رقص اور موسیقی کا انضمام

یہ مضمون پڑھیں اور جانیں کہ ایک ہندوستانی رقاصہ اور ایک امریکی موسیقار کے درمیان فنکارانہ تعاون کی بدولت تخلیقی صلاحیت کیو ں کر پروان چڑھی اور کس طرح ایک اختراعی رشتہ تشکیل پایا۔

مائیکل گیلنٹ

September 2023

رقص اور موسیقی کا انضمام

امریکی گٹار نواز میٹ بیکن اور بھارتی رقاصہ روفیہ رمیش نے نئی دہلی کے امیریکن سینٹر میں ایک دم بخود کردینے والی پرفارمینس دی۔ (تصویر بشکریہ امیریکن سینٹر، نئی دہلی)

ثقافتی تعاون اور تبادلے ہند۔ امریکی عوامی رابطے کے کلیدی عناصر ہیں۔ ایک دوسرے کی ثقافت، موسیقی اور فنون سے بڑھتی  واقفیت نے  دونوں ملکوں  کو ایک دوسرے کے قریب لا دیا ہے۔

مثال کے طور پر،  امریکی گٹار نواز میٹ بیکن اور ہندوستانی رقاصہ روفیہ رمیش نے اکتوبر ۲۰۲۲ءمیں نئی دہلی میں واقع  امیریکن سینٹر میں ایک شاندار فنکارانہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ ’’ امریکہ۔ ہند رفاقت: رقص و موسیقی کی بدولت  اتصال ‘‘نامی شو میں ۲۰سال سے زیادہ کا تجربہ رکھنے والی بھرت ناٹیم رقاصہ روفیہ  نے ایک خاص پروگرام پیش کیا جسے ان کلاسیکی تخلیقات کے لیے تیار کیا گیا تھا جو ان کے شوہر میٹ کی تحریر کردہ تھی اور جس کا انہوں نے  ناظرین کے سامنے مظاہرہ کیا تھا۔

روفیہ اور میٹ  کی شناسائی امیریکن سینٹر کے پروگرام سے برسوں پہلے کی ہے۔ دونوں کی ملاقات اس وقت ہوئی جب میٹ ۲۰۱۵ء میں اے آر رحمان کی کے ایم میوزک کنزرویٹری میں درس و تدریس کے لیے سان فرانسسکو سے چنئی آئے۔ ۲۰۱۴ء میں ملازمت کے لیے اپنے پہلے انٹرویو کے بارے میں بتاتے ہوئے میٹ کہتے ہیں ’’ مجھے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ چنئی نقشے میں کہاں ہے، لیکن میرا خیال تھا کہ اگر اے آر رحمان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملے تو  اسے ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیے۔‘‘

میٹ اندازہ لگا رہے تھے کہ وہ یہاں ایک سال یا اس سے کچھ زیادہ کام کر سکیں گے۔ وہ کہتے ہیں ’’ آخر میں دلچسپ اور باصلاحیت دوست ملے، فلم ساؤنڈ ٹریک کے لیے دلچسپ کام کرنے کا موقع ملااور  شادی بھی ہو گئی۔ یوں مہم جوئی سے بھرے آٹھ برس گزر گئے۔‘‘

 فنکارانہ عمل

دونوں نے حتمی کارکردگی  کے مظاہرے کے لیے روفیہ کی بھرت ناٹیم ٹیم کو متاثر کن کام کرنے کی خاطر میٹ کی تقریباً نصف درجن موسیقی تخلیقات کا انتخاب کیا۔

روفیہ بتاتی  ہیں ’’ہر نمونے کے لیے میں نے  بالکل ابتدا سے آغاز کیا اور میٹ سے کہا کہ وہ مجھے یہ نہ بتائیں کہ جب انہوں نے اسے لکھا تھا تو اس وقت ان کی ذہنی کیفیت کیسی تھی۔ اس طور پر میں موسیقی کے اپنے تجربے کے ذریعہ اسے  ازسر نو دیکھ سکتی تھی۔ ‘‘

موسیقی کے ہر کام پر اپنے جذباتی رد عمل پر توجہ دینے کے بعد  اور یہ کہ یہ احساسات رقص کی حرکات اور سُرتالوں میں کیسے ظاہر ہوتے ہیں ، روفیہ نے مضامین کے بارے میں  میٹ کے خیالات دریافت کیے۔ وہ بتاتی ہیں ’’خوش قسمتی سے ہمارےلیے   اب تک میٹ نے ہمیشہ یہ پایا ہے کہ میرے جذبات، کہانیاں اور حرکتیں اس بات سے میل کھاتی ہیں کہ وہ اس  نمونے  کا تصور کس طرح کریں گے۔ میرے خیال میں ہمارے شادی شدہ ہونے سے بھی اس میں مدد ملتی ہے۔‘‘

ثقافتی قرابت

جب روفیہ نے اپنی ابتدائی کوریوگرافی مکمل کر لی تو اس کے بعد  دونوں نے  مشق کرنا اور اپنی فنکارانہ کارکردگی کو بہتر بنانا شروع کیا۔ میٹ بتاتے ہیں ’’ ہم نے جُگل بندی کے لیے کچھ دلچسپ  چیلنج کا بھی سامنا کیا جو ہمارے ذہن کی مشترکہ پیداوار تھی۔ یہ ایک ہند کلاسیکی شکل ہے جہاں میرے گٹار اور اس کے رقص کے مابین ایک مکالمہ سا ہوتا ہے جہاں ہم ایک دوسرے کے مخصوص سُر تالوں کی نقل کرتے ہیں۔ ‘‘

وہ مزید کہتے ہیں ’’اس سے پتہ چلتا ہے کہ میں گٹار پر  جو معمول کی چیزیں لے کر آتا ہوں وہ ایک رقاصہ کے لیے ایک انتہائی پیچیدہ سُر تال میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ اور روفیہ کے پاس  جو پہلے سے طے شدہ ترتیبات کے اعتبار سے سہل سُر تالوں کی گروہ بندی تھی ، اسے گٹار پر کسی قابل اعتماد چیز کے ساتھ جوڑنا واقعی مشکل تھا۔‘‘

اس جوڑے نے نمونے  کے فنی  اور تکنیکی چیلنجوں پر کام کیا۔ جب اسے  راست طور پر ناظرین سے شیئر کرنے کا وقت آیا تو کارکردگی نے سارے حجاب اٹھا دیے۔ سامعین نے اس پر شدید ردعمل کا اظہار کیا جس کا اختتام دو گھنٹے تک جاری رہنے والی بات چیت کے ساتھ ہوا۔

میٹ نے باخبر کیا ’’سامعین نے ایسے دلچسپ  اور بصیرت انگیز مشاہدات  پیش کیے  کہ ہم حیرت میں پڑ گئے۔یہ ایسا تھا  جیسے انہوں نے  ہماری کارکردگی کو ہم سے بہتر سمجھا، جو کہ پاگل پن ہے،  کیونکہ ہم  اس پر غور وفکر کرتے ہوئے   مہینوں تک نہیں بیٹھے کہ  بہترین بین ثقافتی تعاون کیا ہوگا۔ ہم نے اپنی بساط بھر اچھی کوشش کی اور صرف درمیان میں ملے۔‘‘

ان کے پاس ریہرسل کے لیے صرف پانچ دن تھے۔ انہوں  نے اس میں صرف کام کی چیزوں کو رکھا اور اس کے بارے میں زیادہ نہیں سوچا۔ میٹ کہتے ہیں ’’ ہم نے اپنے وجدان کو اس عمل میں راہنمائی کا موقع دیا۔ ‘‘

جوڑے کی تخلیقی کوششیں ’’کمنگ ٹوگیدر‘‘ کے ساتھ نہیں رکیں۔مثال کے طور پرمیٹ کی موجودہ اور مستقبل کی کوششوں میں اسکاٹ لینڈ کے ایک یوتھ آرکیسٹرا کے ساتھ رحمان کے سنشائن آرکیسٹرا کے ذریعہ ان کی آرکیسٹرا تخلیق ’’کنسرٹو مالابار‘‘ کی جزوی کارکردگی اور حال میں کام کر رہے گٹار کے لیے مختصر تخلیقات شامل ہیں۔

مہارت

روفیہ کی فنکارانہ جبلتوں کی رہنمائی رقص کے معروف ماہرین کے تحت  کئی دہائیوں کے مطالعہ  اور قومی اور بین الاقوامی پرفارمنس سے ہوتی ہے۔ میٹ کا کہنا ہے کہ اپنے فن میں مہارت حاصل کرنے کے لیے وقت  صرف کرنا ضروری اور فائدہ مند ہے۔  وہ وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’ آپ کو اپنے آلے کے ذریعے خود کو سمجھنا ہوگا۔ اس   سے کچھ بھی کم  ہوا تو آپ سامعین کے ساتھ بات چیت نہیں کر سکتے۔ ‘‘

روفیہ اس بات سے اتفاق کرتی ہیں  کہ موسیقی  پر پرفارم کرنا ، رقص اور آرٹ کی کوئ سی بھی شکل محض آغاز  ہوسکتی ہے۔ وہ کہتی ہیں ’’میں  اطالیق  کی موجودگی کی بھی پختگی کے ساتھ حمایت کرتی ہوں  جن سے باقاعدگی کے ساتھ ملاقاتیں ہوں  تاکہ آپ کو افزائش کے مواقع ملیں۔ اور جب میں یہ کہتی ہوں تو صرف آپ کے آرٹ فارم کی بات نہیں کرتی بلکہ آپ کے اس آرٹ فارم سے تعلق کی بات بھی کرتی ہوں۔ ‘‘

 مائیکل گیلنٹ نیویارک سٹی  میں مقیم مصنف، موسیقار اور کاروباری پیشہ ور ہیں۔


اسپَین نیوز لیٹر میل پر منگوانے کے لیے لنک میں دیے گئے فارم کو بھریں: https://bit.ly/SubscribeSPAN



تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے