہ فراہم کرتا ہے۔ ڈی آئی وی بے لگام معاشرتی مسائل کو جدت کے ساتھ حل کرنے کے لیے وقف کاروباری پیشہ وروں ، محققین  اور تنظیموں(اس میں منافع کی غرض اور بغیر کسی غرض کے کام کرنے والی تنظیمیں دونوں شامل ہیں )کو  ان کی ضرورت کے مطابق عطیات مہیا کراتا ہے۔

اس پروگرام کے توسط سے  ان تمام شعبوں اور علاقوں  میں اختراعات کے لیے  فنڈ فراہم کیا جاتا ہے جہاں یو ایس ایڈ کام کرتا ہے۔ ڈی آئی وی میں عطیات کی فراہمی کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں اور اس کے لیے درخواستیں بھی قبول کی جاتی ہیں ۔ڈی آئی وی کی  سربراہ ساشا گیلنٹ کہتی ہیں’’ہمیں  عالمی ترقی کی راہ میں مستقل حائل مسائل کے لیے اعلیٰ اثرات سے مزین ، کم لاگت والے ، توسیع پذیر اور مالی طور پر پائیدار حل کی تلاش ہے۔ ‘‘

اختراعات کی  مالی اعانت اور سخت شواہد پر توجہ مرکوز کرنے والے ڈی آئی وی کے منصوبوں میں معمول کی لاگت  سے بہت کم قیمت پر لاکھوں زندگیوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ ۲۰۱۰ء سے یوایس ایڈ /ڈی آئی وی نے ۴۷ ملکوں میں اختراعات کے لیے  ۲۵۰ سے زیادہ   گرانٹس فراہم کیے ہیں۔  ان میں سے تقریباً ۶۰ اختراعات کا تعلق بھارت سے ہے ۔  پرتھم ایجوکیشن اور دِماغی  دو ایسی تنظیمیں ہیں جنہوں نے ڈی آئی وی نے اعزاز سے نوازا  ہے۔

جدت طرازی کی مالی معاونت

’ دماغی انکارپوریشن‘ نے ’ کوم کیئر‘ کے نام سے صحت کی دیکھ بھال اور دوسرے شعبوں میں صحت کی دیکھ بھال کرنے والے اور اگلے مورچوں پر مستعد  کارکنوں کی فیصلہ سازی ، آن لائن اندراج اور صارفین تک اہم معلومات کی رسائی کے لیے ایک متحرک نظام تیار کیا ہے۔ مسا چیوسٹس میں واقع دماغی انکارپوریشن کے دفاتر بھارت میں نئی دہلی اور جنوبی افریقہ کے کیپ ٹاؤن میں موجود ہیں ۔ ’کوم کیئر‘ اس قدر موثر ہے کہ اسے ۸۰ ملکوں میں مختلف تنظیموں نے اپنایا ہے ۔ اس سے اگلے مورچوں پر مستعد لاکھوں صحت کارکنان کو روزگار کے مواقع بھی حاصل ہوئے ہیں ۔

بھارت میں ’کوم کیئر ‘کے متعدد  منصوبوں کو نافذ کرنے کے لیے دماغی ملک بھر میں مختلف تنظیموں کے ساتھ کام کررہی ہے۔ موبائل فون پر مبنی  اس سافٹ ویئر پلیٹ فارم نے کمیونٹی ہیلتھ ورکر کے پروگراموں کواستحکام  بخشنے  اور لاکھوں لوگوں تک کمیونٹی ہیلتھ کیئر اور خدمات کی فراہمی کو بہتر بنانے میں  مدد پہنچائی ہے ۔ مثال کے طور پر بہار میں ’کوم کیئر‘ نے صحت کارکنوں کو اس قابل بنا دیا ہے کہ وہ ان خاتون شرکا کی نگرانی کرسکیں جو غذائیت پر مبنی مشروط نقدی منتقلی سے متعلق پروگرام کا حصہ تھیں۔ ’کو م کیئر‘ کی مدد سے صحت کارکن اس سے استفادہ کرنے والوں کا اندراج کرنے ، بچوں کے وزن کا حساب رکھنے اور ہر ماہ اس نظام سے مستفید ہونے والوں کی موجودگی اور ان کے ذریعہ خدمات کے استعمال کا حساب رکھنے کے قابل بناتا ہے جس سے صحت کی دیکھ بھال میں بہتری آتی ہے۔

دماغی کے سی ای او جوناتھن جیکسن کا کہنا ہے کہ ڈی آئی وی کی مالی اعانت  تنظیم کی ترقی کے لیے اہم ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’سرمایہ بہم پہنچانے والی بہت ساری تنظیموں کے برخلاف یو ایس ایڈ/ڈی آئی وی نے ہمیں اپنی اختراع کو مصنوعات میں بدلنے اورانہیں کاروباری ماڈل میں تبدیل کرنے  کی سہولت فراہم کی ۔ انہوں نے ہمیں ہر قدم پر اپنے اہداف کو حاصل کرنے اور اسےوسعت دینے  کی ترغیب دی۔‘‘

حال ہی میں اس پروجیکٹ نے بہار میں وسعت کے لیے  گیٹس فاؤنڈیشن سے اضافی عطیہ ​​میں۱۰۰ ملین ڈالر حاصل کیا ۔ ساتھ ہی عالمی سطح پروسعت کے لیے ۳۰۰ ملین ڈالر  مزید رقم  ​​حاصل کی ۔

نئی دہلی اور ممبئی میں  اپنےدفاتر کے ساتھ ایک غیر منفعتی تنظیم  پرتھم نے’ ٹیچنگ ایٹ رائٹ لیول ‘ یعنی ٹارل  فریم ورک تیار کیا ہے۔ یہ ایک  ایسا فنِ تعلیم ہے جو  ابتدائی سطح کے اسکول طلبہ کو سیکھنے کی ان کی موجودہ سطح کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لیے درکار تدریسی معاونت فراہم کرتا ہے۔’ٹارل‘ مختصر مدت میں طلبہ کے سیکھنے کے نتائج کو کم لاگت  میں مؤثر طریقے سے بہتربنانے کے لیے معروف ہے۔

پورے بھارت  میں  ۲۱ریاستوں میں ۹ لاکھ سے زیادہ بچوں تک پہنچنے کے علاوہ پرتھم کا  ’’لرننگ کیمپس ‘‘ بالواسطہ طور پر ۱۵ اعشاریہ ۷ ملین طلبہ کو شراکت داری کے ذریعہ متاثر کرتا ہے۔ ۲۰۲۱ء تک اس ماڈل کو قومی حکومت کے شراکت داروں نے افریقہ، جنوبی ایشیا اور لاطینی امریکہ کے ۱۰ سے زیادہ ممالک میں نقل کیا ہے۔

گیلنٹ  کا کہنا ہے’’بھارت میں کام کرنے سے متعلق دشواریوں  لیکن  کام کرنے کے حقیقی فائدوں میں  سے ایک وسعت بھی  ہے جو حقیقی معنوں میں قابل توجہ ہے۔ جب  ہم بھارت  میں مختلف  اداروں اور اختراع  کاروں  کے ساتھ کام کرتے ہیں  (اوراگریہ واقعی فعال ہوتا ہے) توان لوگوں کی تعداد   جو اس کام سے متاثر ہوسکتی ہے، بہت زیادہ ہوتی ہے۔‘‘

مسائل کے حل کی پیش قدمی

ان چیزوں میں سے ایک جس نے ڈی آئی وی  کی توجہ اپنی جانب کھینچی ، وہ شروع سے ہی وسعت پر مرکوز  پرتھم کی پہل تھی۔ گیلنٹ  بتاتی  ہیں’’وہ ان نظاموں کو بہتر طور پر  سمجھتے ہیں جن کے لیے  وہ کام کر رہے ہیں ۔ اور  وہ ان نظاموں کی تکمیل کے لیے بھی کام کرتے ہیں۔ جب انہیں کوئی ایسی چیز ملتی ہے جو واقعی کام کی ہو  تو وہ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ وہ صرف چھوٹے پیمانے پر کام کرنے کی بجائے  بڑے  پیمانے پر کام  کرے۔‘‘

ایک تنظیم کے طور پر پرتھم اپنے نقطہ نظر کو جانچنے کے لیے بھی پرعزم ہے۔ گیلنٹ کا کہنا ہے  ’’ثبوت کی تخلیق اور اختراع کی یہ صف بندی  بہت اہم ہے۔پرتھم نے تحقیق کا استعمال اپنی جدت پر اصرار کرنے کے لیے کیا ہے تاکہ اسے مزید  بہتر، زیادہ موثر اور زیادہ قابل توسیع بنایا جا سکے۔‘‘

پرتھم میں بین الاقوامی تعاون کی سربراہ دیویانی پرشاد کہتی ہیں’’زامبیا میں پہلے بین الاقوامی تعاون کی وسعت  کی خاطر بھارت  میں ٹارل  کے نقطہ نظر کو جانچنے کے لیے   ڈیزائن شدہ  اہم  ’رینڈمائزڈ کنٹرولڈ ٹرائلس‘(آر سی ٹی) کی حمایت  سے کام  شروع کرنے والایو ایس ایڈ/ ڈی آئی وی  بچوں کے لیے بنیادی مہارتوں کو فعال کرنے والے ٹارل کے لیے ایک نمایاں تعاون رہا ہے۔

دماغی   ان ابتدائی منصوبوں میں سے تھا جن کو ڈی آئی وی  نے بھارت  میں  مالی اعانت فراہم کی تھی ۔  اس نے اپنے ابتدائی مراحل میں ڈی آئی وی  ایوارڈ کے لیے درخواست دی تھی  اور ۲۰۱۰ءسے ہی  ان کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔ گیلنٹ کا کہنا ہے  ’’وہ واقعی اثرپذیری، وسعت  اور استعمال پر توجہ مرکوز کرنے کے ساتھ خود کو ڈھالنے میں  کامیاب رہی ہے  جس نے انہیں دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کی زندگیوں تک پہنچنے اور اصل میں بامعنی تبدیلی لانے کی سہولت فراہم کی ہے۔‘‘ گذشتہ ۱۰ برسوں  میں ڈی آئی وی کی   غیر معمولی وسعت  اور ترقی کا سہرا  جیکسن   ڈی آئی وی گرانٹ کے سر باندھتے ہیں۔

توسیع پذیری اور کم لاگت  کا استعمال

ڈی آئی وی گرانٹ کے لیے  درخواستوں کو اثرپذیری، کم لاگت اور وسعت  کےتین  اہم معیار پر پورا اترنا ہوتا ہے۔  گیلنٹ کا کہنا ہے ’’ہم ان مسائل کے حل تلاش کر رہے ہیں جو دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کو متاثر کرتے ہیں۔ اس لیے عمومیت اہم ہے۔ ہم چھوٹے پیمانے پر اختراعات اور مداخلتوں کے لیے فنڈ نہیں دے سکتے جو صرف ایک مخصوص کمیونٹی کی ضروریات کو پورا کرتی ہیں۔ ہمیں اس منصوبے سے ہونے والی تبدیلی کے بارے میں وسیع پیمانے پر سوچنا چاہیے۔‘‘

اسی کے ساتھ سیاق و سباق بھی اہم ہے۔ وہ کہتی ہیں’’ہم ایسی اختراعات کی تلاش میں ہیں جو سیاق و سباق کے لحاظ سے مناسب ہوں۔ہم ان اختراع کاروں کو فنڈ دینے کی امید کر رہے ہیں جو واقعی اس سیاق و سباق سے واقف ہیں جن میں وہ کام کر رہے ہیں۔‘‘

مثال کے طور پر پرتھم طویل عرصے سے متعدد ریاستوں میں بھارتی تناظر میں کام کر رہا ہے۔ گیلنٹ کا کہنا ہے’’اس کا تعلق  آسمان سے کوئی حل گرانے میں نہیں بلکہ  اس بات کو سمجھنے میں ہے کہ فرق پیدا کرنے کے لیے حقیقت میں کیا کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

پارومیتا پین  رینو میں واقع یونیورسٹی آف نیواڈا میں گلوبل میڈیا اسٹڈیز کی معاون پروفیسرہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے