ٹرانس اور نان بائنری فلمساز ورشا پانیکر بتاتے ہیں کہ ہم جنس پرست فنکار بننا کیسا ہوتا ہے اور فنون لطیفہ کے اصل دھارے میں ہم جنس پرستوں کی نمائندگی کیوں اہمیت کی حامل ہے۔
June 2024
ورشا پانیکر(بائیں)ممبئی کے امریکی قونصل خانہ اور ’دی کوئیرمسلم پروجیکٹ‘ کی جانب سے منعقد ایک پینل مباحثہ کے دوران۔(تصویر بشکریہ سوہو ہاؤس، ممبئی)
ورشا پانیکر کئی رول نبھاتے ہیں ۔ وہ ایک خواجہ سرا نان بائنری (ایک ایسا جنسی تشخص جو مرد و زن کے روایتی تشخص سے پرے ہے)فلمساز، مصنف، شاعر اور بین مضامینی فنکار ہیں۔ پانیکر اسٹار ہوپر کے شریک بانی اور آرٹسٹک ہدایت کار بھی ہیں ۔ ٹرانس ہوپر خواجہ سرا کی زیر قیادت فلم پروڈکشن کمپنی ہے جو جنوبی ایشیائی ہم جنس پرست ، خواجہ سرا اور خواتین کی زیر قیادت تخلیقی داستانوں کو اجاگر کرتی ہے۔
پانیکر جون ۲۰۲۳ء میں دی کوئیر مسلم پروجیکٹ اور ممبئی میں واقع امریکی قونصل خانہ کے زیر اہتمام منعقد ’’ بیونڈ پرائیڈ: کوئیر اسٹوری ٹیلرس ایٹ دی فرنٹ آف چینج‘‘ کے عنوان سے ایک پینل مباحثے میں مہمان تھے ۔ یہ پروگرام تخلیقی تحریری پروگرام، دی کوئیر رائٹرس روم کا اختتام تھا اور اس میں ہندوستان ، بنگلہ دیش، نیپال، پاکستان اور سری لنکا کے نوجوان مصنفین کی تخلیقات کی نمائش کےلیے ’’ٹریبیوٹریز‘‘ کے عنوان سے ایک الیکٹرانک میگزین شروع کیا گیا ۔
پانیکر تقریباً ۱۵برسوں سے فلم اور آرٹس انڈسٹری میں کام کر رہے ہیں، حال ہی میں انہوں نے اشتہارات سے اپنا کام شروع کیا ہے ۔وہ یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’ میرے خیال میں یہ کووڈ ۔۱۹لاک ڈاؤن کے دوران تھا، جب ہم نے ایک پروجیکٹ کی شوٹنگ مکمل کی تھی، تب میں اور میرے ساتھی نے اپنی پروڈکشن کمپنی شروع کرنے کا فیصلہ کیا ۔ ہم روایتی طور پر کام کرکے تھک چکے تھے ۔ ہمیں احساس ہوا کہ ہم جنس پرست طبقے سے تصنیف شدہ کہانیوں کا سامنے آنا اور اس کے لیے ایک متوازی جگہ کا ہونا بے حد ضروری ہے۔ ‘‘
پانیکر کے نزدیک داستان پر تصنیف کا استعمال بہت اہم ہے کیونکہ ایک فلمساز اسے موجودہ صورت حال کو چیلنج کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’ ایسے بیانیے اور آوازوں کو یکجا کرنا بہت ضروری ہے تاکہ کچھ کہانیاں سنائی جا سکیں ، خاص طور پر ایسی کہانیاں جن کی نمائندگی کم ہوتی ہے۔‘‘پانیکر کا کام تمام انواع، پلیٹ فارموں اور فنون لطیفہ کی شکلوں سے مشترکہ کوششوں کے ایک مجموعے کی بھی نمائندگی کرتا ہے۔
ہم جنس پرستانہ فن
پانیکر آرا کرونیکلس کے تخلیق کاروں میں سے ایک ہیں، جو ہندوستانی لوک داستانوں، افسانوں اور زبانی روایات سے ترغیب حاصل کرنے والا بچوں کا ایک گرافک ناول ہے۔ آرا ایک افسانوی مخلوق ہے جو ’’ صنف اور شکل کی حدود کو عبور کرتی ہےاور ہر بچے کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کےلیے شکل بدلتی ہے۔‘‘ پانیکر بتاتے ہیں کہ انہوں نے اس پروجیکٹ کے لیے فنتاسی کے دائرے میں کام کرنے کو چنا کیوں کہ ’’ حقیقت پسندی اُکتا دینے والی ہو سکتی ہے۔‘‘
پانیکر بتاتے ہیں کہ بڑے ہونے کے دوران انہوں نے کتابوں اور فنون ِ لطیفہ میں بہت کم نمائندگی کا مشاہدہ کیا جس سے ان کے جیسے مخصوص میلان والے بچے خود کو ہم آہنگ کرپاتے ۔ وہ بتاتے ہیں’’ میرے خیال میں فنتاسی کے ذریعہ ہم آزاد محسوس کرسکتے ہیں ۔ اور مجھے لگتا ہے کہ یہ بچوں اور ان کے والدین کی طرح تمام کے لیے سیکھنے کی ایک بہترین جگہ ہے۔ اس کے علاوہ میں نے محسوس کیا کہ آرا جیسے کرداروں کو دکھانا ضروری ہے جو صنفی طور پر ایک سیّال مخلوق ہے۔‘‘
پانیکر کہتے ہیں کہ گرافک ناول اور کردارہندوستان سے لے کر شام اور افغانستان تک کے ملکوں کی کہانیوں سے متاثر ہیں۔ وہ بتاتے ہیں ’’ کردار بچوں کے محافظ کی طرح ہے۔یہ ایک ایسا کردار ہے جو خوابوں میں سفر کرتا ہے ۔ آرا لازمی طور پر ہم جنس پرست طبقے سے تعلق رکھنے والا کردار ہے۔ یہ اور بات ہے کہ وہ ایسا کوئی دعویٰ نہیں کرتا۔ ہم واقعی یہ کہے بغیر اس قسم کے صنفی سیّال کو دکھانا چاہتے ہیں کیوں کہ ہم نہیں جانتے کہ آیا تمام والدین اس طرح کی کسی چیز سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘
پانیکر اور آرا کے کرونیکلس کے پس پشت ٹیم نے گرافک ناول کے کرداروں کو بھی این ایف ٹی ایس (نان فنگیبل ٹوکن) میں تبدیل کر دیا ہے، جن کی آن لائن تجارت کی جا سکتی ہے، یا ڈبلیو ڈبلیو ای (ورلڈ ریسلنگ انٹرٹینمنٹ) کارڈس کی طرح جمع کی جا سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’ آپ مختلف کارڈ جمع کر سکتے ہیں۔ یہ شکل بدلنے والے وجود کو جمع کرنے جیسا ہے۔ لیکن اس کی جڑ میں، ہم صرف بچوں کو یہ سیکھنے کے لیے ایک تفریحی طریقہ فراہم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ اپنے آپ میں تھوڑا اور آرام دہ کیسے ہو سکتے ہیں ۔‘‘
ایک اور پروجیکٹ جو پانیکر کے دل کے قریب ہے وہ شارٹ فلم برسوں بعد (آفٹر سو لانگ) ہے۔ یہ فلم امریکہ کے ایک غیر بائنری(ایک ایسا جنسی تشخص جو مرد و زن کے روایتی تشخص سے پرے ہے) فنکار، سمہا گریمیلا پر مبنی ہے، جو دوسری نسل کے ہندوستانی امریکی کے طور پر اپنی جڑوں کا سراغ لگاتا ہے۔ پانیکر بتاتے ہیں، ’’سمہا نے اپنے والدین کے ساتھ مل کر اس فلم کو بنایا ۔ یہ امریکہ میں رہنے والے ایک دوسری نسل کے خاندان کے بارے میں ہے جو اپنی جڑیں تلاش کرنے کے لیے کوشاں ہے اور میرے خیال میں ہم سب ،کسی نہ کسی طور پر یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ نوآبادیات سے پہلے ہم کون تھے۔‘‘
نمائندگی معنی رکھتی ہے
پانیکر کہتے ہیں کہ آرٹ کی تخلیق تنقیہ نفس جیسی ہے ۔ مجھے لگتا ہے کہ جب آپ کسی قسم کا فنون لطیفہ تخلیق کررہے ہوں ، خاص کر کسی اور کے لیے نجی کام کرتے ہیں تو آپ کو طمانیت کا گہرا احسا س ہوتا ہے اور سرحدوں کے پار تعاون اس عمل کی کلید ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ مشترکہ کوشش اورہم جنسیت کی مناسب نمائندگی ذرائع ابلاغ کے مرکزی دھارے سے غائب ہے ۔ وہ زور دے کر کہتے ہیں ’’ ہم بھی سامعین کا ایک بڑا حصہ ہیں اور ہمیں ایک ایسی جگہ بنانے کی ضرورت ہے جہاں ہم جنس پرستی اور بائنری فریم ورک سے پرے ہم جنس پرستوں کو فروغ مل سکے۔ آپ صرف کیمرے کے سامنے ہم جنس پرستوں کو شامل کرکے ایسا نہیں کرتے ہیں۔ یہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو کیمرے کے پیچھے لانے اور (فلم اور آرٹس) انڈسٹری میں ہونے والے امتیازی سلوک سے نمٹنے کے بارے میں ہے۔‘‘
پانیکر کی صلاح ہے کہ ہم جنس پرست طبقے کے لیے فنون لطیفہ میں زیادہ مساوات اور افرادی قوت میں تنوع اس خلیج کو پاٹنے کے کچھ طریقے ہیں۔ان کے بقول ’’ جب تک مساوات شامل ہے تب تک ہمیں کمرے میں صرف ایک علامت ہونے پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور ہمیں اندر آنے اور ایک ایسی جگہ بنانے کا موقع دیا جاتا ہے جہاں ہمارا کام لوگوں کو بتایا اور دکھایا جا سکے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ اس جگہ کو بنانے کی ذمہ داری فنکارانہ شعبے میں اقتدار کے عہدوں پر فائز لوگوں پر ہے، جو افرادی قوت کو متنوع بنا سکتے ہیں۔’’ مجھے لگتا ہے کہ تعاون اور شراکت داری زمینی سطح سے زیادہ لوگوں کو لانے میں بہت مدگار ثابت ہو سکتی ہے، جو اس شعبے میں کام کر رہے ہیں تاکہ وہ تنظیموں، نیٹ ورک اور اقدامات کے ساتھ شراکت داری کر سکیں۔ اطالیقی پروگراموں کا انعقاد بھی بہت ضروری ہے ۔ اگر وہ واقعی اچھے اتحادی بننا چاہتے ہیں تو کچھ خاص کوششیں کرسکتے ہیں۔ ‘‘
اسپَین کی مشمولات کو میل پر منگوانے کے لیے لنک میں دیے گئے فارم کو بھریں: https://bit.ly/SubscribeSPAN
تبصرہ