قارئین کو باندھے رکھنے والا ایک اَیپ

موبائل ایپلی کیشنس کے ذریعے موسیقی کے ساتھ ہمارے تعلق میں انقلاب لانے کے بعدپراگ چھوردیا اور پریرنا گپتا کی ہند۔امریکی جوڑی کا ہدف پڑھنے کے عمل کو ’ہوکڈ ایپلی کیشن‘ کے ذریعے ایک لت کی شکل دینا ہے۔

کینڈس یاکونو

November 2018

قارئین کو باندھے رکھنے والا ایک اَیپ

پراگ چھوردیا(بائیں) اور ہُوکڈ کی شریک بانی پریرنا گپتا۔(تصویر بشکریہ پراگ چھوردیا)

موسیقی سے ہمارے رابطے کوایک نئی شکل دینے کی خاطر موبائل فون ایپس بنانے میں کئی برس گزارنے کے بعد کاروباری پیشہ وروں کی میاں بیوی کی ایک جوڑی نے اب ایک نئی چیز پیش کی ہے۔ یہ نیا تحفہ بھی گرچہ ایک اَیپ ہی ہے جس کی خاصیت یہ ہے کہ یہ کسی بات کو نغمے میں تبدیل کر دیتا ہے۔ ان کا یہ تجربہ نہایت کامیاب ثابت ہوا ہے۔ جب کہ ان کے ایک اور اَیپ میں گلوکاروں کو سُر کے اعتبار سے بالکل پیشہ وروں میں تبدیل کر دینے کی خاصیت ہے ۔ان تمام اختراعات کی کامیابی سے سرشار یہ جوڑی اب اپنے نئے اَیپ ہُوکڈ کے ذریعے    مطالعہ ادب کو ٹیکسٹِنگ (موبائل پر متن لکھنا اور اسے ایس ایم ایس، وہاٹس اَیپ یا کسی دوسرے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر پیغام کی شکل میں بھیجنا یا پوسٹ کرنا)کی ہی طرح ایک لت میں بدل ڈالنے کے لیے کوشاں ہے۔

ہُوکڈ کے شریک بانیان پراگ چھوردیا اور پریرنا گپتا کی ملاقات ۱۴ برس پہلے کیلیفورنیا کی اسٹین فورڈ یونیورسٹی میں ہوئی تھی۔ آج چھوردیاکمپنی کے چیف ٹیکنالوجی آفیسرہیں جب کہ گپتا سی ای اوہیں ۔

سرود نوازچھوردیا باخبر کرتے ہیں ”ہم ان مواقع اور ان مقامات پر توجہ مرکوز کرتے ہیں جہاں ادب اور تکنیک مصافحہ کر تے ہیں ۔ اپنی پچھلی نو خیز کمپنی میں ہم نے لوگوں کو ان کے موبائل پر موسیقی کی تخلیق میں مدد دینے کے لیے مصنوعی ذہانت کے استعمال کرنے کا کام کیا تھا ۔ مثال کے طور پر ہمارا ایک اَیپس ’ونگی فائی‘ بات چیت یا خطاب کو نغمے میں تبدیل کر دیتا ہے۔۲۰۱۱ ءمیں جب ہم نے اسے شروع کیا تھا تودنیا بھر میں یہ سر فہرست اَیپ تھا۔اس سے ہمارا مقصد لوگوں کی روز مرہ کی زندگی میں خوشی کے لمحات کو متعارف کرنا تھا۔‘‘

چھوردیابتاتے ہیں کہ اس سے پہلے وہ جارجیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں پروفیسر تھے جہاں انہوں نے نیشنل سائنس  فاؤنڈیشن اور اسی قسم کی دیگر تنظیموں کی مالی اعانت سے انسٹی ٹیوٹ کا میوزک انٹیلی جینس لیب قائم کیا تھا اور اس کی قیادت کی تھی۔موسیقی کی تخلیق کے لیے اور اسے ایک ڈھانچے کی شکل دینے کے لیے ان کی تحقیق نے موسیقی اورمشین لرننگ کوباہم ملانے پر توجہ دی۔ ان کی تحقیق کی توجہ جذباتِ موسیقی کو تقویت پہنچانے پر بھی تھی۔

چھوردیا بتاتے ہیں ” ہم موسیقی کی تخلیق کی منفرد خوشی تمام لوگوں کے چہرے پر دیکھنا چاہتے تھے۔ ایک اورطریقہ جوہم نے استعمال کیا اورجس میں کچھ کامیابی بھی ملی ، وہ حساب و شما ر کے عمل کی تخلیق تھا جو کسی بات یا نغمے کا تجزیہ کرتا ہے اور موسیقی کی تخلیق کرتا ہے۔اس کا مقصد سامع کو وہ خوشی فراہم کرنا ہے جو کسی میوزیکل بینڈ میں رہ کر نغمہ سرائی کرکے یا موسیقی کا کوئی آلہ بجا کر اسے حاصل ہوتی۔ اسی سے’ لا ڈی ڈا ‘(جسے ہم ریورس کیری اوکے کہتے ہیں)سونگی فائی (جو خطابت کو نغمے میں بدل ڈالتا ہے)اور آٹو رَیپ (عام بول چال کو رَیپ میں بدل ڈالنے والا اَیپ)بنائے جانے کی راہ ہموار ہوئی۔‘‘

جلد ہی چھوردیا اور گپتا نے تفریح کے لیے تیار کیے جانے والے اَیپ کو فروغ دینے میں خود کو پیش پیش پایا۔ وہ اب سلی کون ویلی کامعروف نام بن چکے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے ساری مصروفیات سے کنارہ کش ہوتے ہوئے دنیا کی سیر کا فیصلہ کیا۔ اور اب وہ اپنے تازہ ترین پروجیکٹ ہوکڈ کے ساتھ واپس آ چکے ہیں۔

اب اس کیفیت کوبیان کرنے کے لیے اگر چھوردیا کے الفاظ مستعار لیں تو کہیں گے ”ہم نے ایک نئی صنف تیار کی ہے جسے’ چَیٹ فکشن ‘کہا جاتا ہے۔ یہ متنی پیغام کے ذریعے بات چیت کی شکل میں کہانیاں بیان کرتاہے۔ پچھلے مہینے ۴۰ ملین سے بھی زیادہ افراد نے آئی او ایس ، اینڈرائڈ اور اسنَیپ چَیٹ ڈِسکوَرپر ہوکڈکے ذریعے کہانیاں پڑھی ہیں۔‘‘

چھوردیا کہتے ہیں ”ہم نے پڑھنے کے عمل کو ایک بار پھر نوجوانوں اور بزرگوں کے لیے تفریح والا تجربہ بنا دیا ہے۔ ہمارا مقصد شاندار کہانیوں کی تخلیق ہے جو متن کی شکل میں شروع ہوتی ہیں اور آخر کار ویڈیو یا وی آر یعنی مجازی حقیقت جیسی دیگر شکلوں میں تبدیل کی جاسکتی ہیں ۔ ہمارا خیال ہے کہ اگلی ہیری پوٹر قسم کی کہانی لازمی طور پر کتاب کی شکل میں منظر عام پر نہیں آئے گی بلکہ موبائل میں متن کی شکل میں آئے گی۔ اور ہم امید کرتے ہیں کہ ایسی گہری اور پُر اثر کہانیوں کی تخلیق ہم لوگ ہی کریں گے۔‘‘

ہوکڈ کے علاوہ چھوردیا اور گپتا کے ماضی میں اٹھائے گئے اقدامات ، موبائل اَیپس اور دیگر خدمات کے امکانات ایسے موقع پر نمایاں ہو رہے ہیں جب لاکھوں لوگ ادب اور فن کی تخلیق کرنے یا اس سے لطف اندوز ہونے کی اور اس کے تعلق سے وہ کیا پسند کرتے ہیں اور کیا پسند نہیں کرتے ہیں ، اس کے اشتراک کی صلاحیت رکھتے ہیں۔چھوردیا کہتے ہیں ” ایپلی کیشن تیار کرنے کا ایک دلچسپ پہلو اسے شروع کرنا ہے ، جو بس آغاز ہے۔ جب آپ کوئی اَیپ شروع کرتے ہیں تو آپ دیکھتے ہیں کہ اس کے استعمال کرنے والے کس طرح اس کے تعلق سے اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہیں اور اس کے بعد حاصل شدہ اعداد و شمار کا استعمال کرکے چیزوں کو مسلسل سنوارا جا سکتا ہے۔‘‘

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے چھوردیا کہتے ہیں ” جب ہوکڈ کی ٹیم کو کوئی کہانی یا کوئی سُر ملتا ہے تو وہ قارئین سے ملے اعداد و شمار کو اس بات کا فیصلہ کرنے میں استعمال کر سکتے ہیں کہ آیا یہ کامیاب ہوگا یا نہیں ۔ اس عمل کو پختہ بنانے میں ہم نے کئی برس لگائے ہیں اور میں کہنا چاہوں کہ یہ ہوکڈ کا خصوصی پہلو ہے۔‘‘

تکنیک کے شعبے میں ہونے والی نت نئی پیش رفت نے سونگی فائی اور ہوکڈ جیسے ایپلی کیشن کی تخلیق کو ممکن بنا یا ہے۔ چھوردیا اس بارے میں کہتے ہیں ”مشینوں کی دیکھنے اور سننے کی صلاحیت میں کافی بہتری آئی ہے جس سے نئے قسم کے فن کاری کے مواقع پیدا ہوئے ہیں ۔ انسانوں نے ہمیشہ سے فن کی تخلیق کے لیے وقت کے شانہ بہ شانہ چلتے ہوئے اوزار اور تکنیک کا استعمال کیا ہے۔مثال کے طور پر الیکٹرانک آلات اور کمپیوٹر نے موسیقی کی تخلیق کرنے کے طریقے میں تبدیلی لا دی ہے جس کے نتیجے میں بہت ساری دھنوں کی تخلیق ممکن ہو سکی ہے۔ میں اس خیال سے ہی جھوم اٹھا ہوں کہ نئے گہرے تجربات کے لیے ان نئے آلات کا استعمال کیسے کیا جا سکتا ہے۔‘‘

آخر میں چھوردیا اظہار رائے کرتے ہیں ” ہوکڈ جیسے اَیپ دراصل قدیم فن کا جدید ترین ورژن ہیں جنہیں ہم داستان کے نام سے جانتے ہیں۔ کہانیاں اصل میں سب سے زیادہ آفاقی اصناف میں سے ایک ہیں۔ یہ ہمیں ایک دوسرے سے باندھے رکھتی ہیں۔اَیپ اس معاملے میں جادو کا کام کرتے ہیں کہ ان کی وجہ سے ہمیں دوسرے کے نقطہ نظر کو جاننے اور دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ کہانیاں مختلف جہانوں اور تجربوں کے بارے میں تصور کرنے کے منفرد انسانی طریقے ہیں۔۲۰ ویں صدی کا آغاز تخلیقی اظہار کے لیے تکنیک میں یکسر تبدیلی کا وقت تھا۔ آپ صوتی ریکارڈنگ ، فوٹو گرافی اور متحرک تصویروں کے بارے میں غور کریں۔ ہم لوگ ایک بار پھر انقلابی تبدیلی کے نکیلے سرے پر ہیں۔کروڑو ں لوگوں کی جیبوں میں اب سپر کمپیوٹر ہیں ، لہٰذا کہانی کہنے کے اثرات کافی گہرے ہیں ۔ہم اس نئے پہلو کی تحقیق بس شروع ہی کرنے والے ہیں۔یہ چَیٹ فکشن، نیو میڈیا کی تشکیل اور تجربات کی جانب بس ایک چھوٹا سا قدم ہے جو بالآخر نئی نسل کی امیدوں اور خواہشات کو ایک منفرد آواز فراہم کرے گا۔‘‘

کینڈس یاکونو جنوبی کیلیفورنیا میں مقیم قلمکارہیں جو جرائد اور روزناموں کے لیے لکھتی ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے