قوی مضامین سے لے کر اپنے منفرد پس منظر کو نمایاں کرنے تک ہم یہاں چند ایسی اہم تجاویز پیش کررہے ہیں جن سے آپ اپنی داخلوں کی مسابقتی درخواست کو مزید بہتر بنا سکتے ہیں۔
November 2024
طلبہ کو چاہیے کہ وہ اپنے منفرد ثقافتی پس منظر کا ذکر اپنی درخواست میں ضرور کریں۔ اس سے ان کے مطلوب تعلیمی اداروں میں ان کے داخلے کے امکانات روشن ہو جائیں گے۔(تصویر بشکریہ امریکی قونصل خانہ، ممبئی)
تعلیمی سال ۲۳۔۲۰۲۲میں۲ لاکھ ۶۸ ہزار ۹۲۳ ہندوستانی طلبہ نے امریکہ کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلہ لیا۔ دنیا کےان اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنا یقیناً ایک گراں قدر تجربہ ہے مگر بہر کیف امریکی جامعات میں داخلہ لینے کا عمل بذات خود ایک بہت بڑا چیلنج ثابت ہوسکتا ہے۔ بعض اہم عناصر مثلاً ایک بہترین تحریر کردہ مضمون، سفارشی خط، تعلیمی اسکور اور ذاتی اوصاف امریکی اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلہ کی درخواست کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
اعلیٰ تعلیمی کارگردگی
کیلیفورنیا میں واقع پومونا کالج کے معاون نائب صدر اور داخلہ جات کے ڈائریکٹر آدم سیپ کا کہنا ہے کہ اعلیٰ تعلیمی کارکردگی یقیناً داخلہ افسران کی توجہ حاصل کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ وہ مشورہ دیتے ہوئے کہتے ہیں ’’ عمدہ کارکردگی کا کوئی مخصوص پیمانہ نہیں ہے۔ ہمیں ایسے طلبہ کی تلاش رہتی ہے جو مختلف النوع میجرمضامین کی تعلیم حاصل کریں، نیز غیر نصابی سرگرمیوں میں شرکت وقیادت کریں۔ ہمیں ایسے طلبہ درکار ہیں جو کلاس روم کے باہر طبقات کی تعمیر کریں اور کلاس روم میں متجسس علم حاصل کرنے والے ہوں۔ اس لیے طلبہ کو چاہیے کہ وہ ہائی اسکول سے ہی قیادت کے گُر سیکھیں۔ ‘‘
یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا کے انڈیا آفس کے ڈائریکٹر شیشر کمار اُپادھیائے بیان کرتے ہیں گو کہ داخلہ افسران امیدواروں کا مجموعی طور پر جائزہ لیتے ہیں مگر بہر کیف تعلیمی ریکارڈ ہی اصل میں کالج میں کامیابی کی کلید ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’ درخواست دہندہ گان کےاعلیٰ تعلیمی گریڈ اور ایک محنت کش کورس لوڈ سے ان کے کام کرنے کی اخلاقیات، وقت کا درست استعمال، نیز دانشورانہ تجسس جیسی خصوصیات کا انعکاس ہوتا ہے۔ ان عوامل سے امیدواروں میں کالجوں میں اعلیٰ کارگردگی کے لیے درکار لازمی اوصاف جیسی جاں فشانی اور ثابت قدمی کا اشارہ ملتا ہے۔ ‘‘
ماحول کا جائزہ لینا
داخلہ افسران محض بہترین طلبہ کی تلاش میں ہی نہیں رہتے بلکہ انہیں ایسے امیدواروں کی جستجو رہتی ہے جو ان کے کالج کے لیے موزوں ہوں۔ لِہٰذا بہتر یہی ہے کہ طلبہ از خود کالجوں کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کریں جس سے انہیں اُن اداروں کی شناخت کرنے میں آسانی ہو گی جو ان کے لیے موزوں ترین ہوں۔ درخواست دہندگان کو اپنی درخواست کو مزید قوی بنانے کے لیے ہر کالج کے حجم ، وہاں کے ماحول اور تہذیبی میلان کو ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیے۔ لبرل آرٹس کے چھوٹے کالج بعض اوقات بڑی جامعات کے مقابلہ میں زیادہ بہتر تجربہ اور مواقع فراہم کرتے ہیں۔ سیپ انکشاف کرتے ہیں ’’اگر آپ مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے افراد سے سیکھنےمیں دلچسپی رکھتے ہیں، اگر آپ مختلف النوع تعلیمی میدانوں میں روابط قائم کرنا چاہتے ہیں اور دنیا میں کچھ الگ کرنا چاہتے ہیں تو پومونا کالج جیسا لبرل آرٹس کا کالج آپ کے لیے موزوں ہے۔‘‘
بیانیہ تخلیق کرنا
کالج کے لیے درخواست دیتے وقت ایک جامع تحریرکردہ ذاتی مضمون آپ کی درخواست کی قبولیت کے امکانات کو کافی بڑھا دیتا ہے۔ اُپادھیائے کے مطابق ’’ یہ نہایت اہم ہے کہ ایک قوی ذاتی مضمون تحریر کیا جائےجس میں آپ کے اقدار ، تجربات اور آرزوؤں کا سلیقے سے ذکر کیا گیا ہو۔ اس مضمون میں ان مسائل کی پر روشنی ڈالی جائے جنہیں امیدوار نےکامیابی کے ساتھ عبور کیا ہو، غیر نصابی سرگرمیوں کا بیان ہو،نیز تہذیب و ثقافت نے کس طرح ان کے عالمی نظریہ کی تشکیل کی، اس کا بھی ذکر کیا جائے۔‘‘ اُپادھیائے مزید کہتے ہیں ’’ اپنی بات کو موثر انداز میں پیش کرنے سے طلبہ اپنی درخواست کو مزید قوی بنا سکتے ہیں جو کہ داخلہ کمیٹی کے خیالات سے ہم آہنگ ہو۔آخرکار یہی وہ چیز ہے جس سے انہیں مسابقتی منظرنامے میں نمایاں ہونے میں مدد ملتی ہے۔ ‘‘ سیپ ایک سے زائد اداروں میں درخواست دیتے وقت ایک ہی مضمون کو استعمال کرنے کے قائل نہیں ہیں بلکہ ان کا مشورہ ہے ’’ہر اسکول کے اپنے مخصوص تقاضے ہوتے ہیں لِہٰذا ان کو ذہن رکھتے ہوئے اپنا مضمون تحریر کیا جانا چاہیے۔ یقیناً یہ ایک دشوار گزار مرحلہ ہوتا ہے مگر اس سےآپ کی درخواست کی کامیابی کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ کالج اور جامعات کوآپ کے مضمون سے کچھ اسی قسم کی توقعات ہوتی ہیں۔‘‘
ذاتی شناخت
داخلہ افسران درخواست میں دیانت داری اور ایمانداری کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ سیپ بتاتے ہیں آپ جیسے ہیں خود کو ویسے ہی پیش کریں۔ مزید یہ کہ اپنے تجربات کو صداقت کے ساتھ بیان کریں۔ آپ جن چیزوں کو اچھا سمجھتے ہیں ان کا ذکر کرنے سے نہ ہچکچائیں ۔ اس بات کا بھی اظہار کریں کہ وہ اچھی چیزیں ادارے کے اقدار سے کس طرح مطابقت رکھتی ہیں۔‘‘اُپادھیائے کا کہنا ہے کہ ایک عام غلطی جو اکثربین الاقوامی طلبہ کرتے ہیں وہ ہے منفرد تجربات اور نظریات کی پردہ پوشی ۔ وہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’امیدواربنیادی طور پر صرف تعلیمی کارگردگی اورٹیسٹ اسکور پر ہی اپنی توجہ مرکوز کرتے ہیں اور اپنی شخصیت اور ثقافتی پس منظر کو نظر اندا ز کردیتے ہیں۔‘‘
طلبہ کا مخصوص ثقافتی پس منظر ان کی شخصیت کا اہم حصہ ہے جو کہ کالج میں تنوع کووسعت فراہم کرتا ہے۔ اس لیے اُپادھیائے کا مشورہ ہے’’ اپنی درخواست میں اس کو نمایاں کرنے کی اشد ضرورت ہے۔‘‘ یونیورسٹی کے تجربے سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا ایک طالب علم کے طور پر پھلنے پھولنے اور بڑھنے سے کہیں زیادہ ہے۔ سیپ کہتے ہیں ’’ ایک مکمل انسان کے طور پر پھلنا پھولنا اور ترقی کرنا بھی اتنا ہی اہم ہے۔‘‘
مائیکل گیلنٹ نیو یارک سٹی میں مقیم ایک قلمکار، موسیقار اور ایک کاروباری پیشہ ور ہیں۔
اسپَین نیوزلیٹر کو مفت میں میل پر منگوانے کے لیے لنک میں دیا گیا فارم بھریں: https://bit.ly/SubscribeSPAN
تبصرہ