پے ٹَن میک ڈونالڈ ہندوستانی کلاسیکی موسیقی اور مغربی موسیقی کی روایات کے درمیان رابطے کا کام انجام دیتے ہیں۔
January 2020
فل برائٹ۔نہرو اکیڈمک اینڈ پروفیشنل اکسیلینس ایوارڈ یافتہ پے ٹَن میک ڈونالڈ ہندوستانی کلاسیکی موسیقی اور مغربی موسیقی کی روایات کے درمیان رابطے کا کام انجام دیتے ہیں۔
پے ٹَن میک ڈونالڈ دنیائے موسیقی میں مغرب سے مشرق اور مشرق سے مغرب تک سفر کرتے ہوئے دنیا بھر میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے ساتھ مختلف اثرات بھی قبول کرتے ہیں۔ میک ڈونالڈ ایک ایسے مغربی موسیقار اور نغمہ نگار ہیں جنہوں نے طبلہ بجانا سیکھا ہے ۔ وہ ہندوستانی کلاسیکی گائیکی میں دھروپد گاتے ہیں۔وہ ریاست نیو جرسی کے شہر وین میں واقع ولیم پیٹرسن یونیورسٹی میں موسیقی کے پروفیسر ہیں ۔ انہیں فل برائٹ ۔ نہرو اکیڈمک اینڈ پروفیشنل اکسیلینس ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔ انڈیا میں ان کے فل برائٹ۔نہرو پروجیکٹ کا مقصدشمالی ہند کی کلاسیکی موسیقی سے بہت زیادہ متاثر امریکی تجرباتی موسیقاروں کے بارے میں ایک نصاب پڑھاتے ہوئے دھروپد کے بارے میں اپنی معلومات اور مشق میں بہتری لانا ہے۔پیش ہیں ان سے انٹرویو کے اقتباسات۔
طبلہ بجانے میں آپ کی دلچسپی کیسے پیدا ہوئی؟
جب میں نے طبلہ پہلی مرتبہ سنا تو اس وقت میری عمر صرف ۱۱ برس تھی۔ میرا معمول آئیڈاہو فالس پبلک لائبریری جانے کا تھا جہاں مجھے پنڈت روی شنکر، علی اکبر خان، جی ایس سچدیو جیسے ہندوستانی موسیقی کے نامور فنکاروں اور دیگر معزز ہستیوں کے بہت سارے لانگ پلے اِنگ (ایل پی )ریکارڈس ملے۔ اس تعارف سے موسیقی کے لیے میری فطری محبت جاگ اٹھی۔ میں نے اسے اب تک تخلیق کی گئی موسیقی کی سب سے مکمل اور اطمینان بخش ہیئت پایا ہے۔ میں نے موسیقی کے بنارس گھرانہ سے تعلق رکھنے والے پنڈت شاردا سہائے کی شاگردی میں دس برس تک طبلہ بجانا سیکھا ہے۔
موسیقی کے ان آلات میں(جن میں سے کچھ آپ خود بجاتے ہیں) پوری دنیا میں آپ کس قسم کی یکسانیت پاتے ہیں؟
نغمہ، ساز، سُر ، رقص کا ربط اورادائیگی کی روح۔ ان کے قواعد بہت ہی مختلف ہیں لیکن ان کے بنیادی اقدارایک ہی ہیں یعنی دل، دماغ اور جسم کو لہرانا اور رقص کرنا۔
دھروپدکا شوق کیسے پروان چڑھا؟
اس میں میری دلچسپی ہمیشہ سے رہی ہے لیکن میں نے کبھی اس کے لیے اساتذہ سے رجوع نہیں کیا۔ ۲۰۱۱ء میں میرے طبلہ گرو کا انتقال ہو گیا۔ اس وقت میرے دونوں ہاتھوں میں بھی کچھ پریشانی تھی ۔ لہٰذا اس کی وجہ سے میں دوسرے شعبے میں جانے کا خیال پال رہا تھا۔ میں نے مشکور علی خاں سے خیال گائیکی کے بعض اسباق گروپ میں سیکھے تھے۔وہ اور ان کے ایک امریکی شاگرد مائیکل ہیری سَن دونوں نے کہا کہ ہندوستانی موسیقی کے لیے میری آواز بہت خوبصورت ہے۔ انہوں نے اسی شعبے میں آگے بڑھنے کے لیے میری حوصلہ افزائی کی۔یہ میری خوش قسمتی تھی کہ میں نے معروف گُندیچا برادران کے رما کانت گُندیچا کو اسکائپ کے ذریعہ دھروپد سکھاتے ہوئے دیکھا۔ لہٰذا میں نے بھی دھروپد سیکھنا شروع کر دیا۔ شروع کے ۶ مہینے میں نے اسکائپ کے ذریعہ ہی دھروپد سیکھا۔
آپ کو فل۱۴۔۲۰۱۳ برائٹ۔ نہرو اکیڈمک اینڈ پروفیشنل اکسیلینس ایوارڈملا۔ کیا آپ ہمیں انڈیا میں اپنے فل برائٹ۔ نہرو پروجیکٹ کے بارے میں کچھ بتائیں گے؟
مجھے مدھیہ پردیش میں بھوپال کے دھروپد سنستھان میں نو مہینے گزارنے کے لیے تحقیقی/ تدریسی فیلوشپ دی گئی تھی۔ میں وہاں ۱۴۔۲۰۱۳کے تعلیمی سال میں رہا۔ مجھے اس درمیان ۸۰ فی صد تحقیق کا کام کرنا تھا اور ۲۰فی صد توجہ تدریس پردینی تھی۔ میں نے وہاں اپنے اساتذہ گُندیچا برادران کے ساتھ دھروپد کے تمام پہلوؤں کو سیکھا ۔ اس میں آواز کی ثقافت، راگ کی تشکیل، سْر، سْور استھان، بندش، اْپج اور دیگر بہت ساری چیزیں شامل تھیں۔اپنے قیام کے آخر میں بھوپال کے اہم اسٹیجوں میں سے ایک بھارت بھون میں ایک دھروپدگلوکار کے طور پر میں نے پہلی بار ناظرین کے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ جہاں تک تدریس کا تعلق ہے تو میں نے گرو کُل کے طلبہ کے ساتھ مغربی کلاسیکی موسیقی کی معلومات کا اشتراک کیا۔میں مختلف موضوعات پر ایک ہفتے میں تقریباََ ایک لیکچر دیا کرتا تھا۔لیکن زیادہ تر اوقات میں نے مغربی موسیقی کی تاریخ اور اس کے عمومی نظریے پر ہی صرف کیا۔ ہندوستانی طلبہ کو میں نے کافی توجہ دینے والا پایا جنہوں نے بہت سارے دلچسپ سوالات کیے۔
فل برائٹ۔ نہرو فیلو شپ کے دوران آپ نے کیا اہم چیزیں سیکھیں؟
میں بغیر کسی مبالغہ آرائی کے کہہ سکتا ہوں کہ فل برائٹ کے تجربے نے بہتر طور پر میری زندگی میں تبدیلی پیدا کی ہے۔ امریکہ واپس آنے کے بعد سے میں نے سو سے بھی زیادہ دھروپد کنسرٹ میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا ہے اور ورکشاپ کا اہتمام کیا ہے۔میں نے چار یو ٹیوب ویڈیو بھی تیارکیے ہیں اور اب میں چار مکمل دھروپد آڈیو ریکارڈنگ کے پروجیکٹ پر کام شروع کر رہا ہوں۔میں نے اپنے گرو کے دنیا بھر میں دھروپد کو پھیلانے کے مشن کو ترقی دیتے ہوئے ہزاروں امریکیوں کو دھروپد سے متعارف کرا یا ہے۔
میں اب بھی ہر دوسرے برس تربیت اور فن کے مظاہرے کے لیے انڈیا کا دورہ کرتا ہوں۔میں ہر سال اپنے اساتذہ سے ملاقات کرتا ہوں جب وہ یہاں امریکہ میں ہوتے ہیں۔ پچھلے مہینے چھوٹے گرو جی کے انتقال تک میں ہر ہفتے اسکائپ پر ان سے سبق لیا کرتا تھا۔اب میں اکھیلیش گروجی اور بڑے گروجی سے اسکائپ کی مدد سے سبق لیتا ہوں۔
سْر میں کافی گہرائی میں جانے سے میں آواز کی بالکل ایک نئی دنیا یعنی ابتدائی نادمیں پہنچ گیا جو انسانی تجربے کے لیے ایک بنیادی چیز ہوتی ہے۔ ہر دن دھروپد گانا ایک قسم کا یوگ ہے۔ اس کی مشق نے میرے دماغ کو توجہ دینا سکھایا ہے اور میرے جسم کوپُرسکون کیا ہے۔ اس نے مشکل حالات میں مجھے طاقت فراہم کی ہے۔
جب میں انڈیا میں تھا تو میں نے اپنی ہندی پر بھی توجہ دی تھی۔ میں دیوناگری پڑھ سکتا ہوں اور لکھ سکتاہوں جو بندشوں کے تلفظ کو درست کرنے میں بہت زیادہ مدد گار رہی ہے۔میری ہندی بولنے کی صلاحیت اب بھی کمزور ہے لیکن مجھے جب بھی موقع ملتا ہے میں اس پر کام کرتا ہوں۔
ثقافتی فرق کے مطابق خو د کو ڈھالنے میں مجھے ذرا وقت لگا لیکن اب انڈیا میں مجھے کوئی خاص پریشانی نہیں ہوتی۔ ہندوستانی سامعین نے بطور غیر ملکی دھروپد گلوکار میر ا بہت زیادہ خیر مقدم کیا ہے اورمیری پذیرائی کی ہے۔اب میرے سامعین کہہ سکتے ہیں کہ میری باقی زندگی اس فن کے لیے وقف ہے ،لہٰذا یہ طے ہے کہ میں موسیقی کا صرف ایک سیاح محض نہیں ہوں۔
اب میں ہر برس موسیقار کے طور پر ہی نہیں بلکہ دھرو پد گلوکار کے طور پر بھی موسیقی کے کئی پروگرام کرتا ہوں۔ اگر میں فل برائٹ۔نہرو پروگرام کے دوران اس فن کے لیے خود کو وقف نہیں کر دیتا تو میں ایسا کچھ بھی نہیں کر پاتا ۔میں بہت خوش ہوں کہ امریکی اور ہندوستانی حکومتوں نے اس قابل قدر پروگرام میں سرمایہ کاری کو برقرار رکھا ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ وقت کے ساتھ ساتھ دونوں حکومتیں اس میں مزید سرمایہ کاری کریں گی۔اب جب کہ ہماری دنیا تیز رفتاری کے ساتھ مربوط ہو تی جارہی ہے ،تمام شعبوں میں بین ثقافتی مذاکرات کو فروغ دینا پہلے سے کہیں بہت زیادہ اہم ہو گیا ہے۔
آپ گائیکی اورساز کے ہندوستانی طرز کو مغربی موسیقی کی روایت میں کس طرح داخل کرتے ہیں؟
میں تقریباََ ہر دن اپنے طلبہ کے ساتھ ہم آہنگ سو ل کٹو سسٹم کا استعمال کرتا ہوں۔ میں ہندوستانی موسیقی کی کلاسیں بھی لیتا ہوں جس میں گلوکاری کی بہت زیادہ مشق شامل ہے۔ اس طور پر وہ بالکل براہ راست ہو جاتا ہے۔میں ان نغموں کی ادائیگی بھی کر تا ہوں جو روایات کو با معنی انداز سے ایک ساتھ لاتے ہیں۔ مثال کے طور پر اس موسم ِخزاںوالے سمسٹر میں ایک نغمہ کی ادائیگی کر رہا ہوں جو مجھے غیر معمولی طور پر ذہین معروف امریکی نغمہ نگار اوروائلن نواز اکشے اَیورِل ٹکر سے ملا۔انہوں نے ہندوستانی موسیقی اور رقص کا بھی مطالعہ کیا ہے۔اکشے نے طبلہ اور مغربی ساز کے چوگانے کے لیے ایک حیرت انگیز دھن تیا رکی ہے ۔میرے ساتھ ایک ہندوستانی سازندہ ہے جو طبلہ بجاتا ہے اور میرے طلبہ دوسرے ساز بجاتے ہیں ۔ یہ سب کے لیے ایک شاندار تجربہ ہے۔
کیا آپ کو لگتا ہے کہ ایک استاد کے طور پر آپ نے اپنے شاگردوں میں ہندوستانی کلاسیکی موسیقی سے متعلق زیادہ دلچسپی پیدا کی ہے؟
جی ہاں،بالکل۔ حال ہی میں دھروپدبہنیں ( امیتاسنہا مہاپاترا، جھانوی پھنسالکر اور انوجا بورودے) ہماری یونیورسٹی میںتھیں۔ راگ دھمَر میں وہ ایک بندش گا رہی تھیں۔ میرے تمام شاگردوں نے تال کو صحیح طریقے سے برقرار رکھا۔ ۲۰۱۵ ء میں پانچ شاگردوں کو میں گرو جی کے ساتھ ایک مہینے کی تعلیم کے لیے بھوپال میں گُندیچا برادران کے ادارے، دھروپد سنستھان لے گیاتھا۔میرا خیال ہے کہ میں یونیورسٹی میں طلبہ برادری کو اپنی بات چیت کے ذریعہ ہندوستانی موسیقی میں شامل کرنے میں کامیاب رہا ہوں۔
رنجیتا بسواس کولکاتہ میں مقیم ایک صحافی ہیں۔ وہ افسانوی ادب کا ترجمعہ کرنے کے علاوہ مختصر کہانیاں بھی لکھتی ہیں۔
تبصرہ