مانسون کی نگرانی

فلبرائٹ ۔ نہرو اسکالرامت ٹنڈن جنوبی ایشیا کے لیے مانسون کی پیش گوئی میں بہتری لانے کے لیے کوشاں ہیں۔

رنجیتا بسواس

November 2018

مانسون کی نگرانی

امت ٹنڈن اور محققین کی ان کی ٹیم خلیج بنگال کی لہروں پر تیرتے تحقیقی جہاز تھومس جی تھومپسن کے عرشہ پر مانسونی ہواؤں کے مختلف پہلوؤں کی جانچ کرتے ہوئے۔(تصویر بشکریہ امت ٹنڈن)

جنوب مشرقی اور جنوبی ایشیا کے زیادہ تر علاقوں کی طرح ہی انڈیا میں بھی مانسون کی ہوائیں، ان کا وقت پر آنے اور علاقوں میں پھیل جانے کا عمل کسی بھی کسان کی زندگی میں خوشیاں لا سکتا ہے یا پھراس کے لیے غم و پریشانی کا سبب بن سکتا ہے۔ مانسون کی راہ میں آنے والے تمام ممالک کی معیشتیں بھی اس سے اتنی زیادہ متاثر ہوتی ہیں کہ انڈیا میں محکمہ موسمیات کو اور حکومت کی ایجنسیوں کوپہلے سے خبردار کرنے کے لیے ” اچھے “ اور’’خراب“ مانسون کی پیش گوئی کرتا ہے تاکہ لوگ اس سے متعلق ضروری اقدامات کرسکیں ۔ ایسی صورت حال میں آنے والے موسم میں مانسون کے مزاج کی پیش گوئی انتہائی اہمیت کی حامل ہو جاتی ہے۔

ڈارٹ ماؤتھ شہر میں واقع یونیورسٹی آف مسا چیو سٹس ڈارٹ ماؤتھ یونیورسٹی آف مسا چیو سٹس کے ۵ فعال کیمپس میں سے ایک ہے۔ ٹنڈن یہیں میکا نیکل انجینئرنگ کے پروفیسر ہیں۔ وہ ۱۸۔۲۰۱۷ ءمیں فلبرائٹ ۔ نہرو سینئر ریسرچر رہ چکے ہیں ۔ وہ ایسے پروجیکٹ پر کام کر رہے ہیں جس کا مقصد جنوبی ایشیا میں مانسون کی پیش گوئی کے لیے ایک بہتر ماڈل کو فروغ دینا اور عالمی سطح پر موسم کی پیش گوئی کو بھی بہتر کرنا ہے۔ وہ مختلف ممالک کے سائنسدانوں کی ایک ٹیم کی قیادت بھی کر رہے ہیں۔

انہوں نے بنگالورو میں واقع انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس سے ”جنوبی ایشیائی مانسون کی ہر موسم میںکی جانے والی قابل اعتماد پیش گوئی کے لیے خلیج بنگال میں سمندروں کے اختلاط،سمندروں کے محاذ اورہواﺅں کے اور سمندر کے درمیان تفاعل کے اثرات کا مطالعہ“ کے عنوان سے چار ماہ پر مشتمل تحقیقی کام انجام دیا جس کے لیے انہیں وظیفہ بھی ملا تھا۔ اس پروجیکٹ کو امریکی دفاع کی ذیلی ایجنسی،آفس آف نیول ریسرچ کی حمایت بھی حاصل ہے۔

اس سال ٹنڈن اور ان کی ٹیم نے تحقیق میں استعمال کیے جانے والے آفس آف نیول ریسرچ کے تھامس جی ٹامسن نامی جہازسے مانسونی ہواؤں کے مختلف پہلوؤں کے مشاہدے کے لیے خلیج بنگال کے غیر مستقل پانی پر سفر کیا۔ تحقیق کی غرض سے اس مخصوص علاقے کے انتخاب کے بارے میں پوچھے جانے پر ٹنڈن نے کہا ”خلیج بنگال وہاں ہے جہاں موسم گرما کا مانسون شروع ہوتا ہے۔گرچہ سطح کی ہوائیں جنوب مغرب سے آتی ہیں لیکن ان بارشوں سے وابستہ بادل خلیج بنگال ہی میں اٹھتے ہیں اور پھر انڈیا کے زیادہ تر علاقوں تک پہنچتے ہیں۔‘‘

A scientist at work onboard the research vessel

تحقیقی جہاز تھومس جی تھومپسن کے عرشہ پر کام کرتا ہوا ایک سائنسداں۔(تصویر بشکریہ امت ٹنڈن)

وہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں ”موسم ِگرما کے مانسون کے درمیان کم اونچائی اور سمندری سطح پر بہنے والی ان ہواؤں کی مستقل سمت ہوتی ہے۔ موسم گرما کے مانسون کے زیادہ تر حصے میں یہ ہوائیں جنوب مغربی سمت سے آتی ہیں جب کہ موسم سرما کے دوران ان کی سمت الٹی ہو جاتی ہے۔‘‘

تاہم ان دنوں خصوصی طور پر عالمی حدت کے سیاق و سباق میں سوالات کیے جارہے ہیں کہ کیا یہ علاقے مانسون پرحد سے زیادہ انحصار کرتے ہیں۔

ٹنڈن اس بات سے اتفاق رکھتے ہیں کہ بھارت حقیقی طور پر مانسون پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس بات کے قوی ثبوت ہیں کہ مانسون شدید بارش کے واقعات پیش آنے والے علاقوں میں اور اس کی شدت میں نمایاں طور پر بڑھتا رجحان پیش کرتا ہے۔ مانسون کے دوران وسطی بھارت میں معتدل بارش کے تعلق سے کم ہوتا رجحان بھی مشاہدے میں ہے۔ اور یہ خوفناک تشویش کا سبب ہے جو ہمیں زرعی اور ہنگامی حالات کے حوالے سے شدت کی بارش کے واقعات اور سیلاب سے لے کر بارش میں قلت کے لیے تیار رہنے پر مجبور کرتا ہے۔‘‘

کوئی بھی شمال مشرقی ریاست میگھالیہ کے کریم ماو ملوہ غاروں میں ارضیاتی دریافت سے متعلق حالیہ رپورٹ کے ذریعے ماضی میں جھانک سکتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ارضیاتی عہد کے موجودہ دَور میں بڑے پیمانے پر پیدا ہونے والی خشک سالی بعض خطوں میں کس طرح ایک وسیع ہجرت کا سبب بنی ۔ اس خشک سالی سے جو علاقے متاثر ہوئے ان میں بھارت بھی ہے۔

ٹنڈن کہتے ہیں ” تکنیکی طور پر مانسونی بارش میں اگر ۱۰ فی صد کی بھی تبدیلی واقع ہو جائے تو کسی مخصوس سال کے لیے اسے سیلاب یا خشک سالی والے سال کے طور پر جانا جائے گا۔ لہٰذا مانسون میں اس طرح کی بظاہر چھوٹی تبدیلیاں بھی قومی سطح پر بہت ہی شدید اور اہمیت کی حامل ہو جاتی ہیں اور اس میں ۲۰ فی صد کی کمی یا اضافہ کسی معاشرے کو تہہ و بالا کرسکتا ہے۔‘‘

لہٰذااگر مانسون تیز رفتار سے غیر معمولی ہوجاتا ہے تو یہ تحقیق اپنے پُر عز م ابتدا کا کس طرح پتہ لگائے گی یا اس کی پیش گوئی کرے گی؟ٹنڈن کہتے ہیں ”یہ تحقیق بنیادی وجوہات کا پتہ لگانے میں مدد کرے گی کیوں کہ پیش گوئی کے ماڈل۷ سے ۱۴ دن پہلے ہی مانسون کی درست طریقے سے پیش گوئی نہیں کرسکتے۔ بھارت، امریکہ، یوروپ، آسٹریلیا اور دیگر ملکوں کے پیش گوئی کے مراکز سے اس طرح کی پیش گوئیوں میں موجود ہ وقت میں بڑی بڑی خرابیاں ہیں۔‘‘

یونیورسٹی آف مساچیوسٹس ڈارٹ ماؤتھ کی ویب سائٹ پر شائع ایک مضمون میں ٹنڈن کہتے ہیں ”عالمی طور پر ہم لوگ دس دن سے زیادہ پہلے کی قابل اعتماد پیش گوئی نہیں کرسکتے۔ موسم کی دو ہفتے کی پیش گوئی کے لیے مانسون کی سائنس کو سمجھنا کافی نازک معاملہ ہے۔ تاہم پیش گوئی سے متعلق یہ چیلنج کاکم از کم 100 برسوں سے کوئی حل تلاش نہیں کیا جا سکا ہے۔ سائنسداں اور انجینئر کے طور ہمیں پوری کوشش کرنی ہوگی کہ قدرت ہمارے سامنے اپنے سارے راز کھول کر رکھ دے۔ قدرت کا اس طرح کا مطالعہ اور تحقیق کہ فضا ، ماحول اور سمندری نظام کے کام کرنے کا طریقہ ہمارے لیے واضح ہو جائے ، ہمارے لیے امتیاز کی بات ہے۔‘‘

رنجیتا بسواس کولکاتہ میں مقیم ایک صحافی ہیں۔ و ہ افسانوی ادب کا ترجمعہ کرتی ہیں اور مختصر کہانیاں بھی لکھتی ہیں۔



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے