ایک طالب علم اسٹیم پیڈیا کے گرافک پروگرام والے پلیٹ فارم پِکٹو بلاکس کی جستجو کرتے ہوئے۔ تصویر بشکریہ اسٹیم پیڈیا
۲۰۱۶ءمیں اسٹیم پیڈیا کے بانیان ابھیشیک ورما، دھروپال شاہ اور پنکج ورما آئی آئی ٹی کانپور میں نوجوان کاروباری طلبہ تھے جوجدید ٹیکنالوجیوں کا خواب دیکھ رہے تھے۔شرما بتاتے ہیں ’’روبوٹکس کے رجحان) جس کی گونج چاروں طرف تھی(سے دراصل مغربی ممالک میں طلبہ میں مسابقہ آرائی اور اولمپیاڈسےکافی فروغ ملا۔‘‘لیکن جب ٹیکنالوجی کی بات آتی ہے تو وہ وضاحت کرتے ہیں ’’ترقی پذیر ممالک میں رسائی اورمالی استطاعت بہت اہم مسئلہ تھا۔‘‘‘‘
شرما، شاہ اور ورما نے اسٹیم پیڈیا کا پلیٹ فارم تیار کیاتاکہ نوجوانوں کو درپیش مسائل کا تدارک کیا جاسکے ، خواہ ان کاتعلیمی پس منظر کچھ بھی ہو۔ ان تینوں کا مقصدایسی مصنوعات تیار کرنا تھا جس کی مدد سے تکنیکی ہنر اور تصورات کا سیکھنا اور سمجھنا آسان اور مزید خوش گوار ہو جائے۔ انہوں نے ایک ایسا پلیٹ فارم تیار کیا جس میں سب کچھ ایک ساتھ موجود تھا جیسے مستقبل کا ہارڈ ویئر، آسانی سے استعمال ہونے والا سافٹ ویئر، آن لائن ٹیوٹوریلوں کا وسیع کتب خانہ، آن لائن کورسیز اور خود سے کیے جا سکنے والے پرو جیکٹس۔
شرما بتاتے ہیں’’۲۰۱۶ءمیں ہماری ٹیم غالباً پہلی بھارتی کالج طلبہ ٹیم تھی جس نے کراؤڈفنڈنگ پلیٹ فارم پر ایک پروڈکٹ پیش کیا تھا۔اس اسٹارٹ اپ کے پہلے پروجیکٹ پر ہم نے اپنی جانب سے کوئی سرمایہ نہیں لگایا تھا بلکہ یہ مکمل طور پر خارجی مالی امداد پرمنحصر تھا۔ ہمیں محسوس ہوا کہ روبوٹکس اور انٹرنیٹ آف تھنگس سے تعلق رکھنے والے کسی بھی پروڈکٹ کی مقبولیت ترقی یافتہ ممالک میں زیادہ ہوگی جبکہ اس کے متعلق ترقی پذیر ممالک میں بیداری لانے کا مطلب ہے سرمایہ داروں کا پیسہ برباد کرنے کے ساتھ طویل عرصہ تک نقصان کوبھی برداشت کرنا۔‘‘
ان تمام عوامل کو دھیان میں رکھتے ہوئے اسٹیم پیڈیا نے عالم گیر سطح پر اپنا پروڈ کٹ متعارف کیا اور اس کو بنانے کے لیے پہلے سے بکنگ کی تاکہ مطلوبہ رقم جمع کی جا سکے۔ یہ سب بنانے والی کمیونٹیوں کے سبب ہی ممکن ہوسکا جنہوں نے اس پروڈ کٹ کو پسند کیا اور اس کے متعلق اپنی کمیونٹیوں اور بنانے والوں کے درمیان بیداری پیدا کی۔شرما مزید کہتے ہیں’’اس سے ہمیں اپنے خیال کوبنا ایک پیسہ خرچ کیے مضبوطی فراہم کرنے میں مدد ملی۔ اور اس کے عوض ہم نے عالم گیر سطح پر محض زبانی طور پر ہی پیسہ جمع کرلیا۔‘‘
اے سی آئی آر ایک غیر منافع بخش تنظیم ہے جو معاشی ترقی اور نشوونما کے فروغ کے سلسلے میں اپنی خدمات انجام دے رہی ہے۔ اس کے بانی اور صدر ایرک ایزولائی کہتے ہیں ’’ اس میں اسٹیم پیڈیا نے جو منفرد تعلیمی حل پیش کیا ہے وہ نظریے اور عمل کا بہترین امتزاج ہےجومستقبل کی تعلیم کا پیش رو ثابت ہوگا۔ مختلف میدانوں میں جس سرعت کے ساتھ ٹیکنالوجی اختیار جارہی ہے اس سے نئی نسل کے لیے اشد ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے آپ تکنیکی طور پر مضبوط کرے۔‘‘
اسٹیم پیڈیا کے اسٹارٹرپیکیج میں ایک خاص قسم کا پروٹوٹائپ آلہ اور سینکڑوں الیکڑانک اور میکینکل اجزا موجود ہیں۔ حکومت ہند کے پروگرام کے تحت اس اسٹارٹر پیکیج کو اب تک ۲۵۰سے بھی زائد اسکولوں کو فراہم کیا جا چکا ہے۔ پکٹوبلوکس ایک گرافکل گیمنگ پلیٹ فارم ہے جبکہ ڈیبل ایک موبائل اپلیکیشن ہے جس سے پروجیکٹ بنانے اور اس پر قابو پانےمیں مدد ملتی ہے۔ ٹیکنالوجی کے شوقین حضرات اسٹیم پیڈیا کے مصنوعی ذہانت، الیکٹرانکس، پروگرامنگ اور روبوٹکس کے آن لائن کورسز کی مدد سے ان کو استعمال کرنے کا طریقہ سیکھ سکتے ہیں۔ شرما وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں’’ اسٹیم پیڈیا سیکھنے کے عمل کو نہایت آسان بنانے کے ساتھ تکنیکی تصورات کو جس قدر ممکن ہو سکےاتنا زیادہ حقیقی دنیا سے قریب رکھنے کی کوشش کرتی ہے تاکہ سیکھنے والوں کے اندر ان سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت پیدا ہو سکے۔‘‘
اپنی مصنوعات کی تیاری کے مختلف مرحلوں میں اسٹیم پیڈیا نے طلبہ، تربیت دینے والوں اور ٹیکنالوجی سے شغف رکھنےوالے افراد کے ساتھ مل کر کام کیا تاکہ تجرباتی تدریس کے بہتر اسٹیم ہنر پیدا ہوسکیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس اسٹارٹ اپ کے پورے بھارت اور امریکہ میں صارفین ہیں۔ ان میں کیرولینا کِڈ کوڈرس، ینگ انجیئرس نارتھ اٹلانٹا، ایرو الیکٹرانکس، ایرکسن ، انووویشن سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اکیڈمی وغیرہ شامل ہیں۔
ابھی حال ہی میں اسٹیم پیڈیا نے کراؤڈفنڈنگ کے ذریعہ۵۵،۰۰۵ ڈالر یکجا کیے جو ہدف کا ۵۵۰ فی صد ہے۔ یہ کراؤڈ فنڈنگ مہم کوارکی کی جانب مرکوز تھی۔ دراصل کوارکی ایک نئی کٹ ہے جس سے بچوں کو مصنوعی ذہانت اور روبوٹکس پڑھائی جائے گی۔ اس مصنوعی ذہانت کے کٹ پرطلبہ، والدین اور اساتذہ کی رائے مثبت ہے۔ممبئی کی رہنے والی پوجا کے مطابق’’ کوارکی سے قبل ہر چیز ایک نظریہ یا نمونہ ہی محسوس ہوتی تھی۔مگرکوارکی سے مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا میں کسی چیز کو نافذ کررہی ہوں اور اسے خود اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا ہوا بھی دیکھ رہی ہوں۔ میرے ذہن میں مستقل یہ خیال گھومتا رہتا ہے کہ میں کوارکی کے ساتھ مزید اور کیا کر سکتی ہوں۔ اس میں مجھے بہت لطف آتا ہے۔‘‘
پارومیتا پین یونیورسٹی آف نیواڈا میں گلوبل میڈیا اسٹڈیز کی معاون پروفیسرہیں۔
تبصرہ