کسی امریکی یونیورسٹی سے لی گئی کوئی غیر اسٹیم ڈگری مختلف شعبوں میں کریئر کی بہت سی متبادل راہیں کھولتی ہے۔
October 2022
کھیل صحافی یشوریہ کمار(بائیں) اور آزاد فلمساز رنجیت ارول سنگھ نے اپنی غیر اسٹیم دلچسپیوں کا تعاقب کیا اور انہیں امریکہ میں ایک پھلتے پھولتے کریئر میں تبدیل کرڈالا۔ تصاویر بشکریہ ایشوریہ کمار اور رنجیت ارول سنگھ۔
امریکہ دنیا کی بعض بہترین لبرل آرٹس اور سوشل سائنس یونیورسٹیوں کا مسکن ہےجن میں سے ہر ایک کی طلبہ کی کامیابی کے لیے انہیں تیار کرنے کی تاریخ رہی ہے۔ آرٹس، سوشل سائنس اور مینیجمنٹ جیسے غیر اسٹیم پروگرام طلبہ کے لیے فلم اور ٹی وی پروڈکشن، صحافت، عوامی پالیسی، ڈیجیٹل مارکیٹنگ اورصنعتی تقسیم جیسے شعبوں میں کریئر کے بہت سے متبادل فراہم کرتے ہیں۔ ایس ٹی ای ایم سائنس، ٹیکنالوجی، انجنیئرنگ اور ریاضی کے شعبوں کا مخفف ہے۔
کھیل صحافی ایشوریہ کمار اورآزاد فلمساز، رنجیت ارول سنگھ نے اس کی اہمیت کوتسلیم کرتے ہوئے امریکہ میں اپنی غیر اسٹیم دلچسپیوں کو رفتار دینے کا انتخاب کیا ۔ امریکہ میں دونوں نے اپنے مقام تلاش کیے اور پھر اپنے اپنے کریئر میں بین الاقوامی نقطہ نظر کو بھی شامل کرنے کے اہل بن گئے۔
دلچسپیوں کی شناخت
بہت سارے بھارتی کنبوں کی طرح، کمار اور سنگھ کی کریئر اور ان کے مستقبل کے منصوبوں کے تعلق سے با ت چیت اسٹیم کے ارد گرد ہی رہا کرتی۔ ان دونوں نے دسویں جماعت کے بعد سائنس کے مضامین کا انتخاب کیا۔ لیکن کمار نے کھیل صحافی بننے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ وہ کرکٹ اور ٹینس کمنٹری کے ماحول میں پلی بڑھیں۔ وہ اپنی والدہ اور دادا کے ساتھ کمنٹری سنتیں اوراس کی نقل کرتیں۔ ۱۲ ویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے کمار اکاؤنٹینسی، معاشیات اور بزنس میتھ سمیت دیگر مضامین کے ساتھ اپنی پڑھائی میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے لگی تھیں۔ وہ بتاتی ہیں ’’لیکن مجھے کہانیاں لکھنا پسند تھا اور اس کے ساتھ ہی میں کھیل کی صحافت کےبارے میں بھی معلومات حاصل کرنا چاہتی تھی۔‘‘اس لیے انہوں نے چنئی کے آرٹس اینڈ سائنس کالج سے صحافت میں بیچلر کی ڈگری لی۔
سنگھ نے گرچہ انجنیئرنگ میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی لیکن انہیں یہ احساس ہوا کہ یہ شعبہ ان کے لیے موزوں نہیں تھا۔ وہ بتاتے ہیں ’’یہ تھکا دینے والا، اعصاب شکن اور اکتاہٹ سے پُرتھا۔مجھےاسٹیم شعبہ جات میں کبھی دلچسپی رہی ہی نہیں۔‘‘
۵ سال کی عمر سے ہی سنگھ نے ڈراموں اور مختلف قسم کے شوز میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کردیا تھا۔ انہوں نے سامعین پر کہانیوں کے اثرات کو بہت پہلے سے ہی محسوس لیا تھا۔ وہ بتاتے ہیں’’یہی وقت تھا جب میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے ساری زندگی کہانیاں سنانی ہیں۔‘‘
سنگھ کو ایک دوست نے فلم ایڈیٹنگ سے متعارف کرایا جہاں انہوں نے اپنی ایڈیٹنگ، تحریر اور ہدایت سازی کی مہارتوں کو نکھارتے ہوئے سنیما کے ذریعے کہانی سنانے کی تکنیک اور اپنے ایک نئے انداز کو فروغ دینا شروع کیا۔ امریکہ میں فلمسازی نے رنجیت ارول سنگھ کو اپنا گرویدہ کر لیا۔ وہ کہتے ہیں’’مجھے یقین تھا کہ نئی جگہ کی تلاش مجھے میرے کہانی سنانے کے فن کو ایک نئی سطح پر لے جانے کی تحریک دے گی ۔اوریہ ثابت ہوگیا کہ میں اپنے فیصلے میں غلط نہیں تھا۔‘‘
کمار نے بھی ایک کامیاب کریئر شروع کرنے کے لیے اپنی نظریں امریکی صحافت کے اسکول پر مرکوز کر رکھی تھیں۔ وہ کہتی ہیں ’’میں جانتی تھی کہ الینوائے کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کا صحافتی پروگرام دنیا کے بہترین صحافتی پروگراموں میں سے ایک ہے۔اپنے کنبے کے تعاون اور نارتھ ویسٹرن سے اسکالرشپ کے ساتھ میں نے ۲۰۱۶ء میں صحافت میں ماسٹرکورس مکمل کیا۔‘‘
بدلتے راستے
انجنیئرنگ کا طالب علم ہونے کے باوجود سنگھ ۲۰۱۵ءمیں جارجیا کے اٹلانٹا میں سوانا کالج آف آرٹ اینڈ ڈیزائن (ایس سی اے ڈی) میں قبول کیے جانے کے بعد غیر اسٹیم شعبے میں منتقل ہونے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے ۲۰۱۸ء میں فلم / سنیما / ویڈیو اسٹڈیز میں ماسٹر ڈگری مکمل کی۔ سنگھ نے ایس سی اے ڈی میں اپنی پہلی تجرباتی فلم ’’اسٹرِنگز‘‘بنائی۔ اس کے بعد ایک اور فلم’’لیگز‘‘بنائی۔ ان کا گریجویٹ مقالہ ’’روز‘‘ ہے جسے وہ فیسٹیول سرکٹ میں جمع کرنے والے ہیں۔
کمار نے گرچہ کھیل صحافی بننے کے لیے کام شروع کیا تھا لیکن نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے میڈِل اسکول آف جرنلزم سے صحافت کی ڈگری نے انہیں امریکہ کے مختلف علاقوں اور دنیا کے دیگر حصوں میں آزادانہ طورپرکام کرنے اور انٹرن شپ کا موقع فراہم کیا۔ اس کے ساتھ ہی ایس بی نیشن، وائس اسپورٹس ، میک کلاچی نیوز پیپرس، جوہانسبرگ میں دی اسٹار اور چنئی میں دی نیو انڈین ایکسپریس سمیت شکاگو اور ڈی سی میٹرو علاقوں میں بہت ساری آن لائن مطبوعات میں ان کے مضامین اور ویڈیو اسٹوریز نے جگہ پائی۔
اپنی پہچان بنانا
۲۰۱۷ء میں کمار کنیکٹی کٹ کے ہارٹ فورڈ میں ای ایس پی این میں ایک لانگ فارم فیچر رائٹر(طویل مضمون نگار) کی حیثیت سے شامل ہوئیں۔۵ سال کی مختصر مدت میں انہوں نے کھیل اورپسماندہ افراد کی نسل، ہجرت، ثقافت اور سیاست جیسے موضوعات پر لکھنے میں شہرت حاصل کی ۔مثال کے طور پر کمار کے لکھے مضامین نے خواتین تیراکوں کو متاثر کرنے والی کھیلوں کی زہریلی ثقافت کو اجاگر کرنے میں، مقامی امریکی خواتین کے لیے توہین آمیز لفظ کو ہٹانے میں اور سرمائی اولمپکس کے مقام کا نام تبدیل کروانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
ای ایس پی این کے لیے کام کرنے والی کمار کے یادگار مضامین میں سے ایک ۹ سالہ ٹینیٹو لووا اڈیاومی پرمبنی کہانی ہے جو شطرنج کا سب سے کم عمر گرینڈ ماسٹر بننے کے لیے کوشاں ہے۔ اڈیاومی کا خاندان ۲۰۱۷ء میں نائیجیریا میں بوکو حرام کے ظلم اور بربریت سے بچ کر نکل بھاگا تھا۔ کمار کا یہ مضمون شطرنج سے ۲۰۱۸ء میں اڈیاومی کے تعارف اور ایک ذہین بچے کے طور پر اس کے سفر کا پتہ دیتا ہے جو چیس بورڈ پر اپنے مد مقابل سے ۲۰ قدم آگے سوچ سکتا تھا۔
کمار کی ای ایس پی این ایڈیٹر جینا جانووی کا کہنا ہے ’’ایشوریہ حقیقی طور پر ایک متجسس صحافی ہیں جن کا لکھنے کا جذبہ قارئین کے ساتھ مشترک کیے جانے والے ہر مضمون کو بہتر بناتا ہے۔ان کی رپورٹ میں توانائی اور عزم ہوتا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی اس میں غور وفکر اور ہمدردی کا مادہ شامل ہوتا ہے۔ ان کی رپورٹس اکثر کم نمائندگی والی آوازوں کو ایک پلیٹ فارم فراہم کرنے کے لیے کوشاں رہتی ہیں۔‘‘
سنگھ نے بھی اپنی شناخت قائم کرلی ہے اور اب وہ اپنی صنعت میں ایک جانا پہچانا نام ہیں۔ ان کا نام نیٹ فلکس کی ٹرائیلوجی ’’فیئر اسٹریٹ‘‘کے کریڈٹ میں بھی درج ہے۔ اس کے لیے انہوں نے گریجویشن کے بعد اٹلانٹا میں کمپنی۳کے ساتھ کام کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں ’’یہ فلمسازی کی دنیا، پروڈکشن اور پوسٹ پروڈکشن میں ربط قائم کرنے کی جانب ایک حیرت انگیز قدم تھا کیونکہ فلم کو ایڈٹ کرنے کے لیے ہم نے رات بھر کام کیا تھا۔‘‘
سنگھ فی الحال دو آزاد فلموں پر کام کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک مختصر فلم اربن لیجینڈ ہُک مین پر مبنی ہے۔ انہوں نے اس کے ساتھ ہی ایک مکمل آزاد فیچر فلم بنانے کے لیے ایس سی اے ڈی کے سابق طالب علم جیمس نیوٹن کے ساتھ شراکت کی ہے جس کی شوٹنگ وہ جارجیا کے سوانا میں کرنے والے ہیں۔ فلم کی منظر نامہ نویسی کے علاوہ سنگھ اور نیوٹن مشترکہ طور پر فلم کے فلمساز اور ہدایت کار بھی ہیں ۔
۲۰۲۰ء میں کمار نے اپنے طویل مضمون، ’دی چیس گرینڈ ماسٹرس ڈائٹ ‘ کے لیے دی بیسٹ امیریکن اسپورٹس رائٹر کا ایوارڈ جیتا جس میں شطرنج کے کھلاڑیوں میں وزن میں شدید کمی کا سبب بننے والے عجیب و غریب تحولی رجحان کی تفصیل پیش کی گئی تھی۔ حال ہی میں انہوں نے لکھنے والوں کے لیے اپنی مہارت اور جوش و جذبے کا اشتراک کرنے اور ممکنہ صحافیوں کے لیے کہانی بیان کرنے سے متعلق غیر افسانوی ورک شاپس کی خاطر ’کیٹا پُلٹ‘ کی تشکیل کی ہے جو لکھنے والوں کےلیے ایک وسیلے کے طور پر کام کرتا ہے۔
بھارتی طلبہ کے لیے ( جو اپنے شوق کو رفتار دینا چاہتے ہیں) کمار کا مشورہ ہے ’’ وہ نہ کریں جو سب لوگ کر رہے ہیں بلکہ اپنی چھٹی حس کی سنیں۔ اُس چیز کی حیثیت جادوئی ہوتی ہے جب آپ وہ کرتے ہیں جو کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
سنگھ بھی ممکنہ بھارتی طلبہ کو امریکہ میں غیر اسٹیم شعبوں کی جستجو کا مشورہ دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’دوسروں کو اپنے دل و دماغ پر نہ تو حاوی ہونے دیں اورنہ انہیں اپنےآپ کو خوفزدہ کرنے کا موقع فراہم کریں۔اگر آپ کوئی چیز کرنا چاہتے ہیں تو اسے حاصل کر کے رہیں۔‘‘
ہلیری ہو پیک کیلیفورنیا کے اورِنڈا میں مقیم ایک آزاد پیشہ مصنفہ، اخبارات کی سابق ناشر اور نامہ نگار ہیں۔
تبصرہ