پائیدار ایجادات کی قیادت

آئی وی ایل پی فیض یافتہ انیکیت بھٹکھنڈے ماحولیاتی نظاموں کے تحفظ کے لیے سرگرم عمل ہیں ۔ وہ اختراع پردازی اور قیادت کی بدولت پائیداری کو بھی فروغ دے رہے ہیں۔

اسٹیو فاکس

April 2024

پائیدار ایجادات کی قیادت

’ہیٹر آف ہوپ‘ کے کئی فائدے ہیں۔ اس سے جنگلوں کا تحفظ تو ہوتا ہی ہے،اس کا استعمال کرنے والوں کی صحت بھی اچھی رہتی ہے۔ (تصویر بشکریہ انیکیت بھٹکھںڈے)

ہندوستان تین ہزار سے زائد جنگلی شیروں کا مسکن ہےجو دور دراز علاقوں میں واقع جنگلوں میں رہائش پذیر ہیں۔ یہ ایسے علاقے ہیں جہاں مقامی خواتین لکڑیاں چُننے کے لیے اکثر جنگلوں کا رخ کرتی ہیں جن کو وہ گھروں کو گرم رکھنے، کھانا بنانے اور پانی گرم کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ یہ خواتین اس طرح جنگلوں میں جانے سے کئی طرح کے خطرات مول لیتی ہیں مثلاً جنگلی شیر کا شکار بننا، جنگلات کے رقبہ میں انحطاط اور دھوئیں سے ہونے والی سانس کی بیماریاں۔

ہندوستان میں شیروں کے محفوظ ٹھکانوں اور ان کے قرب و جوار میں رہائش پذیر  طبقات کے مختلف مطالبات میں ہم آہنگی پیدا کرنے کا بیڑا وائلڈ لائف کنزرویشن ٹرسٹ (ڈبلیو سی ٹی) نے اٹھایا ہے۔ ڈبلیو سی ٹی ممبئی میں واقع ایک غیر منافع بخش تھنک ٹینک ہے جس کا مقصد ماحولیاتی نظام کا مکمل اور پائیدار تحفظ ہے۔ اپنے قیام سے لے کر اب تک ڈبلیو سی ٹی نے ۱۶۰ محفوظ علاقوں میں کام کیا ہے جو کہ ملک کے ۸۲ فی صد شیروں کے محفوظ علاقوں اور ۲۴فی صد قومی پارکوں اور جنگلاتی پناہ گاہوں کا احاطہ کرتا ہے۔ اس ٹرسٹ کا مطمح نظر جنگلات اور جنگلی حیات دونوں کا تحفظ ،نیز طبقات کی ترقی ہے۔

انیکیت بھٹکھنڈے کی کاوشوں کے نتیجے میں آگ جلانے کے لیے جنگل سے لکڑیاں چُننے کے عمل میں خاطر خواہ کمی آئی ہے۔ وہ اس طرح کہ بھٹکھنڈے نے پانی گرم کرنے کا ایک ایسا آلہ ایجاد کیا ہے جو کہ درختوں کی سوکھی ٹہنیوں، فصلوں کی باقیات، گھاس پھوس اور گائے کے گوبر کو جلانے سے چلتا ہے۔ انہوں نے اس آلہ کا نام ’’ہیٹر آف ہوپ‘‘ رکھا ہے۔  ڈبلیو سی ٹی میں شعبہ تحفظ کے سربراہ بھٹکھنڈے اس آلہ کو تیار کرتے وقت اپنی معاشیات، وکالت اور سماجی سائنس کی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لائے۔

بھٹکھنڈے کی قائدانہ صلاحیتوں کو اُس وقت مزید تقویت حاصل ہوئی جب انہوں نے امریکی دفتر خارجہ کے اعلیٰ تبادلہ پہل انٹرنیشنل وزیٹر لیڈرشپ پروگرام (آئی وی ایل پی) میں شرکت کی۔ آئی وی ایل پی کا آغاز ۱۹۴۰ ءمیں ہوا تھا جس کا مقصد دنیا بھر کے موجودہ اور مستقبل کے رہنماؤں کو امریکہ میں جمع کرنا ہے جہاں یہ لوگ اپنی دلچسپیوں اور دائرہ کار سے تعلق رکھنے والے اپنے ہم منصب امریکی پیشہ وروں سے ملاقاتیں کرتے اور متعلقہ عوامی اور نجی شعبوں کا دورہ بھی کرتے ہیں۔ بھٹکھنڈے نے۲۰۲۳ء کے تبادلہ پروگرام میں شرکت کی جس کا موضوع ہند۔بحرالکاہل اور وسطی ایشیاء میں ماحولیات اور معیشت تھا۔

صحت اور پائیداری

بھٹکھنڈے کہتے ہیں ’’ہیٹر آف ہوپ کی وجہ سے ۵۰ ہزار سے زائد افراد کی منصفانہ اور محفوظ طریقے پر توانائی کی طرف منتقلی ممکن ہو پائی ہے۔ اس کے نتیجے میں کاربن ڈائی آکسائڈ کے اخراج میں ایک لاکھ ٹن تک تخفیف واقع ہوئی ہے۔‘‘

وہ مزید کہتے ہیں ’’جن طبقات کے ساتھ ہم کام کرتے ہیں ان میں  پچھلے سال تین برسوں کے دوران ۱۰۰ سے بھی زائد افراد جنگلی جانوروں کے حملوں کے سبب ہلاک ہو چکے ہیں۔  بایوماس سے چلنے والے اس ہیٹر سے یہ فائدہ ہوا ہے کہ انہیں اب ان جنگلات ، جہاں شیر اور تیندوے کافی تعداد میں پائے جاتے ہیں، میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ علاوہ ازیں خواتین دھوئیں سے ہونے والے امراض سے بھی بچ گئی ہیں۔ سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ جنگلات کے قریب بسنے وا لے طبقات میں خانگی استعمال کے پانی کو گرم کرنے کی ضروریات کو ریاستی پالیسی میں شامل کر لیا گیا ہے جس سے بہتر توانائی کی طرف منتقل کی راہ آسان ہو گئی ہے۔‘‘

آئی وی ایل پی تجربہ

بھٹکھنڈے کے آئی وی ایل پی کی میزبانی مسیسیپی کنسورشیم برائے بین الاقوامی ترقی کے واشنگٹن ڈی سی میں واقع وفتر نے کی ۔ یہاں اس گروپ نے مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے متعلقین جیسے امریکی صدر کے خصوصی سفیر برائے ماحولیات جان کیری کے دفتر اور کیٹرینا طوفان کے متاثرین سے ملاقاتیں کیں۔ اس گروپ نے ماحولیات کے تحفظ کے ساتھ معاشی ترقی کے میدان میں حکومتی کاوشوں، سول سوسائٹی اور نجی شعبہ کی خدمات بارے میں جانا۔ ان لوگوں نے اپنے اپنے ممالک کی بہترین تدابیر کا یو ایس نیشنل پارکس سروس، یو ایس فِش اینڈ وائلڈ لائف سروس اور بیورو آف لینڈ مینجمنٹ کے نمائندگان کے ساتھ اشتراک  بھی کیا۔

بھٹکھنڈے زور دے کر کہتے ہیں ’’آئی وی ایل پی سے مجھے پالیسی سازی، تکثیریت اور ثابت قدمی کی افادیت کا اندازہ ہوا۔ میرے خیال میں وسیع و عریض جمہوری ممالک میں ان اقدار کی بہت اہمیت ہے۔ میں حاصل کردہ تجربات کو ہندوستان میں نافذ کرنے کی بھر پور سعی کروں گا۔‘‘

بھٹکھنڈے نے آئی وی ایل پی کے ذریعہ مختلف متعلقین کو بہت قریب سے جانا ۔اوریہ بھی سمجھا کہ یہ لوگ ایک متنوع اور فعال جمہوری نظام میں آپس میں مل کر کس طرح  کام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا ’’میں نے ثابت قدمی کا گُر بھی سیکھا ۔ یہ بھی سمجھا کہ اگر ہم اپنی آزادی اور جمہوریت کی قدر کرتے ہیں تو تبدیلی آہستہ آہستہ ہی آتی ہے۔ بعض اوقات اس کا ادراک خود اپنے ملک میں کرنا ایک دشوار گزار مرحلہ ہے مگر جب میں نے دوسری جمہوریتوں پر نظر ڈالی تو احساس ہوا کہ واقعی یہ تو کامیابی کی کلید ہے۔ گروپ کے تنوع نے مجھے کافی متاثر کیا۔ مختلف ممالک کے نمائندگان کے وفاقیت، تنوع اور پالیسی سازی پر نظریات سن کر میں نے بہت اچھا محسوس کیا۔‘‘

جنگلات کے محافظوں کی بہبود

بھٹکھنڈے نے ہندوستان کے فارسٹ گارڈس، جن کا کام مشکل ترین اور کافی خطرناک ہوتا ہے ۔ یہ ایسا کام ہے جسے تنہا ہی انجام دینا پڑتا ہے۔ بھٹکھنڈے نے اس سلسلے میں ایک اہم ڈبلیو سی ٹی مطالعہ کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔  وہ کہتے ہیں ’’بین الاقوامی فیڈریشن برائے رینجرس کے مطابق ہندوستان جنگلات کے رینجرس کے لیے ایک پُر خطر ملک ہے جہاں ڈیوٹی کے دوران سب سے زیادہ رینجرس کی ہلاکتیں ہوتی ہیں۔‘‘

بھٹکھنڈے بیان کرتے ہیں ’’میں نے جنگلات کے محافظین کی نفسیاتی بہبود کا مطالعہ کیا جس کے نتیجے میں جنگلات کے عملہ کی بہبود کی پالیسی میں تبدیلیاں لائی گئی ہیں۔‘‘ انہوں نے ہندوستان کے ۱۱ پارکوں میں ان اسباب کا مطالعہ کیا جو جنگلات کے عملہ کی نفسیاتی بہبود پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس مطالعہ سے جو نتائج اخذ کیے گئے ان کو بطور سفارشات مدھیہ پردیش کے چیف وائلڈ وارڈن نے پارک مینیجروں کو بھیجا ،نیز ان (سفارشات) کو دس سالہ بجٹ منصوبہ تیار کرنے میں بھی استعمال کیا گیا۔ بھٹکھنڈے کہتے ہیں ’’ان میں انسانی وسائل پر تربیت، بہتر سہولیات اور جنگلات کے صف ِاوّل  عملہ کے لیے انعامات کی تشکیل شامل ہیں۔‘‘

بھٹکھنڈے اور ڈبلیو سی ٹی نے ماحولیاتی تبدیلی سے پیدا شدہ خطرات پر بھی اپنی توجہ مرکوز کی ہے۔ وہ کہتے ہیں ‘‘ہم نے حیاتیاتی تنوع کے تحفظ اور ماحولیاتی تبدیلی کے میدان میں کام کر رہے تمام شرکاء اور حصہ داروں کے ساتھ کام کیا ہے جن میں جنگلات کے محافظین، پالیسی ساز اور مقامی طبقات شامل ہیں۔ فی الحال ہم یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جنگلات میں رہنے والے طبقات کو ماحولیاتی تبدیلی کی آخر کیا قیمت ادا کرنی  پڑ رہی ہے۔ اس کے علاوہ ہم منصفانہ نتائج کو یقینی بنانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔‘‘

اسٹیو فاکس کیلیفورنیا کے شہر وینچورا میں مقیم ایک آزاد پیشہ قلمکار ، اخبار کے سابق ناشر اور نامہ نگار ہیں۔


اسپَین نیوز لیٹر مفت میں میل پر منگوانے کے لیے لنک میں دیے گئے فارم کو بھریں: https://bit.ly/SubscribeSPAN



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے