عالمی تعلیم کی راہیں کھولنا

امریکہ میں زیرتعلیم بین اقوامی طلبہ میں بھارتی طلبہ بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ان سے اداروں میں بہت اہم اور متنوع نقطہ نظر میں اضافہ ہوتا ہے۔

مائیکل گیلنٹ

July 2021

عالمی تعلیم کی راہیں کھولنا

آئیووا میں واقع ڈریک یونیورسٹی بین الاقوامی طلبہ کو پڑھائی کے ساتھ ساتھ عملی تجربے کے مواقع بھی فراہم کرتی ہے۔ اس کے علاوہ طلبہ پیشہ ورانہ تیاری کے ساتھ دوسرے قسم کی امداد بھی حاصل کرتے ہیں۔ تصویر بشکریہ ڈریک یونیورسٹی۔

 

کورونا وائرس کی عالمی وباء نے کروڑوں افراد کی زندگیوں اور ان کے منصوبوں میں رخنہ ڈال دیا ہے۔ان میں امریکہ میں زیرِ تعلیم بھارتی طلبہ  بھی شامل ہیں۔لیکن جہاں ایک جانب دنیا کے تمام ممالک اس بحرا ن سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں وہیں امریکی کالج دنیا بھر سے طلبہ کا واپس خیر مقدم کرنے کے لیے کوشاں نظر آرہے ہیں۔

بھارتی طلبہ امریکہ میں زیرِ تعلیم بین اقوامی طلبہ میں کافی اہمیت کے حامل ہیں۔امریکہ کے طول و عرض میں پھیلا ہر چھوٹا بڑا تعلیمی ادارہ بھارتی طلبہ کی منفرد خدمات کا معترف ہے۔جونیاٹا کالج پینسلوانیا میں واقع لبرل آرٹس کا ایک نجی ادارہ ہے۔ ادارے میں  داخلوں کے سینئر ایسوسی ایٹ ڈین ریجینَلڈ اونیڈو بتاتے ہیں  ”بھارت سے تعلق رکھنے والے ہمارے اسکالر کالج کمیونٹی میں ثقافت اور زندگی کی روح پھونکتے ہیں۔‘‘

جب کہ کیلیفورنیا کے عوامی کمیونٹی کالج لاس پوسیٹاس کالج میں بین الاقوامی طلبہ کے لیے پروگرام رابطہ کار کے عہدے پر فائز  سِنڈی بلیرو کہتی ہیں ’’ امریکہ میں زیر تعلیم بھارتی طلبہ مستقبل کے سائنسداں ، محققین، کاروباری اور عالمی رہنماہیں۔“

وہ بتاتی  ہیں  کہ کالج کے ایسے بہت سے طلبہ ہیں جو کبھی امریکی حدود کے باہر نہیں گئے۔ ’’ لہٰذا بھارتی طلبہ کے ذریعہ قیمتی موقع فراہم ہوتا ہے جس سے کالج اور کلاس روم میں متنوع گروپوں کی آمیزش ہوتی ہے۔ ثقافتوں ، اقدار اور طرزِ حیا ت  کے تبالہ سے نہ صرف طلبہ کو فائدہ  ہوتا ہے بلکہ ہر اس شخص کو فائدہ ہوتا ہے جو ان طلبہ کے رابطے میں آتا ہے۔ ‘‘

جِن ژانگ ٹیکساس میں واقع عوامی یونیورسٹی، ہیوسٹن یونیورسٹی کی بین الاقوامی طلبہ اور اسکالر خدمات آفس کی ڈائریکٹر ہیں۔ٹیکساس میں بھارتی طلبہ کی کیمپس میں تعداد دوسری سب سے بڑی تعداد ہے۔ وہ بتاتی ہیں  ”نہ صرف یہ کہ بھارتی طلبہ بہترین تعلیمی کامیابیوں، قوی تحقیقی ہنر اور سخت محنت کے جذبہ سے سرشار آتے ہیں بلکہ وہ اپنے ساتھ زرخیز ثقافت بھی لاتے ہیں۔“

ہیوسٹن یونیورسٹی کی بھارتی طلبہ تنظیم نئے طلبہ کا گرم جوشی کے ساتھ خیر مقدم کرتی ہے اور انہیں کیمپس کی سرگرمیوں میں شریک کرتی ہے جس سے بھارتی روایات اور ثقافت کو فروغ ملتا ہے۔ژانگ بتاتی ہیں ’’ ہم اپنے آپ کو کافی خوش قسمت تصور کرتے ہیں کہ ہماری  برادری اتنی وسیع ہے۔ ہر سال دیوالی اور بھارتی یوم آزادی کے موقع پر جشن منا یا جاتا ہے جس میں رقص ہوتا ہے اور  طبلہ اور موسیقی کے دیگرساز بجائے جاتے ہیں ۔ان کے علاوہ لذیذ بھارتی کھانے بھی تیا ر کیے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ اور بھی بہت کچھ ہوتا ہے۔“

آئیوا میں واقع متوسط جسامت کی نجی یونیورسٹی ڈریک یونیورسٹی میں پروفیسر حضرات اور منتظمین اس امر پر فخر محسوس کرتے ہیں کہ وہ عالمی شہریت کے مشن کو پورا کرنے میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔اور اس میں بھارتی طلبہ اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ عالمی انگیجمنٹ اور بین اقوامی پروگرام کے ایکزیکٹو ڈائریکٹر اینیک کائل کہتی ہیں”دنیا بھر سے طلبہ کا خیر مقدم کرنا اس کاوش کا کلیدی حصہ ہے۔ اور بھارتی طلبہ ڈریک یونیورسٹی میں اہم اور متنوع نقطہ نظر پیش کرتے ہیں۔ دنیا بھر سے تعلق رکھنے والے طلبہ اگر ایک کلاس میں موجود ہوں تواس سے مختلف نقطہ ہائے نظر، مکالموں اور تجربات کے مواقع فراہم ہوتے ہیں۔ اس طرح کے عالمی تعلیم کے ماحول سے سوچنے کی اہم صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے اور  وسیع النظری پیدا ہوتی ہے جس کے نتیجے میں ایک کامل فرد تشکیل پاتا ہے ۔ اس سے زیادہ مشمولی کیمپس اور طبقاتی ماحول پیدا ہوتا ہے۔‘‘

تعلیم اور محل وقوع

جب بھارتی طلبہ امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے کی تیاری کرتے ہیں تو کالج یا یونیورسٹی کے انتخاب ہی کی طرح ،کس امریکی کمیونٹی  میں تعلیم حاصل کرنی ہے ،اس کا انتخاب بھی کافی اہمیت کا حامل ہو جاتا ہے۔ گو نیو یارک اور لاس انجیلس جیسے مشہور شہر عالمی سطح پر خاصے شہرت یافتہ ہیں، مگر بھارتی طلبہ کو چاہئے کہ وہ اپنے آ پ کوصرف ان ہی معروف شہروں تک محدود نہ رکھیں۔کائل کہتی ہیں ”امریکہ کے چھوٹے شہر مثلاً ڈی موئن تک بھی کافی آسانی سے رسائی حاصل کی جاسکتی ہے جو شمولیت اور متاثر کرنے کے لیے ہزارہا مواقع پیش کرتا ہے۔ہم پیشہ ورانہ تیاری کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں اور آپ کے پورے ڈگری پروگرام کے دوران سیکھنے کا بہترین تجربہ بھی فراہم کرتے ہیں۔چاہے آپ کی دلچسپی ڈیٹا انالٹکس میں ہو یا فارمیسی میں، ہمارے پاس سیکھنے کے بہترین مواقع موجود ہیں جن سے آپ اپنی گریجویشن تعلیم مکمل کرنے تک اپنی لیاقت میں بیش بہا اضافہ کرسکتے ہیں۔“

طلبہ لاس پوسیٹاس جیسی جگہ کا بھی بہت فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔بلیرو بتاتی ہیں ”ہم دنیا بھر میں مشہور سان فرانسسکو اور سلی کون وَیلی کے قریب واقع ہیں۔ اس سے ٹیکنالوجی کی جدید ترین تنظیموں سے رابطہ آسان ہوگیا ہے۔‘‘

جب کہ ژانگ بتاتی ہیں ’’ ہیوسٹن شہر دنیا بھر میں ’توانائی کا دارالخلافہ‘ کہلاتا ہے اورچونکہ یہاں ناسا کا صدر دفتربھی واقع ہے اس لیےیہ ’شہرخلا ‘ کے نام سے بھی مشہور ہے۔ یہاں بین اقوامی طلبہ کے واسطے  انٹرن شپ اور تحقیق کے بہت سارے مواقع موجود ہیں۔ ہم عالمی طلبہ کی ہمت افزائی کرتے ہیں کہ وہ ان مواقع کا فائدہ اٹھائیں اور عملی طور پر اپنے علم میں اضافہ کریں جس سے ان کو تجربہ حاصل ہوگا اور ان کے کوائف بھی قوی ہوں گے۔“

کامیابی کے لیے اقدامات

آدھی دنیا سے دور تعلیم حاصل کرنے سے وحشت تو ہوتی ہے، لیکن امریکی ادارے اس امر کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ یہ مراحل آسانی سے طے ہوجائیں۔ جونیاٹا کالج کے بھارت کے لیے مخصوص داخلہ افسرمِتّل سیٹھ کہتے ہیں”جونیاٹا کالج کا عملہ نہایت خوش اخلاق اور گرم جوشی سے خوش آمدید کہنے والا ہے۔اس لیے بھارتی طلبہ بجا طورتوقع کرسکتے ہیں کہ ان کا تعلیمی سفر انتہائی پرجوش اور تبدیلی والا ہوگا۔ یہاں طلبہ کی مستقل حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور ان کے اپنے اہداف کے حصول کی جانب ان کے مشیروں، اساتذہ، احباب اور پوری کمیونٹی کی طرف سے رہنمائی کی جاتی ہے۔“

غیر ملکی طلبہ کے لیے دیگر تعلیمی ادارے بھی اسی طرح کی امدادفراہم کرتے ہیں۔ بلیرو بتاتی ہیں ”ہم طلبہ کی کامیابی کے لیے پُر عزم ہیں ،کم قیمت پر بہترین تعلیم دیتے ہیں اور ہمارے یہاں ماحول بھی محفوظ اور گرم جوشی والا ہے۔ ہمارے یہاں بین اقوامی طلبہ کے  لیےمخصوص رابطہ کار ہوتے ہیں جو ہر طالب علم کے ساتھ داخلہ سے لے کر تعلیم کے دوران اور پھر ٹرانسفر تک تمام مراحل میں کافی محنت کرتے ہیں۔“

امریکہ میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے سیٹھ  کی تجویز ہے کہ بھارتی طلبہ امریکی تہذیب کو سمجھنے اور دریافت کرنے کی کوشش کریں اور مقامی افراد اور طبقات سے جتنا زیادہ ہو سکے گھلنے ملنے کی کوشش کریں ۔ بھارتیوں اور امریکیوں کے درمیان ذاتیات کو لے کر مختلف تصورات ہو سکتے ہیں اس لیے اس حساس معاملہ کو احتیاط اور التفات سے حل کیا جائے۔

بھارتی طلبہ اگر امریکہ میں تعلیم کے دوران زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں تو سیٹھ زور دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس میں رابطہ سازی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’ ان کا نیٹ ورک جتنا قوی ہوگا، کالج کے اندر اور اس کے باہر  ان کی حیثیت اسی قدر مضبوط ہوگی۔ ایک ایسا طالب علم جس کا بہت اچھا نیٹ ورک ہوتا ہے اسے ضرورت کے وقت لوگوں سے مددملنے کی زیادہ امید ہوتی ہے۔اپنے ہم عصروں، اتالیقوں، اساتذہ، دوستوں، سینئروں اور ہر کسی سے اچھے تعلقات بنا کر رکھنے سے نہ صرف یہ کہ طلبہ امریکہ میں اپنے آپ کو بہتر محسوس کریں گے بلکہ ان کو ایسے افراد کی تلاش کرنے میں بھی مدد ملے گی جو ان کی ترقی کے لیے معاون ہوں گے۔“

چاہے بڑے شہروں میں تعلیم حاصل کریں یا چھوٹے شہر میں، بڑی جامعات میں یا چھوٹے کالجوں میں بھارتی طلبہ کو چاہئے کہ وہ  اس موقع کو دریافت کرنے اور مہم جوئی کی طرح لیں۔ بلیرو کہتی ہیں ’’ امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے سے بھارتی طلبہ کو ایک نئے ملک میں زندگی کا تجربہ حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان سیکھنے اورامریکی تہذیب میں غرق ہونے کا  بہترین موقع ملتا ہے۔“

سیٹھ اس میں بعض اور چیزوں کا اضافہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ”طلبہ کو اپنا ذہن کھلا رکھنا چاہیے اور خود کو اپنے گوشہ تسکین سے باہر لانے کی کوشش کرنی چاہئے۔‘‘

کائل ان سے متفق نظر آتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں  ”تشریف لائیے اور  یہاں موجود بہترین مواقع، مضبوط برادری کا خود مشاہدہ کیجئے۔‘‘

مائیکل گیلنٹ، گیلنٹ میوزک کے بانی اور سی ای اوہیں۔وہ نیو یارک سٹی میں مقیم ہیں۔


ٹَیگس

تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے