تحفظ فراہم کرنے اور بااختیار بنانے کی جستجو

اسٹینفورڈ کنگ سینٹر آن گلوبل ڈویلپمنٹ کے ڈیوڈ لوبیل اور سولیڈیڈ آرٹیز پریلامن کی تحقیق ہندوستان میں غذائی تحفظ میں بہتری لانے اور ہندوستانی خواتین کی سیاسی شراکت داری کے تئیں عدم مساوات کو سمجھنے پر مرکوز ہے۔

ہلیری ہوپیک

July 2020

تحفظ  فراہم کرنے اور بااختیار بنانے کی جستجو

 

سولیداد آرٹز پرلّامَن(دور بائیں)بھارتی خواتین کے معاشرتی طور پر متحرک ہونے اور ان کی شہری مشغولیت کے مابین ربط کی جانچ کرتے ہیں تاکہ حکومت کی ملک کی کروڑوں خواتین کی زندگیوں کو بہتر کرنے کی کوششوں کی تصدیق کرسکیں۔ تصویر بشکریہ سولیداد آرٹز پرلّامَن۔ 

کیلیفورنیا کے اسٹینفورڈ یونیورسٹی کیمپس میں واقع  اسٹینفورڈ کنگ سینٹر آن گلوبل ڈیولپمنٹاسٹینفورڈ یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبہ کے ذریعہ انڈیا میں ڈیٹا پر مبنی تحقیق کے وسیع دائرے کی توسیع کرتا ہے جس سے ہند کے سرکاری اور نجی شعبوں کو متاثر کرنے والے کلیدی امور کے بارے میں بصیرتیں فراہم ہوتی ہیں۔ اس سلسلے میں اسٹیفورڈ یونیورسٹی کے دو پروفیسروں نے اہم تعاون پیش کیا ہے۔

غذائی تحفظ کی جستجو میں ارضی نظام سے متعلق سائنس کے  پروفیسر ڈیوڈ لوبیلکی انڈیا کی زرعی پیداواریت میں ماحولیاتی اور تکنیکی تبدیلیوں کی تفتیش پر مبنی تحقیق زرعی بندوبست کے سلسلے میں فیصلہ سازی میں حقیقی راہنمائی کرتی ہے۔وہیں دوسری جانب سیاسیات کی اسسٹنٹ پروفیسر سولیڈیڈ آرٹیز پرلّامَن کی تحقیق ملک کی لاکھوں خواتین کی زندگی کو بہتر بنانے کی خاطر حکومت کی موجودہ کوششوں کی تصدیق کرنے کے لیے ہندوستانی خواتین کی سماجی بیداری اور شہری مشغولیت کے مابین رابطہ تلاش کرتی ہے۔

غذائی تحفظ کا مطالعہ

لوبیل نے زرعی پیداواریت اور عالمی غذائی تحفظ پر اپنی توجہ مرکوز کرنے کے لیے اپنے اسفار کے دوران فصل کی پیداوار کے ساتھ ساتھ غذائی عدم تحفظ میں اپنے براہ راست تجربے کا کریڈٹ اپنی گریجویٹ اسکولی تحقیق کو دیا ہے۔نظامِ گندم کے اپنے ابتدائی مطالعے میں انہوں نے فصل کی پانی کی ضروریات اور فصل کو بوئے جانے کے بندوبست کا مشاہدہ کیا تھا۔وہ کہتے ہیں ”۲۰۰۶میں انڈیا کے اپنے پہلے دورے کے دوران میرا سابقہ آب و ہوا کی تبدیلی، زمینی پانی کی گرتی سطح، مٹی کی گراوٹ اور دیر سے بوائی جیسے بہت سارے ایسے معاملات سے ہوا تھا جو زراعت کو متاثر کر رہے تھے۔ پھر بھی اس کا کیا کرنا ہے اس کے بارے میں بہت کم معلومات تھیں۔‘‘

لوبیل کو اس بات کا یقین ہوگیا سٹیلائٹ ڈیٹاکا زمینی مشاہدات کے ساتھ مل کر تجزیہ یہ اندازہ لگانے میں مدد کرسکتا ہے کہ زرعی نظام کس طرح تبدیل ہورہا ہے۔وہ بتاتے ہیں ”یہ بات واضح ہوگئی کہ سٹیلائٹ ٹیکنالوجی زراعت کے ساتھ اچھی طرح سے مماثلت رکھتی ہے اور پودووں کی افزائش کو سمجھنے میں ہماری مدد کرنے اور زرعی نظام کو بہتر بنانے کے طریقے تلاش کرنے میں بہت بہتر طور پر کام کرتی ہے۔‘‘

زمین پر پودے کی تعداد دکھانے کے لیے منعکس سورج کی روشنی کے رنگ(یا سبز رنگ)کو استعمال کرنے کا رواج ناسا نے ۱۹۷۲میں شروع کیا تھا۔یہ چیز نقشہ کھینچنے یا بنانے میں تو مددگار ہوتی ہے مگر پودے کی نشوونما کی پیمائش کے لیے اس کے استعمال کی اپنی محدودیت ہے۔لیکن سٹیلائٹ تشبیہات سے متعلق اعداد وشمار کے معاملے میں حالیہ پیش رفت کے نتیجے میں شمسی توانائی کے بعد ایک پودے کے فضلہ سے توانائی کے مختصر بہاؤ کی حقیقی پیمائش ممکن ہو سکی ہے جو روشنی یا چمک کے طور پر ظاہر ہوتی ہے۔

لوبیل کہتے ہیں ”مجھے ایسا لگتا ہے جیسے روٹی کے ٹکڑے زمین پر گر رہے ہوں اور لوگ اسے کھا رہے ہوں۔یہ چمک پودوں کی افزائش کے اعتبار سے بڑھتی رہتی ہے۔اس لیے پودے جس قدر تیزی کے ساتھ بڑھیں گے ان میں فوٹو سنتھیسِس کے نتیجے میں چمک کا عمل اسی تناسب میں رونما ہوگا۔‘‘

لوبیل کے مطابق اس سے فصلوں کی اگلی نسل پر دھیان مرکوز کرنے کے بارے میں سوالوں کا ایک نیا پٹارہ کھل جاتا ہے۔وہ کہتے ہیں ”مثال کے طور پر ہم زیر زمین دستیاب پانی، چٹانوں کی تہہ میں پانی کی کمی، بوائی کے وقت مٹی کی جتائی میں کمی اور فصل کی پیداوار کو متاثر کرنے والے دیگر عناصرسے متعلق پودوں کی نشو ونما میں تبدیلی کے لیے دستیاب مصنوعی سیارہ کے اعداد و شمار کے ساتھ تاریخی اعداد وشمار کا موازنہ کر سکتے ہیں۔عالمی سطح پر خوراک کی پیداوار کی نگرانی کے لیے  فلوریسینس کا استعمال سائنس کو آگے بڑھاتا ہے اور زراعت اور لوگوں کی زندگیوں میں بہتری لاتا ہے۔‘‘

 

صنفی امتیاز پر تحقیق

پرلّامَن اپنے پولیٹکل سائنٹسٹ دادا کے ۱۹۵۰اور ۱۹۶۰کی دہائی میں انڈیا میں کام کرنے سے متاثر ہوئی تھیں۔انہوں نے ٹیکساس اے اینڈ ایم یونیورسٹی میں انڈیا میں مائیکرو فائنانس  کی پڑھائی تک سیاست میں بھارتی خواتین کی شراکت داری کے تئیں پائے جانے والے عدم مساوات کو سمجھنے کے اپنے عزم کا پتہ لگایا جہاں سے انہوں نے ۲۰۱۱ میں سیاسیات اور معاشیات میں بیچلر ڈگری لی۔ ہند میں صنفی امور کے بارے میں ان کی ہارورڈ یونیورسٹی کے تحقیقی مطالعہ سے جنوبی ایشیا میں خواتین کو سیاسی طور پر شامل کرنے اور ان کو بااختیار بنانے کے جذبے کو تقویت ملی۔ انہوں نے ۲۰۱۷ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

پرلّامَن نے جب اپنی کتاب لکھنے کا منصوبہ بنایا تو یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ انڈیا میں خواتین خاص طور پر سیاست سے الگ تھلگ کیوں ہیں اوروہ کیا عوامل ہیں جن سے خواتین کی سیاست میں شرکت کے صنفی امتیاز کو کم کیا جا سکتا ہے۔ وہ کہتی ہیں ”کسی گھرانے میں خواتین کی غیرمساوی سودے بازی کی طاقت بہت ساری برادریوں کے معاشرتی اصولوں کے ذریعہ بڑھ رہی ہے جہاں خواتین سے مردوں کے لیے سیاسی اختیارات چھیننے کی امید کی جاتی ہے۔میرے اعداد و شمار سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ان حالات میں خواتین مردوں کے مقابلے ایک چوتھائی سے لے کر ایک تہائی کی شرح کے درمیان سیاست میں حصہ لیتی ہیں۔‘‘

کتاب نویسی کی تیاری میں کی گئی تحقیق سے دیہی خواتین کی سیاست میں شرکت کا بھی علم ہوتا ہے۔یہ نتیجہ ریاست مدھیہ پردیش کے پانچ اضلاع کے ۳۷۵گاؤں سے یکجا کیے گئے اعداد وشمار کی بنیاد پر نکلا۔تحقیق سے جو حقائق سامنے آئے وہ بتاتے ہیں کہ بعض گاؤں میں خواتین کی شرکت بیس سے پچیس فی صد کے درمیان ہے۔ شراکت کا فی صد ان گاؤں میں بڑھ کر قریب قریب دو گنا ہو جاتا ہے جہاں خواتین سیلف ہیلپ گروپس میں سرگرم ہیں۔ اور خواتین کی سیاست میں شرکت کا تناسب بڑھ کر ایسے گاؤں میں ستر فی صد تک پہنچ جاتا ہے (جو مردوں کے برابر ہے)جہاں سیلف ہیلپ گروپوں کو صنفی طور پر بااختیار بنانے کے لیے مداخلت کی گئی۔

پرلّامَن کا کہنا ہے”حیرت انگیز طور پر شراکت داری کی اونچی شرح میں بنیادی طور پر خواتین کے ذریعہ معاش کو بہتر بنانے کے مقصد سے بیرونی مداخلت کارفرمارہی ہے۔میں نے اپنے مطالعہ میں پایا کہ کس طرح سے غیر سرکاری تنظیم  پروفیشنل اسسٹینس فار ڈیولپمنٹ ایکشن(پی آر اے ڈی اے این)نے اس علاقے خاص طور پر کیسلا بلاک میں ۲۵سال کی موجودگی کے ساتھ مالی شمولیت اور ذریعہئ معاش کو بہتر بنانے کے مقصد سے خواتین کو سیلف ہیلپ گروپوں میں متحرک کیا۔اس کے نتیجے میں خواتین کی سیاسی مصروفیت میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے کو ملا۔‘‘

پرلّامَن کے مطابق یہ اثرات صنف پر مبنی تمدنی تعلیمی پروگرام کو شامل کرنے کے ساتھ اور بھی بڑھتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں ”یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ جب خواتین کو یہ احساس ہوتا ہے کہ ان کی جدوجہد مشترکہ ہے توسماجی رابطے یکجہتی پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔اس کے بعد غیر سرکاری تنظیمیں موجودہ گروپوں میں شامل ہوئیں تاکہ وہ صنف اور سیاست کے بارے میں بات کریں۔اس کے مقابلے میں اسی ضلع میں گھوڑا ڈونگری بلاک میں جہاں کوئی غیر سرکاری تنظیم موجود نہیں ہے، خواتین میں سیاسی شراکت داری کی شرح بہت کم ہے۔ اس طور پر یہ چیزحالات میں کسی تبدیلی کے فقدان کے ثبوت کے طور پر کام کرتی ہے۔‘‘

حکومت ہند نے قومی دیہی ذریعہ معاش مشن کا آغاز کیا۔ اس کے ساتھ ہی ملک بھر میں سیلف ہیلپ گروپ قائم کیے گئے جن میں فی الحال تقریباً ۶۹ ملین دیہی خواتین حصہ لے رہی ہیں۔ پریلامن کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ یہ گروپ جو خواتین کی مالی شمولیت کی غرض سے تیار کیے گئے، خواتین کی سیاسی شراکت داری پر بہت زیادہ اثرانداز ہو رہے ہیں۔ وہ کہتی ہیں ”ان پروگراموں کی توسیع سے خواتین کی سیاسی زندگیوں کے لیے اہم نتائج ملنے کا امکان ہے۔‘‘

ان جگہوں پر جہاں صنفی امتیاز میں کسی قدر کمی واقع ہوئی ہے پریلامن نے پایا کہ خواتین کے سیلف ہیلپ گروپوں نے خواتین کو پسماندگی کا شکار ہونے سے بچانے اور معاشرتی دباؤ سے نمٹنے کے لیے ڈھانچے فراہم کیے۔ساتھ ہی ساتھ انہیں اپنی حکومت سے مطالبات کرنے کا اختیاربھی دیا۔وہ بتاتی ہیں ”تمدنی تعلیم صرف ووٹ ڈالنے کے طریقے کے بارے میں معلومات فراہم نہیں کرتی،یہ یکساں طور پر اہم ہے کہ گروپوں میں ایسی سرگرمی ہو رہی ہے اور نتیجے کے طور پر معاشی گروپوں کو ایسے مقامات میں بدل رہی ہے جہاں سیاسی مکالموں کی گنجائش پیدا ہوتی ہے۔‘‘

 

ہلیری ہوپیک کیلیفورنیا کے اورِنڈا میں مقیم ایک آزاد پیشہ قلمکار، ایک اخبار کی سابق ناشر اور نامہ نگار ہیں۔


ٹَیگس

تبصرہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے